Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Mohsin Goraya
  3. Bechare Sarkari Afsaran

Bechare Sarkari Afsaran

بے چارے سرکاری افسران

 مملکت خداداد میں تقسیم کی کہانی بہت پرانی ہے، تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کا انگریز فارمولہ آج بھی جاری ہے، آزادی کے فوری بعد تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہو گیا، پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ تھا مگر آزادی کے فوری بعد پہلے پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچی، کے نام پر نفرت کا بیج بویا گیا اس کے بعد مسلک اور فرقہ کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کی بنیاد ڈالی گئی، پہلے پاکستانیت میں دراڑیں پڑیں، بعد میں اسلام کے نام پرخلیج وسیع کی گئی، جس کے بعد قوم ایک مرکز، محور سے محروم ہو گئی، تقسیم کا یہ عمل مختلف صورتوں میں اب بھی جاری ہے، یہ تقسیم سیاست اور عوام سے نکل کر اب ریاستی اداروں میں بھی در آئی ہے، بیوروکریسی کا بھی یہی حال ہے، اس میں قصور حکمرانوں کا ہے تو افسروں کا بھی ہے۔

 اقتدار میں جو افسر کسی کو سیدھے منہ جواب دینا پسند نہیں کرتے، مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ایسی سٹیج پر ہوتے ہیں جب کوئی دوسرا انہیں منہ نہیں لگاتا، اس وقت ان کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا ہے ہر کسی کے سوال کا جواب دینا ان کی خواہش ہوتی ہے مگر اس سٹیج پر کوئی ان سے سوال کرنے والا نہیں ہوتا، تب وہ بے چارے ہوتے ہیں، وجہ یہ کہ جب وہ کسی کیلئے کچھ کر سکتے تھے اس وقت انہوں نے خود کوآسمانی مخلوق بنائے رکھا اور عام شہریوں سے کیا اپنے ماتحت عملہ سے ملاقات کو بھی توہین گردانتے تھے، دوسری طرف وہ سارا کام چٹوں پر انجام دیتے، ان کے دفاتر میں با اثر لوگوں، وزراءاور بڑے لوگوں کا ہر وقت جمگھٹا رہتا اور ان سے وہ بڑے اخلاق اور مروت سے گفت و شنید کرتے رہتے، چائے اور مشروبات کے دور چلتے، اور سب اپنے کام کی یقین دہانی کیساتھ دفتر سے روانہ ہو تے، الوداع کرتے وقت بھی ان افسروں کے چہرے پر مسکراہٹ سجی رہتی۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ بیوروکریسی کسی حکومت کا چہرہ ہوتی ہے، حکومتی پالیسیوں کو عملی شکل دینا عوام کو مسائل کے حوالے سے ریلیف دینا ان کا ذمہ ہوتا ہے مگر اس کے لئے انہیں عوام کے لئے بھی اپنے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں۔

یہ بھی ہماری بد قسمتی ہے کہ پاکستان میں جب بھی معاملات ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جا رہے ہوں، مہنگائی بڑھ رہی ہو، امن و امان خراب ہو رہا ہو اور انصاف بھی نہ مل رہا ہو تو اس کی ذمہ داری سیاسی حکومت کے بجائے صرف اور صرف سرکاری افسران پر ڈال دی جاتی ہے، برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر، کے مصداق کبھی انہیں، او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے اور کبھی نوکریوں سے فارغ، معطل کیا جاتا ہے اور کبھی جبر ی ریٹائرڈ۔

 اب ایک بار پھر کارکردگی کی بنیاد پر انہیں جبری ریٹائرڈ کرنے کی پالیسی پر عمل درآمدشروع ہو رہا ہے، احتساب ضرور ہونا چاہئے، مگر بہتری کی کوشش میں گنگا الٹی نہیں بہنی چاہئے، یہ وہ کام ہے جو آزادی کے فوری بعد شروع ہو جانا چاہیے تھا، اس کیلئے قوانین اور ضوابط موجود ہیں، مگر سابق حکمرانوں نے بیوروکریسی سے من مرضی کے کام لینے کیلئے ان ضابطوں سے صرف ڈراوے کا کام لیا، حقیقی احتساب ہوتا تو بیوروکریسی کا قبلہ بھی درست رہتا اور حکمران طبقہ، با اثر سیاستدان سرکاری افسروں کو روبوٹ نہ بنا سکتے، 1970ءکے بعد بیوروکریسی کی گرفت انتظامی معاملات پر کمزور ہوتی گئی، جنرل ضیاءدور میں آوے کا آوا ہی بگڑگیا، بلکہ کہا جائے کہ سرکاری مشینری کا ڈھانچہ ہی تباہ کر دیا گیا تو غلط نہ ہو گا۔

