ٹرانزٹ ویزے۔۔پاکستان کا درست فیصلہ
افغانستان سے غیر ملکیوں کے انخلاء کے لیے پاکستان نے چند ہزار لوگوں کو ٹرنزاٹ قیام کی اجازت دی تو اس پراعتراضات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ تنقید کا یہ طوفان نا قابل فہم ہے۔ ناقدین کے خلوص میں شک نہیں لیکن ان کی بصیرت کا عالم دیکھ کر امین احسن اصلاحی مرحوم کی بات یاد آ جاتی ہے کہ " اللہ نے بعض لوگوں کو عقل کی جگہ بھی اخلاص عطا کر رکھا ہے"۔
پہلے اس مسئلے کو پاکستان کے قانون کی روشنی میں دیکھتے ہیں اس کے بعد تزویراتی اور سفارتی حوالے سے اس کا جائزہ لیں گے۔ قانونی مطالعے کے لیے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ہو کیا رہا ہے اور پاکستان کا قانون اس کے بارے میں کیا کہتا ہے۔
افغانستان سے جن لوگوں کو پاکستان لایا جا رہا ہے ان کی تعداد اور ان کی دستاویزات معلوم ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سرھد کھول دی گئی ہے اور جس کا جی چاہے آ جائے۔ اس وقت افغانستان میں فضائی آپریشن رک چکے ہیں اور کسی ملک کا مسافر طیارہ وہاں نہیں اتر رہا۔ چنانچہ امریکہ اور نیٹو کی جانب سے پاکستان سے درخواست کی گئی کہ ان مسافروں کو عارضی طور پر پاکستان آنے دیا جائے۔ پاکستان نے اس درخواست کو قبول کیا اور اکیس دن کے ٹرانزٹ سٹے کی اجازت دے دی۔ ٹرانزٹ سٹے دینا اور ٹرانزٹ ویزا جاری کرنا حکومت کا اختیار ہے۔ یہ نہ کوئی ناجائز کام ہے اور نہ ہی کوئی ایسی انہونی ہے جو دنیا میں پہلی بار ہونے جا رہی ہے۔
ایک اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ ان لوگوں کی آڑ میں کیا معلوم کتنے دہشت گرد یا بلیک واٹر کے اہلکار یہاں آ سکتے ہیں۔ جہاں تک مسافروں کا تعلق ہے تو انکے کور میں اگر کوئی اور ہے تو یہ امکان تو سفارتی عملے میں بھی موجود ہوتا ہے تو کیا سفارتی عملے کو ملک میں آنے سے روک دیا جائے؟ اس کا حل ٹرانزٹ ویزے سے انکار نہیں بلکہ اپنی سیکیورٹی کو بہتر بنانے میں ہے۔ چنانچہ پہلے ان لوگوں کو تین شہروں میں لانے کا فیصلہ بدل دیا گیا ہے۔ اب یہ صرف ایک شہر یعنی اسلام آباد میں لائے جائیں گے۔ سیکیورٹی موجود ہو گی اور یہ اکیس دنوں کے اندر اندر اپنے اپنے ملک روانہ ہو جائیں گے۔ ترکی، ڈنمارک، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ بلجیم سمیت بہت سے ممالک نے اس انخلاء کو یقینی بنانے کے لیے اپنے ڈیسک اسلام آباد ائیر پورٹ پر قائم کر لیے ہیں۔ دستیاب فلائٹس پر یہ لوگ اپنی منزل کو روانہ ہو جائیں گے۔ اپنے قیام کے اخراجات بھی یہ خود برداشت کریں گے۔
سوال یہ ہے کہ اس سارے عمل میں وہ کون سی چیز ہے جسے ملک کے قانون کی خلاف ورزی قرار دیا جائے؟ ان کی آمد سے لے کر ان کے قیام تک ہر چیزقانون کے مطابق ہو رہی ہے تو اس میں قابل تنقید چیز کیا ہے؟ جو لوگ آئیں گے اپنی شناختی دستاویزات کے ساتھ آئیں گے اور جو آ جائیں گے انہیں آگے روانہ کر دیا جائے گا۔ اس میں ایسی خود شکستگی کیسی کہ بلاوجہ خوف اوڑھ لیا جائے۔ اب آئیے اس سارے عمل کو تزویراتی اور سفارتی حوالے سے دیکھتے ہیں۔
بتایا یہ جا رہا ہے کہ ان کی اکثریت عام شہریوں، این جی اوز کے اراکین، میڈیا ورکرز وغیرہ کی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پاکستان کیسے انکار کر سکتا تھا؟ آج پاکستان دوسرے ملک کے شہریوں کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد نہ کرتا تو کل وہ کسی اور ملک سے ایسا ہی مطالبہ کس بنیاد پر کرتا؟ کیا دنیا بھر سے کٹ کر کوئی ملک آئسولیشن میں جی سکتا ہے اور یہ ایڈ وانچر کیا کسی بھی ملک کو بلاوجہ گناہ گناہ بے لذت کے طور پر کرنا چاہیے؟ حساب سودو زیاں میں کیا یہ ایک معقول فیصلہ تصور ہوتا؟
