Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Amir Khakwani
  3. Sohail Warraich Ka Difa Kyun?

Sohail Warraich Ka Difa Kyun?

سہیل وڑائچ کا دفاع کیوں؟

محترم سہیل وڑائچ کے حوالے سے اداکارہ، اینکر فضا علی کے گھٹیا طنز پر مسرور اور ازحد خوش ہونے والے انصافین اور ان کے شدت پسند حلقے کے لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آج فضا علی یا اس جیسی اوسط سے بھی کم درجے کی اداکارہ کے فضول جملوں کا نشانہ ان کا ناپسندیدہ صحافی بنا ہے، لیکن اس رجحان کی حوصلہ افزائی کی گئی تو پھر تحریک انصاف کے بڑے نام بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ جن صحافیوں کو انصافین بہت پسند کرتے ہیں اور رول ماڈل قرار دیتے ہیں، وہ بھی کسی دوسری فضا علی ٹائپ خاتون یا کسی کامیڈین کے عامیانہ گھٹیا طنز کا نشانہ بن جائیں گے۔ جو بات غلط ہے وہ غلط ہے۔

فضا علی کا ایک بہت سینئر اور اپنے سے بڑی عمر کے سنجیدہ صحافی کو یوں نشانہ بنانا مناسب نہیں۔ فضا علی نے ارشاد بھٹی کو بھی درزی، جواد احمد کو دھوبی قرار دیا جبکہ پروگرام کے نالائق ترین اور انتہائی گھٹیا ہوسٹ کامران شاہد کو گویا یعنی گلوکار قرار دیا، حالانکہ کامران شاہد کی آواز باقاعدہ بھدی اور بے ہنگم سی ہے۔ تعریف شائد اس لئے کہ دوبارہ بھی پروگرام میں بلایا جا سکے۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر احمد خان کو پینٹر یعنی مصور کہا۔ یہاں پر اسے طنز اور گھٹیا پن کی ہمت نہیں ہوئی۔ فضا علی گھامڑ اور احمق ہوگی مگر اتنی بھی نہیں۔

ویسے اس پروگرام میں سب سے فضول اور بے ہودہ گفتگو میزبان کامران شاہد کی تھی، وہ نہ صرف بیکار باتیں کہتے رہے، زومعنی جملے کستے رہے اور خواہ مخواہ کے کامیڈین بننے کی ناکام کوشش کی۔

سہیل وڑائچ پر تنقید پر انصآفین اس لئے خوش ہوئے کہ ان کے بقول سہیل وڑائچ نے عمران خان کو ڈونکی راجہ کہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا فضا علی نے اس وجہ سے سہیل وڑائچ پر تنقید کی؟ نہیں۔ فضا علی کو تو اس کا پتہ بھی نہیں ہوگا۔ وہ کون سا پڑھنے لکھنے والی خاتون ہے۔ اس نے معروف شاعر عباس تابش پر اپنا فقرہ کسنے کے بجائے ایک نہایت فضول من گھڑت واقعہ سنایا جس میں بے سروپا کے اشعار اور تھڑے کے لیول کی جگت تھی۔ اس سے فضا علی کے ذوق کا بخوبی اندازہ ہوگیا۔

سہیل وڑائچ ایک سینئر اور تجربہ کار صحافی ہیں۔ ان کے دامن میں بہت کچھ اچھا، عمدہ اور اعلیٰ معیار کا ہے۔ کچھ کام ہلکا اور شائد اتنا معیاری نہیں بھی ہوگا۔ جب ایک آدمی پینتس چالیس برس تک لکھے، ہزاروں ٹی وی پروگرام کرے تو کمزور چیزیں بھی آ جاتی ہیں۔ ان کا میں ہرگز دفاع نہیں کرتا۔ جو چیز جیسے ہے، ویسی ہی بیان کرنی چاہیے۔

