Tuesday, 16 April 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Traffic Hadsat, Chand Sawalat

Traffic Hadsat, Chand Sawalat

ٹریفک حادثات : چند سوالات

آزاد کشمیر میں بلوچ سے کوچ نے سفر شروع کیا اور چند کلومیٹر دور جا کر کھائی میں گر گئی، 22 افراد جاں بحق ہو گئے۔ ہنستے بستے گھرانے اجڑ گئے۔ یہ خبر مگر بائیس منٹ بھی قومی بیانیے کا حصہ نہ رہ سکی۔ نہ اس پر کوئی بحث ہو سکی نہ کوئی ٹاک شو ہوا۔ نہ کسی نے پریس کانفرنس کی نہ کوئی احتجاج ہوا۔ نہ کوئی تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ ہوا نہ ہی کشمیر کا انفراسٹرکچر زیر بحث آ سکا۔ آزاد کشمیر سے پاکستان تک ایسی بے رحم لاتعلقی چھائی رہی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں اس بات پر اتفاق رائے ہو چکا ہے کہ ٹریفک حادثات میں مر جانا سرے سے کوئی خبر ہی نہیں جس پر غور کر کے اپنا قیمتی وقت برباد کیا جائے۔ قوم مریم نواز کی عزیمت، بلاول کی انگریزی اور عمران خان کی دیانت داری پر مشاعرے میں اس قدر مصروف ہے کہ چھوٹے چھوٹے واقعات پرضائع کرنے کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہے۔

ترقی یافتہ اقوام سے مقابلہ نہیں کرتے۔ لیکن جنوبی ایشیاء کے ممالک تو اپنے ہی جیسے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ چند سال پہلے عالمی ادارہ صحت کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق سڑکوں پر حادثات میں ہونے والی اموات میں پورے جنوبی ایشیاء میں پاکستان سر فہرست تھا۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں ہونے والے ٹریفک حادثات میں 25 فیصد حصہ جنوبی ایشیاء کا ہے۔ موجودہ عالمی رینکنگ دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے حالات بھوٹان سے بھی برے ہیں۔ ہر سال پاکستان میں 35 ہزار سے 40 ہزار لوگ ٹریفک حادثات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کتنے ہی حادثات ایسے ہوتے ہوں گے جو رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ ذرا تصور کریں کہ کبھی ان حادثات کی درست اور حقیقی تصویر سامنے آ جائے تو اموات کی شرح کہاں جا پہنچے گی۔

کوئٹہ کراچی ہائی وے کو کبھی آر سی ڈی ہائی وے کہا جاتا تھا لیکن اب اس کا نام " قاتل ہائی وے" ہے۔ 813 کلومیٹر طویل اس ہائی وے پر اگر حادثہ ہو جائے تو کوئی امان نہیں۔ کوئی معقول طبی سہولت نہیں۔ حادثے سے نبٹنے کے لیے کوئی تربیت یافتہ عملہ کہیں تعینات نہیں۔ زخمیوں کی قسمت کہ وہ کراچی پہنچائے جانے تک بچتے ہیں یا مر جاتے ہیں۔ سڑک کا عالم یہ ہے کہ گذشتہ سال صرف ستمبر کے ایک مہینے میں اس پر1207 حادثات ہوئے اور 128 لوگ جاں بحق ہو گئے۔

اس سے ایک ماہ پہلے اگست میں یہاں حادثات کی تعداد947 تھی جن میں 143 لوگ مارے گئے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ صرف ایک سال میں اس ہائی وے پر 6 ہزار مسافر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہزاروں لوگ ہر سال اس سڑک پر مر جاتے ہیں۔ لیکن یہ کسی کے لیے سرے سے کوئی خبر ہی نہیں ہوتی۔ خبر یہ ہوتی ہے کہ بلوچستان میں باپ کا راج ہے، جام کمال چلے گئے اور بزنجو صاحب وزیر اعلی بن گئے۔ اسی پر تجزیے ہوتے ہیں اور اسی پر دانشوریاں فرمائی جاتی ہیں۔

اس سال جنوری میں حکومت نے اس سڑک پر انسانی جان کے تحفظ کے لیے اہم قدم اٹھایا۔ یوں سمجھیے کہ جام کمال حکومت نے کمال ہی کر دیا۔ صرف 813 کلومیٹر طویل اس ہائی وے کے لیے پوری 2 ایمبولینسوں کی منظوری دی گئی کہ لو بھائی حاتم طائی تم بھی کیا یاد کرو گے۔ معلوم نہیں یہ پوری دو عدد ایمبولینسیں بھی ہائی وے پر رواں ہو سکیں یا صرف سوشل میڈیا پر ہی گھوڑے ہنہنائے جاتے رہے۔ اس صوبے کا عالم یہ ہے کہ پولیس اہلکار شہید ہو جائیں تو ان کے جسد خاکی گھروں کو روانہ کرنے کے لیے ایمبولینسیں نہیں ہوتیں، تابوت بسوں کی چھتوں پر رکھ کر روانہ کیے جاتے ہیں۔ کابینہ، وزیر اعلی اور گورنر کے اخراجات البتہ دیکھ لیے جائیں تو حیرت کدہ آباد ہو جائے۔

