مارگلہ کب تک جلتا رہے گا؟
چیت کا مہینہ ہے، ندی کنارے پھول کھلے ہیں اور گھونسلے ننھے مہمانوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن جنگل میں آگ لگی ہے۔ کون جانے اب تک کتنے درخت ان گھونسلے میں شور مچاتے ننھے وجودوں سمیت جل کر راکھ ہو چکے ہوں گے۔
ہر سال بہار آتی ہے تو جنگل جل اٹھتا ہے۔ دستیاب اعدادو شمار کے مطابق گذشتہ پندرہ سالوں میں 332 دفعہ جنگل کو آگ لگ چکی ہے۔ اب تک مجموعی طور پر 500 ایکڑ رقبے میں چیڑ اور صنوبر کے درخت جل چکے ہیں۔ دل لہو ہو جاتا ہے کہ جس جنگل کو ہم نیشنل پارک قرار دے چکے ہیں اس کی یوں تباہی ہو رہی ہے اور اقتدار کے مراکز سے چند قدموں کے فاصلے پر ہو رہی ہے۔ بعض اوقات آگ لگتی ہے اور کئی کئی دن جنگل جلتا رہتا ہے۔
اکا دکا واقعات کو حادثہ قرار دیا جا سکتا ہے لیکن 332 مرتبہ آگ لگ جائے تو اسے حادثہ نہیں کہا جا سکتا۔ 2003 میں مارگلہ کے جنگل میں ایک یا دو بار نہیں، اکہتر (71) مرتبہ آگ لگی تھی۔ مس مصرو جو اسی جنگل میں برگد کے درخت تلے رہتی تھی، اس آگ سے ایک غورال بچا لائی تھی جس کی ٹانگیں جل چکی تھیں۔ 2004 میں 62 دفعہ اور 2006 میں 40 بار جنگل میں آگ لگی۔ دو سال پہلے آگ لگی تو اس کی شدت کا یہ عالم تھا کہ میلوں دور سے دکھائی دے رہی تھی۔ شالیمار کرکٹ گرائونڈ میں رات کو واک کرتے ہوئے آگ دیکھ کر خوف آتا تھا۔
مارگلہ کا جنگل کہنے کونیشنل پارک ہے اور اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈی ننس 1979 کے ذریعے اسے جنگلی حیات کے لیے ایک جائے امان، قرار دیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس جنگل میں صرف ایک سال میں 71 دفعہ آگ بھڑک اٹھے اور پھر وادی کی وادی کئی دنوں تک آگ سے جلتی رہے تو کیا ایسے جنگل کو جانوروں کی جائے امان کہا جا سکتا ہے؟ کیا وائلڈ لائف بورڈ، سی ڈی اے، وزارت ماحولیات یا کسی اور محکمے کے پاس کوئی ریکارڈ موجود ہے کہ آگ لگنے کے ان سینکڑوں واقعات میں کتنے پرندے اور جانور مارے گئے اور کتنے درخت جل کر راکھ ہو گئے؟
آگ لگنے کی وجوہات پوچھیں تو ہمارے ادارے آگے سے ایسی داستانیں سنانا شروع کر دیتے ہیں جو عذر گناہ سے کم نہیں ہوتیں۔ تین عذر تواتر سے بیان کیے جاتے ہیں۔
اول: گرم موسم کی وجہ سے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔ یہ صریحا غلط بیانی ہے۔ مارگلہ کا درجہ حرارت ہر گز ایسا نہیں کہ خود بخود آگ بھڑک اٹھے۔ پھر آگ لگنے کے اکثر واقعات اوپر مارگلہ رج ٹریل" کے آس پاس ہوتے ہیں جہاں کا موسم پوری وادی سے خوشگوار ہوتا ہے۔ اور کبھی کبھار برف بھی پڑ جاتی ہے۔ اس علاقے میں ایسی گرمی کہاں سے آ گئی کہ جنگل خود ہی جل اٹھے؟
