عہدِ زوال
ہمارے حاکم ہمارے اعمال کی سزا سہی، یہ زمانہ زوال کا ہی سہی۔ اللہ کا شکر ہے کہ دیہات، قصبات اور شہروں میں آج بھی چراغ جلتے ہیں۔ موٹروے سے سرگودھا جاتے ہوئے، چنیوٹ سے آگے ایک چھوٹے سے قصبے کا نام لالیاں ہے۔ لالی نام کے ایک قبیلے سے منسوب۔ مرکزی سڑک سے دوتین کلومیٹر بائیں ہاتھ مہر صاحب کا گائوں واقع ہے، "کان ویں والی!"۔ دو تین ہی ملاقاتیں ہوئیں مگر میری یادوں میں ابد آباد تک وہ زندہ رہیں گے۔
میرے خالہ زاد بھائی میاں خالد حسین اور سابق سینیٹر طارق چوہدری گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں۔ پائوں میں جیسے چکر، ٹک کر بیٹھتے ہی نہیں۔ اپنے مرحوم والد منشی محمد حسین کا عکس، جہاں گرد، جہاں گشت اور سخاوت میں ضرب المثل۔ ویسی سخاوت تو سب کے حصے میں نہیں آئی مگر ان کی حسّ مزاح، مجلس آرائی، مہمان نوازی اور ہرروز نئے نگر کی تلاش۔ انہی کے ساتھ پہلی بار مہر حبیب سلطان کے ہاں جانا ہوا۔
1948ء کا ایک واقعہ ماموں ڈاکٹر نذیر مسلم مرحوم نے سنایا تھا۔ ایک صبح کان ویں والی سے چھ سات کلومیٹر دور چک 42جنوبی کے مکین سو کر اٹھے تو بہت سے جانور غائب تھے۔ تلاش شروع کی تو کھوجی ایک بستی کے قریب جا رکے۔ آگے بڑھنے سے انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ مہر صاحب کے ڈیرے تک جانے کی ہمت وہ نہیں پاتے۔ ان بزرگ کا تعلق اسی لالی قبیلے سے تھا۔
ہوا یہ کہ نہر کنارے ڈاک بنگلے میں ڈپٹی کمشنر نے معززین کو جمع کیا۔ یہ مہاجرین کے لیے قائم کردہ "جناح فنڈ "کے لیے تھا۔ مشرقی پنجاب سے لٹ پٹ کر آبسنے والوں کے قدم ابھی جمے نہ تھے۔ پانچ دس روپے سے زیادہ کوئی عطیہ نہ کر سکا۔ مہر صاحب اٹھے اور 500روپے کا اعلان داغا۔ اس زمانے میں ایک ایکڑ زرخیز اراضی جس سے خریدی جا سکتی تھی۔ آج اس کی مالیت بیس پچیس لاکھ روپے سے کم نہیں۔ ہمارے رشتے کے چچا بریگیڈئیر محمد رفیق مرحوم کے والد گرامی، لمبے تڑنگے صوبیدار چراغ دین کو نہ جانے کیا سوجھی کہ دفعتاً اٹھے اور کہا "پانچ سو پچاس روپے "۔ یہ حادثہ اسی کا شاخسانہ تھا۔
منشی محمد حسین، ڈاکٹر محمد نذیر مسلم اور ایک آدھ بزرگ غالباً نمبردار ملّا جی، مہر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان جی دار مگر دور اندیش لوگوں نے یہ کہا:ہم چوہدراہٹ جمانے اور فساد کرنے والے لوگ نہیں۔ پھر آپ سے ہمارا جھگڑا بھی کیا ہے۔ حوالدار صاحب من موجی آدمی ہیں۔ ان سے بگڑنے کا یہ کوئی معقول جواز نہیں۔ کچھ دیر میں سب گائیں بھینسیں گلوں میں بجتی گھنٹیوں کے ساتھ گائوں لوٹ آئیں۔ تین عشرے بیت گئے، جب منشی محمد حسین نے ایک بار پھر کان ویں والی کا رخ کیا۔ طرح طرح کی دوائیاں او ر عرقیات بنایا کرتے۔ اب کی بار انہیں گلاب کے سرخ پھول درکار تھے۔
اب لالی خاندان کے ایک اور فرزند سے انہیں واسطہ پڑا۔ گلاب کا ایک پورا ڈھیر وہ نذر کرنے پہ آمادہ تھے۔ شرط مگر کڑی تھی۔ کہا: آپ کے وزن کے برابر تول کر گلوں کا انبار پیش کر دوں گا مگر تین دن آپ میرے مہمان ہوں گے۔ یہ مہر حبیب سلطان تھے۔ عجیب لوگ تھے، عجیب طرح سے زندگی کرتے تھے۔ لالی خاندان میں بزرگوں کی وضع داری اور مہمان نوازی کے عجیب و غریب قصے سنائے جاتے۔ اس قدر حیران کن کہ کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ فلمیں بن سکتی ہیں۔
تین دن منشی صاحب گائوں میں ٹھہرے مگر اب ایک اور داستان کا آغاز ہوا۔ نئی نسل کو یہ تعلق منتقل ہوا اور اب تک برقرار ہے۔ برادرم عامر خاکوانی نے رمضان المبارک میں افتادگانِ خاک کی دستگیری اور مہمان نوازی کی فضیلت کا ذکر کیا تو مہر صاحب یاد آئے، ماضی کے کئی اور روشن کردار بھی۔
