ایک مستری کا قانونی سوال
گھر میں مستری لگے ہیں۔ چٹے ان پڑھ ہیں۔ کام کر کر کے تھک گئے تو سستانے بیٹھ گئے۔ میں نے انہیں چائے پیش کی۔ چائے پیتے پیتے ایک نوجوان مزدور نے سوال کیا: سر جی یہ جو اسلام آباد میں لڑکی کا قتل ہوا تھا، اس میں قاتل بھی پکڑا گیا، لڑکی کا جسم اور جسم سے کٹا ہوا سر بھی مل گیا، گواہی بھی موجود ہے تو اب اس کو سزاکیوں نہیں مل رہی؟ مل جائے گی، تمہیں کیا مسئلہ ہے؟
مجھے کوئی مسئلہ نہیں سر جی، پر آپ قانون جانتے ہیں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ جب سب کچھ سامنے ہے تو اتنا " کھلار" کیوں ڈالا ہوا ہے۔ سیدھا سا کیس ہے۔ اب تک تو سزا ہو بھی جانی چاہیے تھی۔ اب کس بات پر غور ہو رہا ہے۔ صاحب جی یہ جاننا چاہتا ہوں۔ ان پڑھ آدمی ہوں صاحب جی، آپ کے قانونی کھلار کا مجھے تو پتا نہیں۔ اس لیے آپ سے پوچھا۔
ایک اور مزدور جو اس ساری گفتگو سے لاتعلق اب تک بیٹھا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا، اسی لاتعلق سے لہجے میں بولا، یہ قتل کابل میں ہوا ہوتا اور اسی طرح ہوا ہوتا اور مجرم اسی طرح پکڑا گیا ہوتا تو اب تک قاتل کی قبر کی مٹی بھی سوکھ چکی ہوتی۔
اس کے بعد مزدوروں نے آپس میں اس مقدمے کے قانونی نکات، پر گفتگو شروع کر دی اور میں وہاں سے اٹھ آیا۔ لیکن یہ سوال اب تک میرے دامن سے لپٹا ہے کہ ایک ان پڑھ مزدور اگر اس طرح سوچ رہا ہے تو معاشرہ کس نفسیاتی پیچیدگی اور کشمکش سے گزر رہا ہے۔ وطن عزیز میں چونکہ سب کو سیاست ہی لاحق ہو چکی ہے اور سماج کسی کا موضوع ہی نہیں اس لیے سب مزے میں ہیں۔ سماج کی فکری اور نفسیاتی حرکیات کسی کا موضوع ہوتیں تو اسے اندازہ ہوتا، تہہ خاک کیسے کیسے آتش فشاں کروٹ لے رہے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں حالات حاضرہ اشرافیہ کے قصیدوں اور ہجو کا نام رہ گیا ہے۔ اس دلاوری سے جو وقت بچ جاتا ہے وہ اپنے علم و فضیلت کے ابلاغ میں صرف ہو جاتا ہے۔ ذرا سی شہرت نفسیاتی توازن چھین لے جاتی ہے۔ کالم نگار اپنے معمولات اور سرگرمیاں یوں بیان کرتے ہیں جیسے لوگ ان کے مقدس حالات ز ندگی مرتب کرنے بیٹھے ہیں اور کوئی لمحہ ان کی نظروں سے اوجھل رہ گیا، تو آنے والے نسلوں نے محرومی کے درد سے آہ و بکا کرتے رہنا ہے کہ اتنے عظیم دانشور کی ز ندگی کا یہ گوشہ سامنے کیوں نہ آ سکا۔۔ یہاں حالات حاضرہ کے نام پر بیوروکریٹوں اور اہل سیاست کے دستر خوانوں کے فضائل بیان کیے جاتے ہیں۔
چند بڑے شہروں کی اشرافیہ کے مسائل، مفادات اور ترجیحات کا نام حالات حاضرہ ہے۔ آرٹیکل 10 اے جب بھی زیر بحث آیا، اشرافیہ کے کسی ایسے سپوت کے دفاع میں آیا جو اپنی نامہ اعمال کی سیاہی کے سبب قانون کی گرفت میں آ چکا ہو۔ قانون کی حکمرانی کا مطلب یہاں یہی لیا جاتا ہے کہ اشرافیہ کو مسئلہ درپیش ہو تو قانون فوری داد رسی کو موجود ہو۔ بھلے اس دن تعطیل ہی کیوں نہ ہو۔
