خوف اور لالچ کا ہتھیار
پس ثابت یہ ہوا کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ خواہ غیرجماعتی اور مارشل لاء کی پیداوار ہی کیوں نہ ہو، فارم 47کی پیداوار پارلیمان سے زیادہ طاقتور اور دلیر ہوتی ہے۔
یہ قصّہ ہے1985ء کا، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق نے ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا جس کا پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کر دیا، ایئر مارشل (ر) اصغر خان کی قیام گاہ پر ایم آر ڈی کے اجلاس میں نوابزادہ نصراللہ خان، محترمہ بے نظیر بھٹو کے نمائندے غلام مصطفی جتوئی اور مولانا فضل الرحمن نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو فوجی آمر جنرل ضیاء الحق سجدہ ٔ شکر بجا لایا کہ غیر جماعتی الیکشن کا مرحلہ آسان ہوگیا۔
انہی غیر جماعتی انتخابات کی پیداوار اسمبلی وجود میں آئی تو جنرل ضیاء الحق کی خوشی دیدنی تھی مگر اس وقت یہ خوشی پریشانی میں بدل گئی جب حلف برداری کے بعد پہلی ہی ملاقات میں سندھڑی کے ایک حلقے سے انتخابات جیت کر وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے والے مرنجاں مرنج، کم گو محمد خان جونیجو نے آرمی ہائوس میں ملک کے آمر مطلق سے پوچھا "جنرل صاحب! آپ مارشل لاء کب اٹھا رہے ہیں؟" اس پر بس نہیں لاہور کے ایک جلسہ عام میں محمد خان جونیجو نے جنرل ضیاء الحق سے مشورہ کئے بغیر مارشل لاء اٹھانے کی تاریخ بھی انائونس کر دی جبکہ فوجی آمر انہیں بار بار یہ طفل تسلیاں دیتے چلے آ رہے تھے کہ اب مارشل لاء آپ کی جمہوری حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے برقرار ہے مگر جونیجو کا اصرار تھا کہ " جمہوریت اور جمہوری حکومت کو کسی فوجی بیساکھی کی ضرورت نہیں"اور" مارشل لاء اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے"۔
جنرل ضیاء الحق جس ہائبرڈ نظام کو چلانا چاہتے تھے وہ ایک ایسے وزیر اعظم نے مسترد کر دیا جس کے پیچھے کوئی سیاسی جماعت تھی نہ پورے پاکستان کا مینڈیٹ اور نہ عوامی مقبولیت کا اثاثہ، تاہم ذاتی دیانت و امانت، اخلاقی ساکھ اور ایک حلقہ ہی سہی، عوام کا اعتماد وہ سیاسی سرمایہ تھا جس نے محمد خاں جونیجو کو ہمہ مقتدر جنرل ضیاء الحق سے یہ سوال کرنے کا حوصلہ بخشا اور "مارشل لاء اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے "کا نعرہ مستانہ لگانے پر آمادہ کیا۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم کو دوسری بار پریشانی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب ان کے قانونی مشیر عزیز اے منشی اور جونیجو کے وزیر قانون اقبال احمد خان نے ایوان سے 1977ء کے مارشل لاء کی توثیق کے لئے چند سطری بل پیش کیا۔ آزاد پارلیمانی گروپ کے سربراہ ممتاز قانون دان حاجی سیف اللہ نے شور مچایا کہ اس بل سے منسلک مکمل مسودہ پیش کیا جائے کہ حکومت ایل ایف او کی کن شقوں کو منظور اور 1973ء کے آئین کی کون سی شقوں میں ترمیم کرنا چاہتی ہے۔
حاجی صاحب کے توجہ دلانے پر حکمران پارلیمانی پارٹی نے بھی آئینی ترامیم کا مسودہ طلب کیا اور اس وقت تک منظور کرنے سے انکار کر دیاجب تک اس پر سیر حاصل بحث نہ ہو۔ چنانچہ آئین میں ترمیم کے اس بل پر کئی ہفتے تک بحث ہوئی، حکمران پارلیمانی پارٹی نے چند رکنی اپوزیشن بالخصوص حاجی سیف اللہ کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے ترمیمی بل کی کئی شقوں کو مسترد کر دیا اور آٹھویں ترمیم منظور ہوئی تو اس میں جنرل ضیاء الحق کی مجوزہ کئی ترامیم اور درجن بھر صوابدیدی اختیارات موجود ہی نہ تھے اور اسمبلیاں توڑنے کے صوابدیدی اختیار کو بھی عدالتوں میں چیلنج کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔
موجودہ پارلیمنٹ اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہے اور آئین میں ترمیم سمیت ہر طرح کی قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے مگر حالت اس کی یہ ہے کہ جب تین روز قبل چھٹی کے دنوں میں قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس طلب کئے گئے تو ان کے ایجنڈے میں آئینی ترامیم کی منظوری شامل تھی نہ ارکان اسمبلی کو آئینی ترامیم کا مسودہ فراہم کیا گیا تاکہ وہ اس پر غور کر سکیں۔
قومی اسمبلی اور سینٹ میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت حکمران اتحاد کے پارلیمانی لیڈروں نے اپنے ارکان کو مراسلہ جاری کیا کہ وہ ایوان میں اپنی حاضری یقینی بنائیں اور جماعتی پالیسی کے مطابق آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دیں مگر ارکان اسمبلی تو درکنار وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر خارجہ و نائب وزیر اعظم اسحق ڈار اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو بھی مبینہ طور پر علم نہ تھا کہ آئین کی کون کون سی شقوں میں ترمیم کی جا رہی ہے اور اس سے آئین، پارلیمنٹ، پارلیمانی نظام، نظام عدل اور معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
غیر جماعتی اسمبلی کے ارکان میں جن کی اکثریت بلدیاتی اداروں کے ذریعے پہلی بار اسلام آباد پہنچی تھی یہ جرأت تھی کہ وہ فوجی آمر مطلق کے ترمیمی بل کو دیکھے، جانچے اور زیر بحث لائے بغیر منظور کرنے سے انکار کر دیں، سندھڑی کے محمد خان جونیجو نے بھی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے منہ پر کہہ دیا کہ مارشل لاء اور جمہوریت کا ہائبرڈ نظام ایک ساتھ نہیں چل سکتے مگر فارم 47کی پیداوار، حکومت اور اسمبلی کے ارکان میں یہ اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ عدلیہ کو انتظامیہ کا تابع مہمل بنانے، بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے، آئین کے بنیادی ڈھانچے کو یکسر تبدیل اور پارلیمنٹ کو غیر سیاسی قوتوں کا طفیلی بنانے، لوٹا کریسی اور ضمیر فروشی کو پروان چڑھانے والی آئینی ترامیم کا مسودہ پارلیمانی پارٹی میں پیش کرنے کا مطالبہ کر سکیں۔
عمر ایوب خاں کو تبھی یہ جملہ کسنے کا موقع ملا کہ آئینی ترامیم کا مجوزہ بل جس پھٹپھٹی پر لایا جا رہا تھا وہ راستے میں خراب ہوگئی اور وزیر قانون سمیت سب اسے تلاش کر رہے ہیں، تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام اگر سٹینڈ نہ لیتے، مولانا فضل الرحمن مذہبی دانش اور جرأت کا مظاہرہ نہ کرتے تو مسلم لیگ(ن)و پیپلز پارٹی نے سول بالادستی، جمہوریت، پارلیمان کی سپرمیسی اور قانون کی حکمرانی کے نعروں کی لٹیا اقتدار کے لالچ اور ذاتی و جماعتی مفادات کی ہوس میں ڈبو دی تھی۔
خوف اور لالچ کے ہتھیار استعمال کرکے بنو اُمیہ، بنو عباس نے دنیا کی مثالی خلافت راشدہ کو بدترین ملوکیت اور بادشاہت میں بدل دیا، یہ شریف، زرداری اور بھٹو تو پیداوار ہی خوف اور لالچ کی ہیں یہی ان کا سرمایہ حیات اور زاد سیاست ہے۔
عالمی یوم جمہوریت پر ان دونوں جماعتوں اور ان کے ایم کیو ایم وباپ جیسے اتحادیوں نے ثابت کیا کہ کسی کے مینڈیٹ پر ہاتھ صاف کرکے، طاقتوروں کی بیساکھیوں کے سہارے ایوان اقتدار میں داخل ہونے والے لاکھ چالاک اور تجربہ کار ہوں مگر اخلاقی جرأت اور سیاسی ساکھ سے محروم ہی رہتے ہیں، دوسروں پر خوف اور لالچ کا ہتھیار استعمال کرنے والے خود بھی ان کے طفیل رسوائی سمیٹتے ہیں۔ آئین، آزاد عدلیہ، بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر شب خون کی پہلی واردات تو ناکام ہوئی دوسری واردات کتنی تیاری کے ساتھ ہوگی، دیکھنا پڑے گا، اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف، وکلا برادری، آزاد منش ججوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کی آزمائش ابھی باقی ہے۔