یوم سیاہ کے بعد؟
یوم سیاہ تو منا لیا گیا لیکن کیا نئی نسل کو کسی نے یہ بھی بتانے کی ضرورت محسوس کی کہ ہم 27 اکتوبر کو یوم سیاہ کیوں مناتے ہیں اور اس سے جڑے قانونی اور سیاسی مباحث کیا ہیں؟
فرض کریں کسی ایک واقعے پر ایک ملک کا موقف درست ہے۔ اقوام متحدہ کے قوانین اور ضابطوں کے عین مطابق ہے۔ لیکن اس ملک نے اپنی نئی نسل تک اس موقف کا ابلاغ نہیں کیا اور نوجوانوں کو عنوان کا تو پتا ہے، متن کی کوئی خبر نہیں۔ اور فرض کریں وہ نوجوان سوشل میڈیا پر دوسرے ملک کے کسی نوجوان سے بحث کرتا ہے اور درست موقف ہونے کے باوجود صرف اس لیے لاجواب ہو جاتا ہے کہ اسے اس معاملے کی مبادیات کا علم ہی نہیں۔ آپ غور کریں گے کہ نقصان کس کا ہوا اور کتنا ہوا؟
26 اکتوبر کو ایک ایسے ہی حادثے کا میں نے مشاہدہ کیا۔ ایک سوشل میڈیا فورم پر کچھ صاحبان بحث کر رہے تھے اور شرکاء کا تعلق لگ بھگ نصف درجن ممالک سے تھا۔ پاکستانی نوجوان سے سوال ہوا کہ آپ ستائیس اکتوبر کو یوم سیاہ کیوں مناتے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ اس رو زبھارت نے سری نگر میں فوجیں اتاری تھیں۔ جواب میں بھارتی شرکاء نے لکھا کہ 26 اکتوبر کو وی پی مینن جموں گئے تھے۔ مہاراجہ نے اسی رو ز الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے اور اس الحاق کے بعد اگلے روز بھارت نے کشمیر میں فوجیں اتاریں۔ گروپ میں سات پاکستانی تھے اور اچھے خاصے تعلیم یافتہ۔
دو پی ایچ ڈی سکالر اور ایک پوسٹ ڈاکٹریٹ میں مصروف۔ لیکن بھارتی نوجوان کے اس صریح غلط اور جھوٹے موقف کے رد میں گروپ کے کسی پاکستانی کے پاس کوئی جواب نہ تھا? میں ابھی تک بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ دیگر ممالک کے شرکاء نے اس گفتگو سے کیا تاثر لیا ہوگا؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اہم ترین معاملات پر اپنے طلباء کو معاملے کی مبادیات اچھی طرح سمجھا دیں تا کہ دنیا میں کہیں بھی کبھی بھی انہیں اس طرح جھوٹ کے آگے لاجواب نہ ہونا پڑے؟ اسی معاملے کو دیکھ لیجیے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے کشمیر میں فوجیں پہلے اتاری تھیں اور نام نہاد الحاق بعد میں ہوا تھا اور یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وی پی مینن کا 26 اکتوبر کو جموں گئے ہی نہیں تھے۔ وہ دلی ہی میں موجود تھے۔
وی پی مینن کا یہ دعوی ہے کہ وہ 25 اکتوبر کو سری نگر گئے اور نہرو کے حکم پر اگلے روز جموں پہنچے اور مہاراجہ سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرائے۔ ایک عرصہ بھارت کا موقف اسی جھوٹ کی بنیاد پر کھڑا رہا۔ لیکن اب یہ بات کوئی را ز نہیں کہ وی پی مینن سری نگر سے جموں نہیں جا سکے تھے اور سری نگر ہی سے واپس دلی لوٹ گئے تھے اور جا کر نہرو کو خبر دی تھی کہ کشمیر میں مہاراجہ کا اقتدار ختم ہو گا اور اس کی عملداری اب قصہ ماضی بن چکی۔