ملک اور صوبے کی سب سے بڑی عدالت میں لگے چند مخصوص کیسوں پر ہمارے نجی چینلز میراتھن ٹرانسمیشن کا اہتمام فرماتے ہیں۔ اہتمام سے بتایا جاتا ہے کہ عزت مآب ملزم صاحب ابھی تھوڑی دیر میں گھر سے نکلیں گے، پھر اپنے اپنے ناظرین کو سب سے پہلے یہ خبر دی جاتی ہے کہ ملزم صاحب کا اقبال بلند ہو اب وہ اپنے گھر سے نکل کر عدالت کی جانب روانہ ہو چکے ہیں۔ شدت جذبات سے کپکپاتی ہوئی آواز میں یہ بریکنگ نیوز بھی دی جاتی ہے کہ ملزم صاحب یا صاحبہ نے کپڑے کس رنگ کے پہنے ہوئے ہیں اور ان کا چشمہ کس رنگ کا ہے۔
لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ملک کے کتنے اضلاع کی کتنی عدالتوں میں کتنے مقدمات کتنے سالوں سے التوا میں ہیں۔ پارلیمان نے کافی معاملات میں قانون سازی کر رکھی ہے اور صاف لکھ رکھا ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ اتنے عرصے میں ہو گا لیکن کیا وہ واقعی اتنے عرصے میں ہو پاتا ہے؟ کہنے کو اقوال زریں موجود ہیں کہ انصاف میں تاریخ انصاف کی نفی کے برابر ہے لیکن یہاں لوگ عدالت سے بری ہوتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے بری ہونے والے تو کب کے پھانسی بھی پا چکے۔
جوڈیشل ریمانڈ کی رسم آج تک ہم نے سینے سے لگا رکھی ہے۔ جیل قیدیوں سے بھر چکے ہیں۔ اکثریت ان کی ہے جن کے مقدموں کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔ تھوڑی سی قانون سازی کر کے، چند اصلاحات کے ذریعے اس عذاب سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے لیکن یہ کسی کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جوڈیشل ریمانڈ کی مختلف مقدمات میں مدت ہی کا تعین کر دیا جائے تو کافی بہتری آ سکتی ہے لیکن قانون میں با معنی اصلاحات ابھی تک ایک خواب ہی ہے۔
چنانچہ عالم یہ ہے کہ چٹے ان پڑھ مزدور بھی سوچنا شروع ہو گئے ہیں کہ ہمارا نظام قانون سادہ سے مقدمات میں اتنا " کھلار" کیوں ڈال دیتا ہے۔ سوال جب سماج کے پسے ہوئے طبقات میں سر اٹھانے لگتے ہیں تو ناسور بن جاتے ہیں۔ ان سوالات کا جواب قانونی موشگافیوں کی مدد سے دیا جائے، تو ناسور کی شدت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ انصاف وہ ہوتا ہے جو ہوتا نظر بھی آئے اور ان پڑھ مزدور کی سمجھ میں بھی آ جائے اور اسے تسلی ہو جائے کہ ہاں اس معاملے میں انصاف ہوا ہے۔
خلق خدا نظام تعزیر کے کھلار سے تنگ آ چکی ہے۔ پولیس کا نظام وہ ہے جو بہادر شاہ ظفر کو قید میں لا کر اس لیے لایا گیا تھا کہ آج کے بعد یہاں رعایا سر نہ اٹھا سکے۔ 160 سال پرانے قانون تعزیر سے لوگوں کو انصاف دینے کی کوشش جب تک جاری رہے گی تب تک پینڈرل مون کی بات درست ثابت ہوتی رہے گی کہ ہم (انگریزوں) نے یہاں ایسا قانون متعارف کرایا ہے جو ظالم کو ظلم کے جوا ز دے گا اور خلق خدا کو پولیس اور وکیلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے گا۔
بات پینڈرل مون نے بھی ادھوری ہی کہی، میں بھی ادھوری ہی کہہ سکتا ہوں۔