میاں نواز شریف کا فلسفۂ محصولات اور تازہ بجٹ
سن تو ٹھیک سے یاد نہیں، 2011ء تھایا 2012ء لیکن منفرد کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی صاحب کا وارث روڈ والا معاصر کا دفتر تھا اور میاں نواز شریف کے اعزاز میں ظہرانہ۔ جناب مجیب الرحمن شامی، نذیر ناجی مرحوم، ایاز امیر، سہیل وڑائچ، اور دیگر کئی اکابر و اصاغرصحافی، دانشور، کالم نگار اس محفل کی زینت۔ دوران گفتگو میاں نواز شریف نے رائے دی کہ معیشت کے فروغ و استحکام کے لئے ٹیکسوں کی شرح کم سے کم ہونی چاہیے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس ادائیگی کی ترغیب دے کر قومی معیشت کو مضبوط کیا جائے۔
بحث آگے بڑھی تو انہوں نے کہا: ذاتی طور پر میں تین چار فیصد سے زیادہ کا قائل نہیں لیکن اسے دس فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے، اس سے زیادہ ٹیکسوں کی شرح زیادتی ہے اور ٹیکسوں کی وصولی میں کمی کی اہم ترین وجہ۔ کئی بزرگوں کی رائے تھی کہ اتنے کم ٹیکسوں سے کاروبار ریاست نہیں چل سکتا، ریاستی نظام جس قدر وسعت اختیار کر چکا ہے دفاع اور سلامتی کے مسائل امن عامہ کی ضروریات اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے لئے بہت زیادہ وسائل درکار ہیں۔ اختتام بحث تک میاں صاحب اپنی رائے پر قائم رہے اور اسے ملکی فلاح و بہبود کا نادر نسخہ قرار دیتے رہے۔
مجھے یہ واقعہ 2024-2025ء کے قومی بجٹ پر قومی اسمبلی میں ہونے والی بحث اور تحریک انصاف، سنی اتحاد کونسل، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں کی تقاریر سن کر یاد آیا جو بھاری بھرکم ٹیکسوں کی بنا پر موجودہ بجٹ کو عوام دشمن، کسان دشمن اور کاروبار دشمن قرار دے رہے تھے، ویسے تو ہمارا ہر بجٹ ہی عوام کے لئے مشکلات کا پیغام لاتا ہے او راس کا سب سے زیادہ بوجھ اسی طبقے کو اٹھانا پڑتا ہے جو قومی معیشت میں کسی نہ کسی انداز میں اپنا حصہ ڈالتا ہے جبکہ فوائد و ثمرات ہمیشہ وہ طبقہ سمیٹتا ہے جس نے قومی وسائل کو لوٹنا سیکھا ہے اور بس، مگر اس بجٹ میں عوام دشمنی کے اجزاء حکومتی حلیفوں کو بھی نظر آنے لگے ہیں جبکہ ان معاشی حالات میں بھی سول اور خاکی ایڈمنسٹریشن کے اخراجات ہیں کہ روز بروز شیطان کی آنت کی طرح بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں مگر مجال ہے کہ حکومت نے اس کی کارکردگی بہتر بنانے کی سعی کی ہو یا موجودہ حکومت پوری قوم کی طرح اسے بھی قربانی پر آمادہ کرنے کی تدبیر سوچے۔ یہ خود تو اپنے آپ کو اس کا مکلف سمجھتی ہے نہ اس درماں حال قوم کا حصہ۔ بدنام بے چارے سیاستدان ہیں مگر جو لوٹ مار ہماری ایڈمنسٹریشن نے مچا رکھی ہے الامان والحفیظ ؎
کسی بتکدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری
امریکہ اور چین اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ دولت مند، ترقی یافتہ اور باوسیلہ ملک ہیں مگر ہمارے ہاں کے اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، کمشنر، ایس پی، سی سی پی او، آئی جی جس طرح کی پرتعیش زندگی گزارتے ہیں ان دونوں ممالک کے وزیر اس کا تصوربھی نہیں کر سکتے۔ ان دونوں ممالک کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ یعنی نائب وزیر بے چارے کا سرکاری گھر، گاڑی اور مراعات کا موازنہ ہمارے ہاں کے ایس پی اور اسسٹنٹ کمشنر سے کریں تو آپ کو پتہ چلے کہ گریڈ سترہ کے پاکستانی افسروں کے کیا ٹھاٹھ باٹھ ہیں۔ لاہور کے کمشنر کی قیام گاہ کا رقبہ دنیا کی سپر پاور امریکہ کے صدارتی محل وائٹ ہائوس سے زیادہ ہے البتہ سرکاری شعبے میں کام کرنے والے انہی گریڈز کے ٹیچر، انجینئر، ڈاکٹر، جج بے چارے خواب میں بھی ایسی مراعات کا تصور نہیں کر سکتے۔
