1.  Home
  2. Dr. Younas Hasni
  3. Inayat Khusarwana

Inayat Khusarwana

عنایتِ خسروانہ

آج کل ملک میں آٹے کی قلت کے باعث گندم، آٹے اور روٹی کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ لوگ پریشان ہیں۔ آٹا ایسی چیز ہے جسے امیر سے لے کر غریب تک سبھی استعمال کرتے ہیں مگر کم بختی غریبوں کا مقدر ہوتی ہے، اس لیے عوام میں شدید بے چینی پیدا ہو گئی اور ہر طرف ہاہا کار مچ گئی۔

ٹی وی چینل سے لے کر سیاست دانوں تک ہر ایک نے اپنے اپنے طور پر اس صورتحال پر اپنی بے چینی کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ بعض مرکزی وزرا نے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہارکیا۔

اسی دوران مسلم لیگ (ن) کی رہنما عظمیٰ بخاری نے ملک میں گندم کی قلت پر تشویش کا اظہارکیا اور مبینہ طور پر یہ بھی کہا کہ لاہور میں آٹے کی قلت ہے اور آٹا آسانی سے مہیا نہیں ہو رہا، اگر آٹا باآسانی مل رہا ہو تو میرے گھر بھی بھیج دیا جائے۔

دوسرے دن آٹے کی بوریوں سے بھرا ٹرک عظمیٰ بخاری کے دروازے پر آ کھڑا ہوا اور عظمیٰ بخاری صاحبہ کے کہنے کے مطابق عملے نے ان کے گھر کی بیل بجائی اور کہا کہ میڈم آٹا موجود ہے لے لیجیے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ایک افسر نے یہاں تک کہا کہ میڈم خود بھی کھائیں اور اپنے عزیز واقارب کو بھی کھلائیں۔

سوال یہ ہے کہ گندم کی قلت پر آواز اٹھانے والی محض عظمیٰ بخاری تھوڑا ہی تھیں۔ ہر سمت ہر طبقے کی طرف سے اس سلسلے میں تشویش کا اظہارکیا جا رہا تھا اور یہ بھی درست تھا کہ ملک میں گندم کی قلت پیدا ہو گئی، جس کی وجہ سے تنور پر روٹی کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے توکبھی روٹی کے وزن میں کمی کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ 180 گرام کے پیڑے کی روٹی 12 روپے میں اور 160 گرام کی روٹی دس روپے میں خریدی جا سکے گی۔ اس قسم کی پابندیاں عموماً متعلقہ کمشنروں کی طرف سے عائد کی جاتی ہیں مگر یہ عجیب مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ روٹی کا خریدار یا تو اپنے ساتھ ایک جیبی ترازو لیے پھرے یا تنور والا اپنے تنور پر ایک ترازو آویزاں کرے تا کہ ہر روٹی کے وزن کا تعین کیا جا سکے۔

یہ ساری مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہونے کے بعد بھی اگر حکمرانوں اور متعلقہ افسران کا خیال اب بھی یہ ہو کہ ملک میں گندم کی کمی نہیں ہے تو اس کو کیا کہا جائے۔ ٹی وی چینلز، اخبارات، سوشل میڈیا اور غریب عوام چلا چلا کر اور بلک بلک کرکہہ رہے ہیں کہ آٹے کے بحران نے ان کی زندگی حرام کر دی ہے مگر پنجاب فوڈ اتھارٹی کے افسران اعلیٰ اس پر مصر ہیں کہ ملک میں آٹے کی کمی نہیں۔

جس وقت پنجاب فوڈ اتھارٹی یہ دعویٰ کر رہی تھی تقریباً اسی وقت ایک مرکزی وزیر نے جو اپنی صاف گوئی کی شہرت رکھتے ہیں ٹی وی پر کہا کہ ملک میں گندم وافر مقدار میں موجود تھی، اس لیے حکومت نے اسے برآمد کر دیا جس کے باعث قلت پیدا ہوئی، اب ہماری حکومت گندم درآمد کر رہی ہے۔ پہلا فیصلہ بھی ان کے خیال میں غلط تھا اور دوسرا بھی غلط ہے۔

