شہباز شریف:وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف؟
شہباز شریف قائد حزب اختلاف ہیں یا وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف؟ دروغ بر گردن راوی، وہ اگست 2018 سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں لیکن وہ زبان حال سے پکار پکار کر کہ رہے ہیں کہ یہ ان پر محض ایک الزام ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
ایک طرف یہ روایت ہے کہ ایوان زیریں میں حزب اختلاف کی قیادت جناب شہباز شریف کر رہے ہیں اور دوسری جانب ان کی فرد عمل ہے، جو اس روایت کی نفی کرتی ہے۔ میرے جیسا طالب علم حیران ہے کہ اس پارلیمانی بندو بست میں ان کا اصل مقام کیا ہے؟ وہ قائد حزب اختلاف ہیں یا ان کے پاس حزب اختلاف کی وفاقی وزارت کا قلمدان ہے؟
حکومتی حلقوں کا دعوی ہے کہ ان کے دور میں جو بھی ہو رہا ہے، پہلی بار ہو رہا ہے۔ یہ دعوی باقی معاملات میں تو خدا جانے کس حد تک سچ ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جیسی حزب اختلاف اس دور حکومت کے حصے میں آئی ہے، معلوم انسانی تاریخ میں شاید ہی کسی کے حصے میں آئی ہو۔ حکومت اگر تھوڑی سی میانہ روی کا مظاہرہ کرے تو اس سال شہباز شریف صاحب کو بطور قائد حزب اختلاف نیک چلنی کا صدارتی ایوارڈ عطا کر سکتی ہے۔
مسلم لیگ ن کے پاس اس وقت بھی کافی قوت ہے۔ پنجاب پاکستانی سیاست کا مرکز ہے اور یہاں اگر چہ تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کی نشستوں کی تعداد آج بھی پی ٹی آئی سے زیادہ ہے۔ 1997 میں پیپلز پارٹی یوں سمٹ گئی تھی کہ قومی اسمبلی میں اس کے پاس صرف 18 نشستیں تھیں لیکن اس وقت ن لیگ کے پاس قومی اسمبلی میں 82 نشستیں ہیں۔ اس کے باوجود قائد حزب اختلاف حسرتِ لذت آزار کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
پی ڈی ایم بڑے دعووں سے بنی تھی لیکن ن لیگ کے اعجاز مسیحائی سے مرگ ناگہانی سے دوچار ہو گئی۔ پی ڈی ایم کے دور عروج میں بھی صرف مولانا فضل الرحمن تھے، جن کا اسلوب سیاست خبر دیتا تھا کہ ملک میں کہیں کوئی حزب اختلاف بھی موجود ہے۔ قائد حزب اختلاف اس دورانیے میں نہ نغمہ سیاست تھے نہ سازِ اختلاف۔ وہ گرمی سیاست سے کہیں دور عافیتوں میں بیٹھے گنگنا رہے تھے کہبنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے،۔ بلوچستان کے دور دراز علاقے رباط جعلی سے بھی مولانا کے قافلے نکلے مگر جب یہ کارروان لاہور پہنچا تو عزت مآب قائد حزب اختلاف رضاکارانہ طور پر گمشدہ ہو چکے تھے۔ ساحلوں سے چلنے والا مولانا کا قافلہ اسلام آباد کی بارشوں میں لب خشک بھگوتا رہا لیکن قائد حزب اختلاف کہیں دکھائی نہ دیے۔
ایوان کے اندر بہت سے مقامات آئے جہاں حزب اختلاف راضی نہ ہوتی تو حکومت کو دانتوں پسینہ آ جاتا۔ بجٹ پیش ہونے لگا تو نہ صرف قائد حزب اختلاف خود غیر حاضر تھے بلکہ ن لیگ کے بیس اراکین اسمبلی بھی ایوان میں موجود نہ تھے۔ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا معاملہ آیا تو حکومت کی بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ اس نے رسمی سا تکلف بھی نہ کیا کہ حزب اختلاف سے ووٹ مانگتی۔ حزب اختلاف نے بن مانگے ہی حکومتی بل کو تائیدی ووٹ دے دیا۔ ایف اے ٹی ایف کا بل آیا تو ایک بار پھر حزب اختلاف نے بن مانگے، ہی غیر مشروط طور پر، حکومتی بل کے حق میں ووٹ دے دیا۔ اس سب کے بعد سوال یہ ہے کہ حزب اختلاف کو حکومت سے اختلاف کیا ہے اور کس نکتے پر ہے؟