میں ذاتی طور پر سہیل وڑائچ کا احترام کرتا ہوں کیونکہ وہ بہت اچھے انٹرویور ہیں۔ انہوں نے جنگ کے سنڈے میگزین کے لئے کمال قسم کے عمدہ انٹرویو کر رکھے ہیں۔ ایسے بہترین، سنجیدہ اور نہایت معیاری انٹرویوز کی تعداد درجنوں، بیسیوں نہیں بلکہ شائد سینکڑوں میں ہوگی۔ ان کی چار کتابیں انہی انٹرویوز پر مبنی ہیں۔ ایک میں ریٹائر ججوں کے انٹرویوز ہیں، ایک میں قوم پرست سیاستدانوں کے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ عطااللہ مینگل، خیر بخش مری، نواب اکبر بگٹی، ولی خان اور بہت سے دیگر بھی۔ ایک کتاب ریٹائر جرنیلوں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے، یہ بھی بہت عمدہ انٹرویوز ہیں۔ ایک میں ممتاز علما کرام اور دینی جماعتوں کے قائدین شامل ہیں۔ یہ چاروں کتابیں پرنٹ جرنلزم میں انٹرویوز کا بہترین نمونہ ہیں۔

صحافت کے کسی بھی طالب علم کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ مل سکتا ہے۔ سہیل وڑائچ پر تنقید کرنے والوں نے یقینی طور پر ان کتابوں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں پڑھا ہوگا، ورنہ وہ یہ نہیں کہتے کہ سہیل وڑائچ صحافی یا انٹرویور نہیں۔

ان کی ایک کتاب نواز شریف کے طویل انٹرویوز پر مشتمل ہے، غدار کون۔ یاد رہے کہ یہ جنرل مشرف کے دور میں شائع ہوئی جب نواز شریف پر کچھ بھی لکھنا بہت مشکل اور خطرناک تھا۔ ایک کتاب بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد آئی۔ ان دونوں کتابوں پر میرے یا کسی اور کے تحفظات یا اعتراضات ہوسکتے ہیں، مگر بہرحال یہ بھی خاصا بھرپور کام ہے۔

سہیل وڑائچ کے صحافتی کیرئر کا ایک بڑا حصہ ان کے پولیٹیکل ایڈیشن اور جنگ کے سیاسی ایڈیشن کے سربراہ کے طور پر سیاسی تجزیے ہیں۔ وہ اچھے تجزیہ کار ہیں، پنجاب کی دیہی سیاست کو بہت اچھا سمجھتے ہیں، برادریوں کی سیاست پر شائد ہی کوئی صحافی اتنی گہرائی سے جانتا ہو جتنا سہیل وڑائچ جانتے، سمجھتے ہیں۔ ان کے ان سیاسی تجزیوں کا بھی طویل دورانیہ ہے، کم وبیش بیس تیس سال۔

سہیل وڑائچ کے کیرئر کا ایک حصہ ان کے جیو کا شو ایک دن جیو کے ساتھ ہے۔ اس میں انہوں نے کئی بہت اچھے انٹرویوز بھی کئے اور اس میں بعض کمزور اور حتیٰ کہ قابل اعتراض پروگرام بھی ہوئے۔ کم از کم مجھے سہیل وڑائچ کا قندیل بلوچ والا پروگرام سخت ناپسند آیا۔ میرے خیال میں انہیں وہ پروگرام نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح وہ مہک ملک والے پروگرام سے بھی گریز کرتے۔ چند ایک دیگر پروگرام بھی ایسے ہوں گے مگر بہرحال یہ ایک دن جیو کے ساتھ کے سینکڑوں شوز کا بمشکل دو تین فیصد ہی ہوگا۔

ایک دن جیو کے ساتھ پروگرام دو ہزار دو میں شروع ہوا۔ یہ آج بھی چل رہا ہے، بیچ میں کچھ وقفے آئے۔ اب اگر کوئی سہیل وڑائچ کے بائیس تیئس سالہ اس ٹی وی سفر میں سے اگر قندیل بلوچ، مہک ملک والا پروگرام نکال لے یا کوئی ایسا پروگرام جس میں انہوں نے کسی اداکارہ سے اس کے بیڈ روم میں جا کر ہاتھ ملایا اور پھر سہیل وڑائچ کے سب کام پر پانی پھیر دے تو یہ زیادتی اور ناانصافی ہوگی۔ انصاف یہ ہے کہ جو اچھا کام ہے اس کی ستائش کی جائے اور جو برا یا کمزور کام ہے، قابل اعتراض ہے، اس پر تنقید کی جائے۔