کیا فرماتے ہیں محکمہ خوراک کے افسران باتدبیر بیچ اس مسئلے کے کہ خود ان کے وزیر ملک میں گندم کی قلت کا اعتراف کر رہے ہیں نہ صرف یہ کہ اعتراف کر رہے ہیں بلکہ اس کی وجوہات بھی بیان فرما رہے ہیں جو حکومت کی ناعاقبت اندیشی کی دلیل ہے۔

عظمیٰ بخاری ایک سیاسی لیڈر ہیں انھوں نے ایک ٹاک شو میں کہا کہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں بھی آٹا نہیں مل رہا ہے۔ ماڈل ٹاؤن میں عظمیٰ بخاری صاحبہ کی رہائش گاہ ہے۔ محکمہ خوراک پنجاب نے آٹے کا ایک ٹرک عظمیٰ بخاری صاحبہ کے گھر بھیج دیا جس نے کئی تھیلے آٹا ان دروازے پر لا رکھے کہ میڈم آٹا لے لیں۔ محکمہ خوراک کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ یہ آٹا عظمیٰ بخاری صاحبہ کے کہنے پر بھیجا گیا کیونکہ ان کو آٹا کہیں نہیں مل رہا تھا۔

عظمیٰ بخاری سیاستدان ہیں اور ٹاک شو میں انھوں نے جوکچھ کہا وہ ان سیاسی لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا جو فیصلہ کرتے ہیں جو ذمے دار ہوتے ہیں اور جن سے جواب طلب کیا جاتا ہے۔

گندم کی قلت کے ذمے دار محکمہ خوراک کے افسر نہیں تھے۔ انھیں ایک سیاستدان کو اس طرح مضحکہ خیزی کا نشانہ بنانے کا کوئی اختیار نہیں تھا، اگر انھوں نے یہ حرکت بذات خود کی تو ان سے جواب طلبی ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے وہ خود سے اس قسم کی کوئی حرکت نہیں کر سکتے تھے یقینا:

کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں۔

اگر محکمہ خوراک پنجاب اسی قدر مستعد اور فرض شناس ہے اور واقعی۔ ان کے پاس وافر مقدار میں گندم اور آٹا موجود ہے تو پھر ان تمام افراد کے گھروں پر یہ آٹے سے بھرا ٹرک بھیجا جائے اور آٹے کی بوریاں ان کے گھروں پر اتروائی جائیں۔ جو چیخ رہے ہیں اور چلا رہے ہیں کہ ہائے آٹا، وائے آٹا!

عظمیٰ بخاری صاحبہ کے کوئی سرخاب کے پَر تھوڑا ہی لگے ہوئے ہیں کہ ان کو وافر مقدار میں آٹا فراہم کیا جائے جب کہ پورا ملک آٹے کی عدم دستیابی اور قلت پر آہ و بکا میں مصروف ہے۔ عظمیٰ بخاری صاحبہ کی خواہش کا اس قدر احترام چہ معنی دارد۔

دراصل عظمیٰ بخاری کی ایک بدبختی یہ ہے کہ ان کا تعلق (ن) لیگ سے ہے اور (ن) لیگ پر اس وقت برا وقت آیا ہوا ہے جس پر برا وقت آیا ہوا ہوتا ہے اس کی خواہش کا احترام اسی طرح کیا جاتا ہے۔

اب شکر کی بھی قلت پیدا ہو گئی ہے عظمیٰ بخاری صاحبہ کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ شکر کی قلت پر بھی لب کشائی فرما دیں۔ کیا عجب کہ شکر کی بوریاں ان کے دروازے پر دستک دینے لگیں مگر لطف تو اس وقت آئے گا جب وہ شکر کی یہ بوریاں اپنے ملازموں سے اٹھوا لیں اور "خود بھی استعمال کریں اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی فراہم کریں " کہ یہ محکمہ خوراک کی عنایت خسروانہ ہے۔

Check Also

Zindagi Mein Maqsadiyat

By Syed Mehdi Bukhari