وِکٹم بلیمنگ کیوں غلط ہے؟
وِکٹم بلیمنگ(Victim Blaiming) یعنی کسی جرم کا نشانہ بننے والے فرد(مرد یا عورت)پر تنقید کرنا، الزام لگانا ہر اعتبار سے غلط، ناجائز اور ظلم درظلم ہے۔ اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہوگی کہ ایک شخص ظلم اور تشدد کا نشانہ بنا ہے، اوپر سے لوگ اس پر تنقیدشروع کر دیں۔ کسی واردات کاہدف کوئی خاتون بنی ہو تو ہر ایک کو نہایت احتیاط اور ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے۔ خواتین طبعاً حساس اور نازک ہوتی ہیں۔ اس لئے جب کوئی خاتون خدانخواستہ کسی واردات کا نشانہ بنے تو میڈیا، پولیس، اہل خانہ، عزیزواقارب، محلے دار غرض سماج کے ہر شعبے کو بہت سلیقے سے ہینڈلنگ کرنی چاہیے۔
اللہ نہ کرے زیادتی(ریپ، گینگ ریپ) جیسی سنگین ترین نوعیت کا واقعہ ہو، عام واردات جیسے پرس چھینے جانے کے معاملات میں بھی عام طور سے لوگ خواتین کو مطعون ٹھیرانا شروع کر دیتے ہیں، دیکھیں جی ان بیبیوں کو ہوش ہی نہیں ہوتا ادھر ادھرکا، موبائل ہاتھ میں لئے سڑک پر چل رہے ہیں، چور اچک کر لے گیا، یا ایسے کہیں گے" اگر اس بی بی نے پرس مضبوطی سے پکڑ رکھا ہوتا تو نہ چھینا جاتا، یہ تو آپس میں گپیں لگاتے ہوئے بے پروا ہوجاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔"یہ غلط رویہ ہے۔ ممکن ہے اس خاتون سے واقعی بے احتیاطی یا غلطی ہوئی ہو، مگر یہ کس سے نہیں ہوتی؟
کیا مرد حضرات غلطیاں نہیں کرتے؟ جو بہت ہوشیار رہنے کے دعوے دار ہوں، ان کی جیب بھی کبھی نہ کبھی کٹ ہی جاتی ہے۔ بازار میں خریداری کرتے ہوئے، سڑک کے کنارے چلتے پھرتے کسی لمحے میں بندہ بے پروا ہوہی جاتا ہے، اس کی توجہ کسی اور جانب مبذول ہوجاتی ہے۔ چور، جیب کترے، اٹھائی گیرے اسی کمزور لمحہ کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ جو بیچاری خاتون پہلے ہی چور کی چالاکی یا ہاتھ کی صفائی کا شکار ہو کر خفیف، پریشان یا گھبرائی ہوئی ہے، اسے بے رحمانہ تنقید کی نہیں، ڈھارس بندھائے، حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے گھر والوں، والد، بھائی یا خاوند کی جانب سے سختی نہیں، نرمی، شفقت اور محبت کی متلاشی ہے۔ انہیں چاہیے کہ ساتھ کھڑے ہوں، سہارا دیں، آنسو پونچھیں، تسلی دیں اور اس پریشانی سے نکلنے میں مدد دیں۔
اوپر بیان کیا گیا واقعہ بہت کم نوعیت کا شاک ہے، خدانخواستہ متاثرہ خاتون کے ساتھ زیادتی ہوگئی یا سانحہ لاہور جیسا کوئی خوفناک، دہشت ناک سین بن گیا تو معاملے کی شدت کئی سو گنا بڑھ جاتی ہے۔ ریپ کے اثرات زندگی بھر نہیں جاتے بلکہ بہت سے کیسز میں تو اگلی نسل تک سفر کرتے ہیں۔ چونکہ یہ شاک کئی سو گنا زیادہ بڑا اور شدید ہے، اس لئے سماج اور اہل خانہ کا رویہ بھی کئی سو گنا زیادہ ہمدردانہ، شفقت آمیز، محبت سے گندھا ہوا ہونا چاہیے۔