سہیل وڑائچ کے صحافتی کیرئر کا ایک حصہ ان کے کالمز ہیں۔ وہ روزنامہ جنگ میں کالم لکھ رہے ہیں۔ یہ تین چار سال پہلے ہی شروع کئے۔ اپنے طویل صحافتی کیرئر میں سہیل وڑائچ کو کالم لکھنے کا موقعہ نہیں ملا یا جو بھی وجہ تھی، نہیں لکھے۔ اب انہوں نے کالم لکھے تو حقیقت یہ ہے کہ ان کے بہت سے کالم ہٹ ہوئے، ڈسکس ہوئے۔ انہوں نے بعض بہت عمدہ کالم لکھے۔ کچھ کالم کمزور بھی تھے، بعض سے مجھے یا کسی اور اختلاف ہوسکتا ہے۔ کئی کالموں میں ان کا نقطہ نظر یا رائے متنازع ہوسکتی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک کالم میں ڈونکی راجہ کی اصطلاح استعمال کی جو صریحاً غلط اور زیادتی تھی۔ سہیل وڑائچ جیسے معتدل محتاط صحافی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔

ہم نے ڈونکی راجہ والے کالم پر تنقید کی، ان تک یہ تنقید پہنچائی بھی۔ بہرحال اس کالم کے بعد یہ بات دوبارہ سہیل وڑآئچ نے نہیں لکھی۔ بعض کالم انہوں نے علامتی انداز میں لکھے، ان میں سے کہیں کہیں غلطی بھی ہوئی، چوک بھی گئے۔ اپنی غلطیوں سے مگر سیکھا اور جہاں کہیں کسی لیڈر کے بارے میں سخت یا قابل اعتراض بات لکھی، اسے دہرایا نہیں۔

ان کی تحریروں میں مسلم لیگ ن کے لئے کہیں کہیں نرم گوشہ نظر آتا ہے، متنازع الیکشن کے بعد وہ موجودہ رجیم کے خلاف نہیں گئے، کہیں کہیں ان کا دفاع یا حمایت کی۔ وڑائچ صاحب پیپلزپارتی کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، بھٹؤ صآحب، بی بی کے لئے اور کسی حد تک زرداری صاحب کے لئے بھی۔ شائد اس لئے کہ سہیل وڑائچ بھی کسی حد تک معتدل سیکولر آدمی ہیں، سنٹرسٹ سمجھ لیں۔ مجھے ان کے ن لیگ اور پی پی پی کی حمایت میں لکھی تحریروں پر اعتراض یا اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اگر میں ان کے ایک کالم کو چن کر باقی سب عمدہ کام کو رد کر دوں تو پھر یہ بدترین زیادتی اور ظلم ہوگا۔

ایک اور بات بھی ذہن میں رہے کہ سہیل وڑائچ نے پچھلے دو برسوں میں متعدد کالم عمران خان کی رہائی کے لئے لکھے۔ انہوں نے نواز شریف سے ملاقات میں یہ کہا کہ عمران خان کے خلاف مقدمات ختم کرکے انہیں رہا کرنا چاہیے اور سیاستدانوں کو تلخی ختم کرنی چاہیے۔ اس بات کی کبھی ن لیگ نے تردید نہیں کی، یعنی یہ بات واقعی سہیل وڑائچ نے نواز شریف صاحب سے لندن میں جا کر کہی تھی۔ اس کے بعد سیہل وڑائچ نے یہ بات درجنوں بار اپنے کالموں میں لکھی ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف مقدمات ختم ہونے چاہئیں۔ یہ بات اتنی جرات اور تواتر سے لکھی کہ دو چار بار میں نے ان کے ایسے کالموں کو پڑھنے کے بعد انہیں تعریفی ٹیکسٹ میسج بھیجا کیونکہ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ ایسا کالم آج کے دور میں لکھنا اور جنگ میں اسے چھپوانا کس قدر مشکل کام ہے۔

یہ بات بھی کہنا ضروری ہے کہ عمران خان کو ڈونکی راجہ کہنا غلط ہے، اس پر تنقید ہونی چاہیے، مگر یہ بات ان انصافین کو کہنے کا کوئی حق نہیں جو عمران خان کی زبانی مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کہتا سن کر خوش ہوتے اور نعرے لگاتے ہیں۔ جو انصافین مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کہنے، شہباز شریف کو چیری بلاسم کہنے اور مریم نواز شریف پر گھٹیا ذاتی حملہ کرنے پر عمران خان سے خوش ہوئے، اس کی تعریفیں کیں اور تنقید کا ایک لفظ نہ کہا، انہیں پھر عمران خان کو ڈونکی راجہ کہنے پر بھی ناراض ہونے کا کوئی حق نہیں۔ ڈونکی راجہ کہنا غلط ہے تو مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کہنا بھی اتنا ہی غلط ہے۔

یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے عمران خان کے ان تمام بیانات پر بھی تنقید کی تھی، ڈونکی راجہ کہنے پر بھی تنقید کی، میں تو عمران خان کو نیازی کہنے والوں پر بھی تنقید کرتا ہوں کیونکہ وہ ایک خاص پس منظر میں یہ بات کہتے ہیں۔ میں انصافین کہتا ہوں، یوتھیا بھی نہیں کہتا کہ یہ بھی ایک خاص قافیہ سے ملانے کے لئے اصطلاح گھڑی گئی۔ البتہ زومبی اور کلٹ کہتا ہوں کیونکہ انصافین میں سے ایک طبقہ ایسا ہے جو ننگی گالیاں دینا درست سمجھتا ہے اور جو عقل وفہم سے عاری جنونیوں کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں۔

جن لوگوں کے خیال میں سوئپر کہنے میں کوئی برائی نہیں کہ یہ بھی کام ہے، امید ہے کہ جب کوئی ن لیگی یا جیالا عمران خان یا تحریک انصاف کے کسی دوسرے مقبول رہنما جیسے مراد سعید وغیرہ کو سوئپر یا واش روم صاف کرنے والا کہے گا تو یہ انصافین اس کا برا نہیں مانیں گے۔ ویسے کیا یہ اپنے گھر کے کسی بڑے کو سوئپر کہہ سکتے ہیں؟

اگر نہیں تو پھر انہیں سمجھنا چاہیے کہ فضا علی نے دانستہ تضحیک کی کوشش کی۔ وہ اس دن شوخے پن اور بھانڈ پن پر اتری ہوئی تھی اور ارشاد بھٹی کو درزی، جواد احمد کو دھوبی، سہیل وڑائچ کو سوئپر کہنا اور ایک دو بار شامی صاحب کو پھکڑ پن کے لہجے میں چاچا کہنا بھی اس کے گھٹیا اور بازاری پن کی دلیل تھی۔

آخری بات یہ کہ جتھوں کی صورت میں حملہ آور ہو کر آپ کسی اور کو دبا سکتے ہیں، مجھے نہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہم ایسی ہر حرکت پر مزید لکھتے ہیں، زیادہ کھل کر تفصیل سے لکھتے ہیں۔ مجھے بدتمیزی ناپسند ہے مگر اس کا بہترین علاج ہمیں فیس بک بلاک کی صورت میں سمجھا چکی ہے تو چند منٹ لگتے ہین اور درجنوں لوگ بلاک ہو کر ہمیشہ کے لئے ہماری نظروں سے دور ہوجاتے ہیں۔

مزید یہ بھی کہ صرف تحریک انصاف عوام نہیں۔ یہ عوام کا ایک حصہ ہی ہے۔ اگر آپ منظم ہیں اور منظم ردعمل دیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سوشل میڈیا پر ہر جگہ آپ ہی آپ ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ سہیل وڑائچ ایک سینئر اور تجربہ کار صحافی ہیں۔ ان کے دامن میں بہت کچھ عمدہ اور اعلیٰ درجے کا کام بھی ہے، چند ایک کمزور تحریریں یا ٹی وی پروگرام بھی ہیں، جن پر تنقید ہوتی رہی ہے، ہو سکتی ہے، مگر وہ طریقے سے ہونی چاہیے۔ میں سہیل وڑائچ کی حمایت اس لئے نہیں کر رہا ہوں کہ وہ میرے پیٹی بھرا ہیں؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں۔

ایسا اس لئے کہ ہم نے سہیل وڑائچ کو تیس پینتیس برسوں سے پڑھا ہے، سنا ہے، دیکھا ہے۔ ان کی تحریروں، تجزیوں کو جانچا ہے، غور کیا ہے۔ اختلاف اتفاق اپنی جگہ مگر کوئی آج کی صحافت میں سہیل وڑائچ کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ وہ بہرحال ایسی نمایاں اور قد آور شخصیت ہیں کہ ان سے اختلاف کے لئے بھی زور لگانا پڑتا ہے، مدلل بیانیہ بنانا پڑتا ہے جو کم از کم غصے اور جوش سے مغلوب ہوجانے والے انصآفین کی بس کی بات نہیں۔

Check Also

Desan Da Raja

By Syed Mehdi Bukhari