بجٹ والے دن ابھی ووٹنگ ختم نہیں ہوئی تھی کہ وزیر اعظم ایوان سے اٹھ کر چلدیے۔ دیگر موقع پر بھی وزیراعظم کو حزب اختلاف سے ذرہ بھر پریشانی نہ تھی۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حزب اختلاف کے معاملات انہوں نے اپنے وفاقی وزیر برائے اپوزیشن جناب شہبازشریف کو سونپ رکھے ہیں اور انہیں اپنے اس وزیر کی نیک چلنی کا مکمل یقین ہے۔
ن لیگ کا بیانیہ اصل میں بیعانیہ، ہے اور اس کی سیاست محض کاروبار۔ ہمیشہ اس کا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ تجمل حسین خان تو عیش کریں گے البتہ دوسرے ان کی جنگ لڑیں۔ کبھی جماعت اسلامی ان کا ایندھن بنی اور اسلامی جمہوری اتحاد بنا، کبھی وکلاء ان کا ایندھن بنے اور تحریک وکلاء چلی، اب بھی ان کا مطالبہ تھا کہ پیپلز پارٹی سندھ حکومت سے استعفے دے، مولانا اپنے کارکنان کو احتجاجی تحریک میں جھونکیں اور ن لیگ جھروکے میں بیٹھی گلوری اٹھاتی رہے، پان چباتی رہے ا ورپچکاریاں پھینکتی رہے۔
ن لیگ کے داخلی تضادات بھی اصل میں اس کی حکمت عملی ہے۔ خیال خاطر احباب نہ ہوتا تو میں اسے واردات لکھتا۔ ایک بھائی قائی قبیلے کے جنگجو کی طرح بیرون ملک بیٹھ کر رجز پڑھ رہے ہیں اور دوسرے بھائی اندرون ملک سراپا عجزو نیاز بنے ہوئے ہیں۔ اب حکمت بھی انہی کے گھر کی ہے اور شجاعت بھی۔ ایک آواز لگاتا ہے ووٹ کو عزت دو، ساتھ ہی دوسرا سدا دیتا ہے کہ ووٹ کو نہیں خدمت کو عزت دو۔ یعنی آثار جلالی و جمالی باہم۔ خدمت کو خادم اعلی سے بھی ایک نسبت ہے اور اقتدار کا کھیل بڑا بے رحم ہوتا ہے، میمنہ میسرہ پر کھڑا سردار امکانات دیکھ کر پھسل بھی جاتا ہے۔
مریم نواز صاحبہ سے سوال ہوتا ہے آپ کی پارٹی نے ایکسٹینشن کا ووٹ کیوں دیا۔ فرماتی ہیں وہ میری مسلم لیگ نہیں ہے۔ مسلم لیگ کے مہربان اب آبلوں پر حنا باندھتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کون سی مسلم لیگ کس کی ہے؟ جس مسلم لیگ نے ایکسٹینشن کا ووٹ دیا تھا وہی مسلم لیگ اس وقت بھی پارلیمان میں موجود ہے، اسی کے صدر شہبازشریف ہیں، اسی کی نائب صدر مریم نوازہیں۔ یہ بیچ میں میری مسلم لیگ اور تیری مسلم لیگ کہاں سے آ گئی؟ معاشرہ آگے بڑھ گیا ہے لیکن موروثی سیاست اس فکری ارتقاء کا احترام کرنے سے قاصر ہے۔ وہ آج بھی سماج کے شعور اجتماعی کو نہیں، اپنے حصے کے بے وقوفوں کو مخاطب بناتی ہے اور داد طلب ہوتی ہے۔
مہنگائی کی ستائی مخلوق کی ہتھیلی پر سوال اب صرف یہ نہیں ہے کہ حکومت کہاں ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ حزب اختلاف کہاں ہے۔ حکومت کی کارکردگی اگر سوالیہ نشان ہے تو حزب اختلاف کا وجود بھی سوالیہ نشان ہے۔ حکومت اگر لوگوں کی مسیحائی نہیں کر سکی تو حزب اختلاف بھی لوگوں کی ترجمانی سے قاصر ہے۔ یہ بحران صرف اقتدار کا بحران نہیں، یہ پارلیمان کے شعور اجتماعی کا بحران ہے۔
سوال اب صرف یہ نہیں کہ وزیر اعظم کہاں ہیں، سوال یہ بھی ہے کہ قائد حزب اختلاف کہاں ہیں؟ وہ کس کے ساتھ ہیں؟ حکومت کے ساتھ یا حزب اختلاف کے ساتھ؟ وہ ایوان میں قائد حزب اختلاف ہیں یا وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ قائد حزب اختلاف میں جو جرات اور بانکپن ہونی چاہیے شہباز شریف اسے بھاری پتھر قرار دے کر کب کے چھوڑ چکے، چھوڑ کیا چکے انہوں نے غالبا اسے کبھی چھوا ہی نہیں تھا۔ بطور قائد حزب اختلاف کوئی ایک ایسا کام بتائیے جو ان کے نامہ اعمال میں لکھا جا سکے کہ ہاں یہ بات قائد حزب اخلتاف ہی کو زیبا تھی۔
سوال وہی ہے: شہباز شریف قائد حزب اختلاف ہیں یا وفاقی وزیر برائے حزب اختلاف؟