یہ بات نہ سوچیں کہ رشتے دار کیا کہیں گے، دوست، محلے دار کیا باتیں بنائیں گے؟ سب جائیں بھاڑ میں، ان سے بعد میں نمٹا جائے گا۔ آپ کی عزیزہ صدمے سے دوچار ہے، سردست اس کی زندگی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اس کا زندہ رہنا آپ کے لئے اہم ہے، رشتے داروں، دوستوں، محلے داروں کے لئے نہیں۔ خدانخواستہ جان چلی گئی تو بھگتنا آپ کے گھر کو پڑے گا، رشتے داروں کو نہیں۔ اس لئے سب سے پہلے مظلوم کی پروا کی جائے جو شدید صدمے میں ہے۔ جسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا لگاہے۔ متاثرہ فرد یا وِکٹم (Victim) کی سپورٹ کے لئے پورے گھر، اہل خانہ، محلہ کو کھڑا ہونا چاہیے۔ یہ ان کا فرض ہے، قانونی، اخلاقی اور سب سے بڑھ کر شرعی ذمہ داری۔
کوئی بھی واردات ہو، اس کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ بعض اوقات متاثرہ فرد سے کوئی ایسی غلطی ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں مجرموں کو آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ جیسے گھر سے باہرموٹر سائیکل کھڑی کی اور لاک نہیں کیا، نتیجے میں موٹرسائیکل چوری ہوگئی۔ گھر خالی چھوڑ کر کئی دنوں کے لئے شہر سے باہر چلے گئے اور کسی کو خبرگیری کا کہا تک نہیں۔ چوروں نے موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور صفایا کر دیا۔ آدھی رات کو سنسان سڑک سے خراماں خراماں گزر ہے تھے کہ سٹریٹ کرائم کا نشانہ بن گئے۔ ٹرین میں سفر کرتے ہوئے ساتھی مسافر سے جوس پی لیا اور پھرکئی گھنٹوں بعدہوش آیا جب جیب خالی اور سب سامان لٹ گیا تھا، وغیرہ وغیرہ۔
بعض وارداتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں احتیاط کی گئی تھی، مگر سب تدابیر ناکام ٹھیریں۔ جیسے رات کو ڈاکو دیوار پھلانگ کر اندر گھسے، گرل کی سلاخیں کاٹ کر اندر آ گئے، لوٹ لیا۔ موٹر سائیکل کو اچھی طرح لاک کر کے چند منٹوں کے لئے کہیں کھڑا کیا، مگر اتنی سی دیر میں پروفیشنل چور کام دکھا گئے۔ کسی بارونق سڑک یا لبرٹی مارکیٹ لاہور، زینب مارکیٹ کراچی جیسی جگہ پر ایک آدھ منٹ میں گن پوائنٹ پر موبائل، پرس چھین لیا گیا۔ ان تمام معاملات میں متاثرہ فرد یا فریق کا قصور نہیں تھا، حالات کے جبر نے وہ واردات کراد ی۔
اوپر والے پیرے میں بیان کردہ واقعات میں تو خیر وِکٹم یعنی متاثرہ شخص کو الزام دینے یا تنقید کرنے کی کوئی تک ہی نہیں، کوئی احمق شخص ہی ایسا کر سکتا ہے۔ تاہم ایسی تمام وارداتیں، حادثے، سانحے جو متاثرہ فریق کی کسی غلطی، بے احتیاطی، غیر ذمہ داری سے ہوئے، ان میں بھی وِکٹم بلیمنگ غلط، ناجائز اور ناروا ہے۔ اخلاقی طور پر یہ غلط ہے، شرعی طور پر بھی نامناسب ہے کہ ایسا کرنا دل آزاری اور زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ طبی اور نفسیاتی ماہرین دو تین اور وجوہات بھی بیان کرتے ہیں۔ سب سے بڑا یہ کہ متاثرہ فرد پہلے سے شدید صدمہ (ٹراما)کی کیفیت میں ہوتا ہے۔ جب اس پر تنقید کی جاتی اور اس حادثے کا ذمہ دار خود اس کی ذات، اس کی غلطیوں کو ٹھیرایا جاتا ہے تو وہ صدمے کے بہت گہرے گڑھے میں جا گرتا ہے۔ وہ ڈپریشن کی خطرناک قسموں میں سے کسی کا شکار ہوجاتا ہے اور اکثر کیسز میں خودکشی کی کوشش کر تا ہے۔ بہت سے کیسز میں اس کی خوداعتمادی تباہ ہوجاتی ہے، قوت فیصلہ کام نہیں کرتی اور عام معمول کے کام بھی نہیں کر پاتا۔ اگر اس کے قریبی عزیز، دوست، ملنے جلنے والے سفاکانہ رویہ اپنائیں تو ہر روز جینے اور روز مرنے والی کیفیت ہوجائے گی۔