موٹر وے ہماری سب سے محفوظ سڑک ہے۔ لیکن اس سب سے محفوط سڑک کا عالم یہ ہے کہ اگر کہیں کوئی حادثہ ہو جائے تو مریض کو ابتدائی امداد دینے کے لیے پوری موٹر وے پر کسی بھی ریسٹ ایریا میں کوئی بھی طبی مرکز قائم نہیں۔ یہ اپنی اپنی قسمت کہ کب تک خمی سڑک پر تڑپتا رہے گا اور کب کوئی ایمبولینس اس تک پہنچے گی اور کب اس مریض کو اٹھا کر سینکڑوں میل دور کسی ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچائے گی جہاں بھلے کوئی ایکسرے مشین ہی کام نہ کر رہی ہو۔ اگر مہینوں سے اسلام آباد جیسے شہر کے مرکزی ہسپتال پمز کی ساری کی ساری ایم آر آئی مشینوں کے ناکارہ ہونے کی خبریں آ سکتی ہیں تو دور درا زکے ہسپتالوں کا کیا عالم ہو گا اور وہاں تک اگر کوئی مریض زندہ پہنچ بھی گیا تو اس کا کیا حشر ہو گا؟

اسلام آباد شہر میں پارک روڈ پر مسلم لیگ کا مرکزی دفتر ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعت کی تنظیم سازی کا یہ عالم ہے کہ اس کے پاس اپنا ڈھنگ کا دفتر ہی نہیں اور جناب طارق فضل چودھری کے فارم ہائوس ہی کو دفتر بنایا گیا ہے تا کہ سند رہے کہ اے ٹی ایم اپنا اپنا۔ ن لیگ کے دور اقتدار میں سی ڈی اے طارق فضل چودھری کے پاس تھا۔ چنانچہ ایک دن مشینری منگوائی گئی اور چٹھہ بختاور کی آبادی کے سامنے موجود یوٹرن بند کر کے عین ان کے فارم ہائوس کے سامنے یو ٹرن بنا کر دونوں اطراف سپیڈ بریکر بنا دیے گئے۔

ظلم یہ ہے کہ وہاں کوئی روڈ سائن نہیں لگایا گیا۔ ڈرائیور توقع ہی نہیں کر رہا ہوتا کہ یہاں ویرانے میں اچانک سپیڈ بریکر آ جائے گا۔ چنانچہ بڑے لوڈڈ ٹرک اچانک سپیڈ بریکر سے ملاقات کرتے ہیں اور ایکسل تڑوا لیتے ہیں۔ پیچھے سے تیز رفتاری سے آتی کاریں ٹرکوں میں گھس جاتی ہیں۔ اس ایک جگہ پر ایک سال میں، کم از کم میں دو درجن ٹریفک حادثات دیکھ چکا ہوں۔ اور یہ جاننے سے قاصر ہوں کہ طارق فضل چودھری کے اس فارم ہائوس کو مزید کتنوں کا لہو چاہیے۔

ابھی میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اور ذرائع ابلاغ پر شور مچا ہے کہ جناب وزیر اعظم ایک بار پھر خطاب فرمانے ہی والے ہیں اور یہ ایسا خطاب ہو گا کہ اس جیسا خطاب پہلے کسی نے سنا ہی نہ ہو گا۔ ایسا ریلیف پیکج دیا جائے گا کہ معلوم انسانی تاریخ میں ایسا پیکج اس سے پہلے کسی نے دیا ہی نہیں ہو گا۔ یہ دعوے اگر چہ " شیر آیا، شیر آیا" والی کہانی کی یاد دلا دیتے ہیں لیکن پھر بھی دعا ہے یہ سچ ثابت ہوں۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تب بھی کیا مضائقہ ہے۔ بغلیں اس بات پر بھی بجائی جا سکتی ہیں کہ خطاب بڑا ہی شاندار تھا۔

اس تاریخی خطاب کی تفصیلات بھی آج کے اخبار ات میں شائع ہو چکی ہوں گی۔ ٹریفک حادثات تو چھوڑیے، کہ بھلا یہ بھی کوئی ایشو ہے۔ ایسا کیجیے بار بار وہی خطاب پڑھیے اور سر دھنیے کہ واہ صاحب واہ ایسا خطاب بھلا کوئی کر کے تو دکھائے۔ جلدی کیجیے کہ خطاب کا سہرا کہنے میں کہیں دیر نہ ہو جائے۔ ٹریفک حادثات کا کیا ہے یہ تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ کون سے پہلی بار ہو رہے ہیں۔

Check Also

Public Suo Moto

By Rao Manzar Hayat