اور اگر ان افراد میں فوجیوں کی اکثریت ہے تو یہ بھی قابل فہم ہے اور اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ کسی ملک کو فوجی اڈے دینا ایک اور بات ہوتی ہے اور کسی ملک کے فوجیوں کو واپسی کا راستہ دینا ایک بالکل الگ بات ہوتی ہے۔ اٖفغانستان سے اگر نیٹو فوجیوں ہی کا انخلاء ہو رہا ہے اور وہ کچھ دن ٹرانزٹ قیام کرنے پاکستان آ رہے ہیں تو ذرا اس منظر نامے کو بھی دیکھ لیا جانا چاہیے۔
افغانستان میں جنگ ہوتی رہی۔ جنگ کے اختتامی مرحلے میں امریکہ کا خیال تھا کہ ستمبر سے پہلے طالبان کابل نہیں لے سکتے اس لیے اس نے فوری انخلاء کا پلان نہیں بنایا تھا۔ چنانچہ اس کے تین چار ہزار فوجی کابل میں موجود رہے۔ اب امریکہ کو ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں فوری نکالا جائے۔ کابل سے اسلام آباد کا فضائی دورانیہ 40 منٹ کا ہے۔ ایک جہاز پانچ سو فوجی لے جائے تو یہ انخلاء ایک دن میں ہو سکتا ہے۔ اگر یہی آپریشن دوحہ سے کیا جائے تو ایک پھیرے میں دس سے پندرہ گھنٹے لگ سکتے تھے۔ چنانچہ پاکستان سے درخواست کی گئی کہ فوری انخلاء کے لیے کابل سے انہیں پاکستان آنے دیا جائے۔ اور پھر یہاں سے انہیں آگے روانہ کیا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کے افغانستان سے انخلاء پر خود طالبان کو کوئی اعتراض نہیں۔ کسی ایک آدمی کے بارے میں بھی طالبان نے یہ نہیں کہا کہ اس پر جنگی جرائم کا کوئی الزام ہے یا ہم نے کوئی مقدمہ چلانا ہے یا یہ ہمیں مطلوب ہے یا ہم اس کو ملک سے جانے نہیں دیں گے۔ طالبان کے دستے پنج شیر میں تو صف آراء ہو چکے ہیں لیکن نیٹو اور امریکہ کے جو فوجی یا ان کے معاونین اس وقت کابل میں موجود ہیں ان سے طالبان کا کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ طالبان نے ان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ نہ ان فوجیوں کا گھیرائو ہوا۔ نہ کسی نے ان کا پانی راشن بند کیا۔ نہ بجلی یا پٹرول کی سپلائی معطل کی گئی۔ کسی نے ان پر پتھر تک نہیں پھینکا۔ کابل طالبان کے پاس ہے اور امریکی فوجی کابل ائیر پورٹ پر موجود ہیں۔ فریقین کے بیچ ابھی تک ایک گولی کا تبادلہ نہیں ہوا۔ تو جن لوگوں کے انخلاء پر خود طالبان کو ااعتراض نہیں، ان لوگوں کو سہولت فراہم کرنے سے ہم کس بنیاد پر انکار کرتے؟ کوئی ایک دلیل یا ڈھنگ کی کوئی ایک وجہ؟
دنیا میں سب کے ساتھ چلنا ہوتا ہے اور کسی بھی ملک کا مطالبہ جو جائز ہو اور جس پر کسی فریق کو کوئی اختلاف بھی نہ ہو اسے ٹھکرا کر خود کو عالمی برادری سے کاٹ لینا دانشمندی نہیں ہوتی۔ ایک جنگ ختم ہو رہی ہے۔ مشکل سے یہ بلا ٹلی ہے۔ آگے امکانات بھی ہیں اور خدشات بھی۔ اب کیا پاکستان جنگ کے خاتمے پر بلاوجہ ایک مسئلہ کھڑا کر لیتا۔ کیا یہ ایک ذمہ دار ملک کا رویہ ہوتا؟ امریکہ یہاں سے جا رہا ہے۔ جن سے امریکہ کی براہ راست لڑائی رہی وہ اس وقت کابل کے حکمران ہیں اور انہوں نے امریکی فوجیوں کو انخلاء سے نہیں روکا۔ ایسے میں پاکستان کو کیا پڑی ہے کہ جنگ کے خاتمے پر بلاوجہ ایک غیر ضروری محاذ کھول لیتا۔
تنقید برائے تنقید مطلوب و مقصود مومن ہے تو الگ بات ہے۔ لیکن معقولیت اور دلیل کے اعتبار یہ تنقید ناقابل فہم ہے۔ قومی زندگی کے معاملات توازن مانگتے ہیں۔ یہ نہ خود سپردگی سے حل ہو سکتے ہیں نہ رد عمل سے۔