ایک اور اہم فیکٹر یہ کہ قوانین فطرت (Laws Of Nature)کے مطابق بھی غلطی کا امکان(مارجن آف ایرر)کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ کوئی انسان خواہ کتنا ہوشیار، مستعد، دانش مند ہو، وہ کسی نہ کسی وقت غلطی کر جاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ یہ کام اتنی دیر میں ہوجائے گا، مگر پھر چیزیں آئوٹ آف کنٹرول ہوجاتی ہیں۔ اپنی طرف سے احتیاط کی گئی، مگروہ کافی نہ تھی۔ بعض اوقات چیزیں ایک سیریز میں غلط ہونے لگتی ہیں۔ یہ بھی شائد لاز آف نیچر کی کوئی قسم ہے۔ ناخوشگوارغیر متوقع واقعات کی زنجیر سی بن گئی۔ ان کی زد میں آ کر بھی اچھے بھلے محتاط لوگوں سے بلنڈر ہوجاتے ہیں۔
مارجن آف ایرر کا فائدہ ہمیشہ متاثرہ فریق کو ملتا ہے، ہمیں دینا چاہیے۔ ایسی صورتحال میں صرف ایک بار یہ سوچیں کہ ہمارے آقا خاتم النبین حضورﷺ اگر ہوتے تو آپ ﷺ کا رویہ کیا ہوتا؟ کیسی شفقت، ہمدردی، دل جوئی سے متاثرہ شخص سے پیش آتے؟ یہ تصور کریں اور پھر ویسا کرنے کی کوشش کریں۔
یاد رکھیں کہ کسی بھی نوعیت، قسم کے ناخوشگوار واقعات، سانحات میں وِکٹم بلیمنگ غلط ہے۔ ہمیں چند اصول وضع کرنے چاہئیں:اپنی زبان سے غیر محتاط جملہ نہ نکالیں۔ ایسی تربیت کریں کہ حالت اضطرار میں بھی الزامی، تنقید فقرہ ادا نہ ہو۔
آپ کے آس پاس کوئی ایسی بات کرے تو سختی سے روک دیں۔ کوئی چھوٹا یا ہم مرتبہ ہے تو صاف کہہ دیں کہ یہ بات نہ کی جائے، میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ کوئی بڑا یا بزرگ ہے تو خاموش رہنے کے بجائے شائستگی، تمیز سے ان کی نفی کریں۔ انہیں سمجھائیں کہ ایسا نہ کہیں۔ اللہ اور اس کے آخری رسول ﷺ کا خوف دلائیں۔ بہت بار ایسا کہنے سے زبانیں رک جاتی ہیں۔
آپ کا کسی بھی انداز میں وِکٹم یا متاثرہ فرد سے کوئی تعلق ہے تو اپنے انداز میں نرمی، شفقت اور گداز لے آئیں۔ جینوئن ہمدردی لفظوں کے اظہار کے بغیر بھی پہچانی جاتی ہے۔ کئی بارکچھ نہ کہنا ہی زیادتی کا شکار خاتون سے ہمدردی ہے۔
ترس کھانے، چچ چچ کرنے یا مصنوعی ہمدردی جتانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ چاہے جتنا تجسس ہو، متاثرہ فرد سے اس کی داستان سنانے کیلئے ہرگز ہرگز نہ کہیں۔ یہ پھر سے زیادتی کرنے جتنا ظلم ہے۔ ہاں اگر کوئی سنانا چاہے تو پوری توجہ، ہمدردی سے سنیں، حوصلہ دیں۔
حرف آخر یہ کہ وِکٹم بلیمنگ یا متاثرہ خواتین کے لئے کھڑا ہونے کا سب سے بڑا حق مذہبی لوگوں کا ہے۔ جو خود کو اسلامسٹ، رائٹسٹ کہلاتے ہیں، ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں، ان پر الزام لگانے والوں کو اللہ کا خوف دلائیں، سیرت مبارکہ سے مہکتے، جگمگاتے واقعات سنائیں اور سماج کی تربیت کریں۔