دوم: سیاح حضرات جنگل میں جلتا سگریٹ پھینک دیتے ہیں یا بار بی کیو کرتے ہیں تو انگارے بجھائے بغیر چلے جاتے ہیں اور یہ انگارے بعد میں آگ لگنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارے سیاح حضرات جہاں بھی جاتے ہیں تربیت اور تہذیب کے بحران کی کہانی لکھ آتے ہیں۔ لیکن مارگلہ میں آگ لگنے کے بڑے واقعات ان جگہوں پر ہوئے جہاں اس قسم کے سیاح حضرات کا جانا قریب قریب ناممکنات میں سے ہے۔ جو حضرات بدھو بن سے تلہاڑ ٹاپ تک یا مارگلہ رج ٹریل تک ٹریکنگ کرنے کا ذوق رکھتے ہیں وہ جنگل کی قدر بھی جانتے ہیں اور ایسی بے احتیاطی نہیں کر سکتے۔ یہ بے احتیاطی نیچے کے ٹریلز پر یا سڑک کے کنارے پر ہوتی ہے۔ اس فارمولے کے تحت تو آگ نیچے بھڑکنی چاہیے جہاں بار بی کیو ہوتا ہے اور جلتے سگریٹ پھینکے جاتے ہیں۔ لیکن آگ تو بہت اوپر لگتی ہے۔ پھر معاملہ کیا ہے؟
مسئلہ ٹمبر مافیا اور اس کے مقامی سہولت کاروں کا ہے اور اصول بڑا سادہ ہے: درخت کاٹو اور پھر آگ لگا دو۔ مافیا درخت کاٹ کر جنگل جلا دیتا ہے اور متعلقہ ادارے عذر گناہ پیش کر کے سرخرو ہو جاتے ہیں۔ عوامی سطح پر کوئی شعور ہی نہیں کہ جنگل کے لیے آواز اٹھائی جائے۔ سارا شہر دیکھتا ہے کہ جنگل جل رہا ہے لیکن خاموش رہتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آگ ادھر ہی کیوں لگتی ہے جہاں صنوبر اور چیڑ کے درخت ہوتے ہیں؟
اسلام آباد وائلڈلائف کی ویب سائٹ پر آگ کی وجوہات بیان کرتے ہوئے البتہ جزوی سچ بولا گیا ہے جو خوش آئند ہے اور اس مسئلے کی بنیادی وجہ ہے۔ وائلڈ لائف کے مطابق مقامی لوگ ایندھن کے لیے لکڑی کاٹتے ہیں اور جب روکا جائے تو وہ انتقام کے طور پر جنگل کوآگ لگا دیتے ہیں۔ وائلڈ لائف بورڈ کا کہنا ہے کہ جان بوجھ کر یہ لوگ اس لیے بھی آگ لگاتے ہیں کہ جب آگ بجھا دی جائے تو انہیں ایندھن کے لیے خشک لکڑی مل جائے کیونکہ ویسے تو درخت کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ رد عمل میں لوگ ٹمبر مافیا سے بھی تعاون کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مسئلے کا دیر پاحل کیا ہے؟ سادہ سا حل تو صرف قانون کا نفاذ ہی ہے لیکن یہ کوئی حل نہیں ہے۔ اصل حل یہ ہے کہ ان لوگوں کی ایندھن کی ضرورت پوری کر دی جائے۔ بیچ میں صرف ایک پہاڑی ہے، اگر سوئی گیس ای سیون کے اس پار تلہاڑ میں پہنچا دی جائے تو یہ مسئلہ ہی حل ہو جائے اور مقامی لوگ نہ خود جنگل کاٹیں نہ ٹمبر مافیا سے تعاون کریں۔ یہ ممکن نہیں تو سبسڈی پر انہیں سیلنڈرا ور گیس ان ہی کے گائوں میں اتنی سستی فراہم کی جائے کہ ایندھن کے لیے انہیں جنگل نہ کاٹنا پڑے۔ اس پر جو خرچ آئے گا وہ جنگل کی تباہی کے نقصان سے کم ہو گا۔ کیونکہ جب آگ لگتی ہے تو سارا دن ہیلی کاپٹرز اسے بجھاتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی مطالبہ گلگت بلتستان کے وزیر اطلاعات برادرم فتح اللہ خان نے وفاقی حکومت سے کر رکھا ہے کہ جی بی کے جنگلات بچانے ہیں تو مقامی لوگوں کی ایندھن کی ضرورت پوری کی جائے۔
مسائل ٹوئٹر پر اقوال زریں لکھنے سے حل نہیں ہوتے۔ انہیں زمین پر حکمت سے حل کیا جاتا ہے۔ سوال وہی ہے: مارگلہ کب تک جلتا رہے گا؟