جن دنوں وزیر اعظم شہباز شریف گلی گلی یہ صدا لگا رہے تھے کہ خدارا! ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے ہمارے کاسہ گدائی میں کچھ ڈالو ورنہ ہم دیوالیہ ہوئے کہ ہوئے۔ انہی دنوں اعلیٰ سطح کی ایک کفائت شعاری کمیٹی بنی جس نے سرکاری سطح پر اخراجات میں کمی کے اقدامات تجویز کئے تاکہ عوام کو بھی پیٹ پر پتھرباندھتے تکلیف نہ ہو، کفائت شعاری کمیٹی نے تجاویز مرتب کیں، کابینہ میں بھی پیش ہوئیں۔ بڑے گھروں، مہنگی گاڑیوں، مفت پٹرول اور دیگر سہولتوں کی حوصلہ شکنی پر زور دیا گیا مگر عملدرآمد کی نوبت نہ آ سکی اور اب وزیر اعظم صاحب پھر قوم کو اگلے ڈیڑھ دو ماہ میں انقلابی اقدامات کا مژدہ سنا رہے ہیں جس پر ملک کے فاقہ کش یہ گنگنا کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ ؎
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
بات میاں نواز شریف کی گفتگو سے چلی تھی، معلوم نہیں انہوں نے برادر خورد میاں شہباز شریف اور سمدھی اسحق ڈار کو ٹیکسوں کی شرح میں کمی کے اس فارمولے سے کبھی آگاہ کیا یا نہیں؟ جو بارہ تیرہ سال قبل آنجناب نے دانشوروں اور صحافیوں کی محفل میں بیان کیا۔ ہو سکتا ہے کہ جن بزرگوں نے میاں صاحب کے اس فارمولے کی مخالفت کی ان کے دلائل سے سابق وزیر اعظم قائل ہو گئے ہوں لیکن جدید دور کے مسلم سکالر علامہ جاوید غامدی کا یہ نقطہ نظر ہے کہ قرآنی فلسفہ زکوٰۃ کی رو سے ریاست زیادہ سے زیادہ اڑھائی فیصد شرح سے ٹیکس نافذ کر سکتی ہے اس سے زیادہ ٹیکس کی وصولی صریحاً ظلم اور زیادتی ہے۔
ابن خلدون نے اپنے مشہور زمانہ مقدمہ ابن خلدون میں بھی جہاں تاریخ و عمرانیات کے شعبوں میں اپنی تحقیق اور تخلیقی کاوش سے انسانی عقل و دانش کو خیرہ کیا ہے وہاں معیشت کے میدان میں بھی متاثر کن خیالات پیش کئے ہیں۔ ایڈم سمتھ سے بہت پہلے انہوں نے پیداوار کو دولت کا واحد ذریعہ قرار دیا اور لکھا کہ کسی ملک نے معاشی ترقی اور خوشحالی کا ہدف حاصل کرنا ہے تو وہ اپنی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ کرے۔ ابن خلدون محصولات(ٹیکسز) کی کم سے کم شرح کا قائل ہے۔ وہ زیادہ محصولات (ٹیکسز) کو نفع کے محرک اور پیداواری عمل کا قاتل سمجھتا ہے۔
قوموں کے عروج و زوال میں ابن خلدون ریاست کے زیادہ ٹیکسوں کو زوال کی بڑی وجہ سمجھتا ہے۔ ابن خلدون کے بقول "ریاست اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے ٹیکس لگاتی ہے مگر ٹیکسوں کی آمدنی دیکھ کر وہ لالچ کا شکار ہو جاتی اور اپنے اخراجات بڑھانا شروع کر دیتی ہے۔ اپنی فضول خرچی اور عیاشیانہ اخراجات پورے کرنے کے لئے ٹیکسوں میں اضافے کی ترغیب معیشت کے سکڑنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ "
"کاروباری سرگرمیوں میں مزید خرابی چلی آتی ہے، حکومت کی ٹیکسوں کی آمدنی میں بھی مزید کمی آتی ہے، یوں ریاست اور سماج غریب سے غریب ترہوتے چلے جاتے ہیں اور قوم زوال کے شکنجے میں پھنس جاتی ہے جس سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ٹیکس کم ہوں، کاروبار کے مواقع وسیع ہوں، پیداواری عمل میں تیزی آئے اور حکومت معقول ٹیکس اور اخراجات کی مدد سے طلب میں اضافہ کرے"۔
ابن خلدون کو پڑھنا تو درکنار اس عظیم فلاسفر کا نام بھی ایوان اقتدار میں کم ہی سنا گیا ہوگا لیکن میاں نواز شریف ہی اپنے برادر خورد میاں شہباز شریف اور سمدھی اسحق ڈار کو سمجھائیں، یہ دونوں یعنی وزیر اعظم اور ڈپٹی وزیر اعظم درآمدی وزیر خزانہ سے گزارش کریں کہ حضور والا! پاکستان میں آپ کو یہ منصب قومی عروج کی داستان رقم کرنے کے لئے تفویض کیا گیا ہے، زوال کے راستے پر گامزن کرنے کے لئے نہیں۔
اس ملک و قوم پر رحم کریں اور ٹیکسوں کے بوجھ سے ریاست اور قوم کی کمر دوہری نہ کریں کہ آپ تو شائد محمد شعیب، معین قریشی، شوکت عزیز اور حفیظ شیخ کی طرح منصب چھوڑنے کے بعد یہاں رہنا پسند نہ کریں مگر پچیس کروڑ عوام کے لئے ہجرت ممکن ہے نہ موجودہ معاشی زبوں حالی کے ساتھ پاکستان میں زندگی گزارناآسان۔ اور ہاں ابن خلدون نے سیاسی عدم استحکام کو بھی معاشی سرگرمیوں کے لئے تباہ کن قرار دیا ہے مگر اس کا ذکر پھر کبھی۔