دستاویزی شہادتیں آ چکی ہیں کہ وی پی مینن 26 اکتوبر کو جموں نہیں گئے بلکہ دلی ہی میں موجود رہے۔ 26 کی صبح دس بجے وہ دفاعی کمیٹی کی میٹنگ میں شریک تھے۔ پونے چار بجے وہ ائیر پورٹ پر ضرور گئے لیکن وہیں سے لوٹ آ ئے۔ پانچ بجے انہوں نے دلی میں برطانوی ہائی کمیشن کے الیگینڈر سمن سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ الحاق کی دستاوز پر دستخط کرانے وہ اگلے روز یعنی 27 اکتوبر کو جموں جائیں گے۔ وی پی مینن نے الحاق کے لیے اگلے روزز جموں جانے کا کہا تھا لیکن اس ملاقات کے چند گھنٹے بعد اسی رو ز یعنی 26 اکتوبر ہی کو بھارتی قیادت نے کشمیر پر لشکر کشی کا حکم دے دیا۔
جب لشکر کسی کا یہ حکم دیا گیا اس وقت کشمیر کے مہاراجہ سے الحاق کی دستاویز پر دستخط نہیں لیے گئے تھے۔ اگلے روز صبح نو بجے بھارتی فوج سری نگر ائیر پورٹ پر اتاری گئی۔ اسٹینلے والپرٹ نے Tryst with destiny میں خود نہرو کا یہ اعتراف شائع کیا ہے کہ جب بھارت نے سری نگر میں فوج اتاری اس وقت تک کشمیر کے مہاراجہ نے الحاق کی دستاویز پر دستخط نہیں کیے تھے۔ یہی اعتراف مہر چند مہاجن نے اپنی کتاب Looking Back میں بھی کیا ہے۔
بھارتی افواج جب سری نگر پر قابض ہو گئیں تو اس کے بعد وی پی مینن جموں کی طرف روانہ ہوئے تا کہ مہاراجہ سے الحاق کی دستاوی پر دستخط کرا سکیں۔ یعنی فوج کشی کر کے قبضہ کرنے کے بعد الحاق کرانے گئے۔ اس ناقابل تردید حقیقت کا اعتراف برطانوی ہائی کمیشن کے گوپل سوامی نے بھی کیا ہے کہ بھارت نے پہلے ناجائز طور پر لشکر کشی کی اور سری نگر پر قبضہ کیا اور اس کے بعد وی پی مینن کو جموں بھیجا گیا کہ جا کر الحاق کی دستاویز پر مہاراجہ کے دستخط کرا لائے۔ الحاق کی اس نا معتبر دستاویز کی کیا حیثیت ہے اس پر فی الوقت بات نہیں کرتے۔ کسی دن اس پر تفصیل سے بات کر لیں گے کہ الحاق کے اس ڈرامے کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ لیکن فی الوقت دو اور چیزیں ہیں جنہیں سمجھ لیا جانا چاہیے اورواقعات کی ترتیب درست کر لینی چاہیے۔
ترتیب یہ نہیں کہ 26 اکتوبر کو وی پی مینن جموں گئے اور الحاق کی دستاویز پر دستخط کرائے اور اگلے روز 27 اکتوبر کو الحاق کے بعد بھارت نے سری نگر میں فوج اتاری۔ ترتیب یہ ہے کہ پہلے بھارت نے سری نگر میں فوجیں اتاریں اور قبضہ کیا اور قبضہ کرنے کے بعد وی پی مینن جموں میں مہاراجہ سے ملنے کے لیے گئے۔ سارے سوالات اور ان کی پیچیدگیاں اایک طرف رکھ دیجیے۔ صرف سادہ سے اس سوال پر غور کر لیجیے کہ اگر فوج پہلے اتار لی جائے اور قبضہ کر لیا جائے تو اس قبضے اور لشکر کشی کے بعد مہاراجہ کے کسی الحاق کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ معاہدے کے لیے تو ضروری ہوتا ہے کہ فریقین آزادنہ حیثیت سے معاملہ کریں۔ لشکر کشی کر نے کے بعد فریق ثانی کی " آزاد رائے" کہاں رہ جاتی ہے؟
چنانچہ ویانا کنونشن آن دی لاز آف ٹریٹیز کے آرٹیکل 49 میں اس واردات کے بارے میں جواب موجود ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ایسا ہر معاہدہ باطل سمجھا جائے گا جو طاقت استعمال کر کے کیا ہو گا یا طاقت استعمال کرنے کی دھمکی دے کر کیا گیا ہو گا۔