 حکمرانوں کی انہی بے اعتدالیوں کے باعث سرکاری افسروں نے خود کو غیر محفوظ سمجھنا شروع کر دیا، غیر یقینی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جن کا ہاتھ پڑا انہوں نے امریکہ و یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کی شہریت حاصل کر نے کی کوشش شروع کر دی بہت سے کامیاب بھی ہوئے اور متعدد نے وطن کو خیر باد کہہ دیا، یوں ہم نے سرکاری اخراجات سے تربیت یافتہ سرکاری افسروں کی ٹیم کو تبا ہ کر دیا بہت سے عالی دماغ وطن چھوڑ گئے، یہ سلسلہ آج بھی اسی بلکہ اس سے زیادہ رفتار سے جاری ہے، یہاں صرف کسی شکائت یا الزام پر احتساب کی تلوار لٹکا دی جاتی ہے، پسند نا پسند آڑے آتی ہے۔ اسی وجہ سے افسروں کی کام میں دلچسپی کم اور سیاسی پشت پناہی تلاش کرنے پر زیادہ توجہ مبذول ہو گئی، اور ملک کے انتظامی معاملات کی نیا ہی ڈوب گئی، افسر کسی بھی گروپ سے ہو اگر سیاسی آشیر باد سے محروم ہے تو عضو معطل ہے، تعلیم، تجربے، تربیت، اہلیت، قابلیت، فرض شناسی، کام سے لگن، قانون کا احترام، قواعد کی پابندی سب ماضی کے قصے لگتے ہیں، "دلہن وہی جو پیا من بھائے"کے مصداق معاملات چل رہے ہیں۔

 ہم نے محکمہ صحت میں انجینئر لگا ئے اور انجینئر نگ کا شعبہ ڈاکٹروں کے حوالے کیا، زراعت اور لائیو سٹاک میں ایسے سیکرٹری بھی لگائے جاتے ہیں جن کو ان شعبوں بارے کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا۔ پوسٹنگ کی شرط یہ کہ کس گروپ سے ہے، کتنا پیارا ہے اور کتنا خیال کرتا ہے، جس سے کرپشن کے ایسے راستے کھلے جن کی دھول تک کو ہمارے تفتیشی ادارے نہ پا سکے، غیر پیشہ ور افسر جہاں گیا اس نے ٹھینگا بجایا، نا اہل افسروں کیخلاف کارروائی بہت اچھی روایت ہے مگر دیکھنا ہو گا اس نا اہلی کے پس پردہ کس کس کا ہاتھ ہے، صرف افسروں کو مورد الزام ٹھہرانا انصاف نہیں، دیکھنا یہ بھی ہے کہ افسروں کی کام میں دلچسپی کیوں کر کم ہوئی، کوئی تو وجہ ہو گی، اتنی محنت سے مقام حاصل کرنے والوں نے اپنا کام چھوڑ دیا، ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی کام کے پیچھے محرکات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے، تاکہ نا اہلی، کام چوری اور کرپشن کے راستے ہمیشہ کیلئے بند کئے جا سکیں، مگر ہم ہنگامی حالات کے تحت ہنگامی فیصلے کر کے معاملہ ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں خرابی جڑ سے ختم نہیں کرتے، فوری تبادلے، جبری ریٹائرمنٹ بھی ہنگامی نوعیت کے اقدام ہیں، مسئلہ کا مستقل حل نہیں۔ سرکاری افسر جس نے حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کرانا ہوتا ہے اسے اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے، یہ یقین چاہئے کہ اسے اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع دیا جائے گا اور ستائش ہو گی مگر ہمارے ہاں ایوارڈ ہے نہ ریگارڈ، ذرا سی کوتاہی پر زمین آسمان ایک کر دئیے جاتے ہیں، رشوت ستانی عیب، ملک و قوم سے بد دیانتی ہے، مگر کبھی کسی نے سوچا کہ رشوت کیوں لی جا رہی ہے، وجوہات کیا ہیں؟ نیب کے خوف سے افسروں نے پہلے ہی کام کرنا چھوڑ دیا ہے اب ایک اور نیا احتساب۔ تبادلے کریں یا جبری ریٹائرڈ، مگر خرابی کی بنیاد کو مد نظر رکھ کر، افسروں کو اختیار اعتماد دیکر ان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کرنا ہو گی، خدا کا واسطہ ہے افسروں کو بے وقعت نہ کریں، ان کو اہمیت دیں، ان سے کام لیں ورنہ نظام نہیں چلے گا۔

Check Also

Riyasat Se Interview

By Najam Wali Khan