کچّے گھروندوں والا گائوں، جس کی ڈسپنسری میں کبھی علامہ طاہر القادری کے والد اپنے فرائض انجام دیا کرتے۔ گائوں کے حاشیے پر آٹھ کینال کو محیط مہمان خانہ، کمال سادگی مگر فراخی اور جمال۔ گل بوٹے، گھاس، گندم کا ذخیر ہ، شاید پالتو جانور بھی۔ میرے بھائی مجھے گھسیٹ کر لے گئے تھے۔ دیر سے سونے کاعادی۔ ناشتے کے لیے صبح سویرے جاگنا پڑا۔ نیم غنودگی کے عالم میں پائوں کسی چیز سے ٹکرایا تو میزبان سے پوچھا: یہ کیا چیز ہے۔ ایک چمک مہر صاحب کی آنکھوں میں لہرائی۔ دوسری نعمتوں کے ساتھ، ناشتے کی میز پر پیٹھے کا حلوہ بھی پڑا تھا۔
پھر کئی بار جانا ہوا۔ مہر صاحب ایک بار ڈیفنس لاہور میں بڑے بھائی میاں محمد یٰسین کے ہاں تشریف لائے۔ کچھ آہستہ رو، کچھ بجھے بجھے سے۔ یٰسین صاحب نے پوچھا: کیا ہوا مہر صاحب؟ "کچھ بھی نہیں "رسان سے بولے "بڑھاپا " آپ کی عمر کتنی ہے؟ بتایا کہ 59سال۔ 59سال کی عمر میں آدمی بوڑھا کیسے ہو جاتاہے؟ یہ تو معلوم نہیں لیکن چند برس میں وہ انتقال کر گئے۔ مہر صاحب کی سی بات کہاں۔ خوش دلی سے مہمان نوازی کی روایت مگر تعلیم یافتہ فرزندوں نے برقرار رکھی۔ مہر صاحب کی وفات کا علم ہوا تو دکھ سے دل بھر آیا۔ الفا ظ سے نادر آدمی کی تصویر بنانے کی کوشش میں عرض کیا: مرحوم اب ایک داستان ہیں، لالیاں سے سرگودہا جانے والے کوچبان آئندہ نسلوں کو ہمیشہ جو سناتے رہیں گے۔
افطار پارٹیوں میں سیاستدان، اعلیٰ افسراور ٹی وی میزبان جمع کرنے والوں کو کیا معلوم کہ مہمان نوازی ہوتی کیا ہے۔
یہ ہیں نئے لوگو ں کے گھر، ان کو اس کی کیا خبر
غم بھی کسی کی ذات تھی، دل بھی کسی کا نام تھا
وہ فکر پالتے، وہ ذمہ داری محسوس کرتے، ان کی مٹی آدمی کی محبت میں گندھی تھی۔ اب والدہ مرحومہ بی بی جی یاد آئیں۔ 62، 63برس پہلے گرما کا وہ رمضان المبارک۔ کھانا پکایا، اپنے اس فرزند کو ساتھ لے کر گائوں کے باہر ایک متروک مرغی خانے میں مقیم خاندان کو کھلایا۔ پھر دھوپ اور گرد سے بھری راہ پہ پیدل چلتی گھر لوٹ آئیں۔ پوچھا: بی بی جی، انہوں نے روزہ کیوں نہ رکھا۔ آپ ان کے لیے کھانا کیوں لے کر گئیں۔"وہ بیمار ہیں بیٹا " دھیمی آواز میں انہوں نے کہا کہ کوئی اور نہ سن لے۔
مہر حبیب سلطان کی چارپائی تلے مہر بند مشروبات کے ڈھیر پڑے ہوتے۔ ہر طرح کے ڈبّے۔"کس لیے؟ " ایک دن تجسس سے پوچھا۔ کہا: شہر سے آنے والوں کے بارے میں کیا معلوم کہ کس کو کیا چیز پسند ہے۔ اس جملے کا مفہوم دراصل یہ تھا: مہمان کی نا آسودگی کیسے گوارا کی جاسکتی ہے۔ جس دن کوئی مہمان نہ آئے، مہر صاحب کا ڈرائیور گائوں گائوں گھومتا۔ راہ چلتے بے نوا بچّوں کے لیے وہ عید کا دن ہوتا۔ صحن میں بٹھاتے اور ایک ایک سے پوچھتے کہ کھانے کی کیا چیز اسے بھاتی ہے۔ بعض فرمائشیں ایسی بھی ہوتیں کہ ڈرائیور کو بیس کلومیٹر پرے سرگودھا کا رخ کرنا پڑتا۔
تونسہ کے خواجہ کمال الدین انور یاد آئے۔ ایک تقریب میں ان کے فرزند ملے تو عرض کیا: کیا آپ کو اندازہ اور احساس ہے کہ آپ کے والد گرامی کیا تھے؟ جس روز گدّی نشین ہوئے، چار الفاظ پہ مشتمل اعلان کیا "لنگر جاری، نذرانے بند "
ہم اس سخیوں کے سخی ﷺ کی امت ہیں۔ ہم بگڑ گئے، مگر کتنے ہی بگڑ جائیں، بخیل کیسے ہو سکتے ہیں؟ ہمارے حاکم ہمارے اعمال کی سزا سہی، یہ زمانہ زوال کا ہی سہی۔ اللہ کا شکر ہے کہ دیہات، قصبات اور شہروں میں آج بھی چراغ جلتے ہیں۔