سانحہ لاہور سے کیا سبق سیکھنے چاہئیں؟
سانحہ لاہورکے بعد پچھلے چند دنوں میں کروڑوں لوگ جس تکلیف اور کرب سے گزرے، اس کے بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ ابھی یہ معاملہ ختم نہیں ہوا۔ ایک مجرم گزشتہ روز گرفتار ہوا۔ انہیں سخت ترین سزائیں دینے کی بات ہو رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے قانون سازی کا عندیہ دیا ہے۔ ایک اور نئی تجویز گینگ ریپ کے مجرموں کی آختہ سازی (خصی کر دینے)کے حوالے سے بھی آئی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس حوالے سے شرعی پہلو کیا ہیں اور کیا یہ ممکن ہے؟ یہ بات بہرحال طے ہے کہ اس سنگین ترین جرم کی سزا اتنی سخت ہو اور اس پر ایسے زوردار انداز میں عملدرآمد ہو کہ مجرموں پرہیبت بیٹھ جائے۔
اخبارنویس بخوبی جانتے ہیں اور اخبارات کے کرائم صفحات کا مطالعہ کرنے والے قارئین بھی باخبر ہیں کہ روزانہ بے شمار ڈاکے، چوریوں کی خبریں شائع ہوتی ہیں، کچھ نہیں بھی ہو پاتی ہوں گی۔ عام طور سے ڈکیتی، چوریوں کی ایک ہی خبر بنا دی جاتی ہے۔ کسی کا گھر لٹ گیا، اس کے مقدرمیں صر ف ایک سطر آتی ہے کہ نشتر ٹائون یا غالب مارکیٹ تھانے یا کسی دوسرے علاقے میں فلاں کے گھر اتنے لاکھ کا ڈاکہ۔ یہ ظاہر ہی نہیں ہوپاتا کہ ان ڈاکوئوں کی وجہ سے اس گھر پر کیا قیامت گزری۔ اللہ نے اس گھر کی بچیوں کومحفوظ رکھا، تب بھی ڈاکے کی دہشت برسوں نہیں جاتی۔ ہمارے دوست اور معروف صحافی رئوف طاہر صاحب کے گھر دو تین بار چوریاں ہوئیں۔ ان کی اہلیہ مہلک مرض میں مبتلا تھیں، گھر والے ہسپتال کے چکروں میں پڑے رہتے اور خالی گھر کا دو مرتبہ صفایا ہوا۔ وہ اپنا گھر بیچ کررائے ونڈ روڈ پر واقع ایک معروف نجی ہائوسنگ سوسائٹی چلے گئے۔ بدقسمتی سے پچھلے سال وہاں آدھی رات کوچھ سات ڈاکو گھس آئے، گھر والوں کو یرغمال بنا کر صفایا کر گئے۔ کچھ پتہ نہ چل سکا کہ کہاں سے آئے، کہاں گئے؟ پچھلے دنوں ان سے ملاقات ہوئی تو بتانے لگے کہ اسی سوسائٹی میں اس کے بعد ایک اورڈکیتی ہوئی اور ڈاکے کے بعد ڈاکوئوں نے گن پوائنٹ پر صاحب خانہ کو مجبور کیا کہ وہ فون کر کے ہمسایے کو باہر بلائے، یوں دونوں گھر لوٹ لئے گئے۔ یہ پوش سوسائٹی کا حال ہے، جہاں درجنوں گارڈز موجود ہیں۔ بہت سی سوسائٹیاں ایسی ہیں جہاں گارڈز برائے نام ہیں یا رات کو سوئے رہتے ہیں، وہاں مکین اللہ کے آسرے پر رہتے ہیں۔
لاہور کے کئی مضافاتی علاقوں میں مغرب یا عشا کے بعد لوگ گھروں سے نہیں نکلتے کہ کوئی محفوظ نہیں رہتا۔ فیروز والا، شاہدرہ، کوٹ عبدالمالک، شرقپور وغیرہ کے مضافاتی علاقوں میں یہی حال ہے۔ اکثر بڑے قصبات کو جانے والی سڑکیں شام کے بعد ویران ہوجاتی ہیں، وہاں ڈاکوئوں کا راج رہتاہے۔ کورونا سے پہلے ایک عزیز سے ملنے پسرور گیا، واپسی عصر کے بعد ہوئی، ڈرائیور نے ٹوٹی پھوٹی سڑک کے باوجود گاڑی بھگائی۔ اس کا کہنا تھا کہ یہاں مغرب کے بعدحالات خراب ہوجاتے ہیں، کہیں پر لوٹا جا سکتا ہے۔ وہ اچھی خاصی مین سٹرک تھی۔ نارووال جانے والی سڑک تو ایک زمانے میں ڈکیتیوں کی وجہ سے بدنام تھی، معلوم نہیں آج کل کیا حال ہے؟
اس واقعے سے ہر ایک کو اندازہ ہوگیا کہ کس طرح مسافر غیر محفوظ ہیں اور بڑے پروفیشنل ڈاکوئوں کے گروہ تو خیر خطرناک ہیں ہی، چھوٹے موٹے وارداتیے بھی راتوں کو بلاخوف وخطر گھومتے پھرتے ہیں اور راہ چلتے مسافروں کو لوٹ لیتے ہیں۔ سانحہ لاہور کے گرفتار ملزم کا بیان صوبائی انتظامیہ اورپولیس کے اعلیٰ افسروں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ ایسے ملزم برسوں سے آزاد گھومتے پھر رہے ہیں۔ اس واقعے میں اگر گینگ ریپ کا عنصر شامل نہ ہوجاتا تو میڈیا پر اسے زیادہ کوریج نہیں ملنی تھی۔ اگر یہ واردات کسی مرد کے ساتھ ہوجاتی، اس کی گاڑی وہاں پر خراب ہوتی اور وہ لٹ جاتا تو دو تین سطروں سے زیادہ کی خبر نہیں بننی تھی۔ سانحہ لاہور نے سٹریٹ کرائم اور روڈز کرائم کی شدت اور سنگینی نمایاں کر دی۔ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم پاکستان کو اس پر جامع منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ پنجاب پولیس کی نفری بڑھانی چاہیے، رات کو گشت کرنے اور ناکوں پر ڈیوٹی دینے والوں سے دن میں کام نہ لیا جائے، تب ہی وہ مستعدی سے کام لے سکتے ہیں۔ ڈولفن فورس میں اضافہ کرنا چاہیے۔ مضافاتی علاقوں میں ان کی خاصی تعداد تعین کی جائے۔
فرانزک شہادتوں کی اہمیت ایک بار پھر راسخ ہوگئی۔ مرکزی ملزم عابد کا اگر پرانا ڈیٹا نہ ہوتا تو یہ کیس کسی طرح حل نہیں ہونا تھا۔ پنجاب میں جدید ترین فرانزک لیب بنائی گئی۔ کہا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ چودھری پرویز الٰہی کے دور میں شروع ہوا۔ ایسا ہی ہوگا، مگر بہرحال شہباز شریف کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے بڑے پیمانے پر فنڈز مختص کر کے اتنے اعلیٰ معیار کی لیب بنائی۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو میاں شہباز شریف سے کریڈٹ چھیننے کے بجائے پنجاب میں اسی معیار کی کم از کم دو لیب اور بنانی چاہئیں۔ لاہور، پنڈی اور ملتان تینوں بڑے شہروں میں ڈی این اے شناخت کرنے اور جدید ترین فرانزک شہادتوں کو جانچنے کی لیب ہونی چاہئے۔ جنوبی پنجاب کے کیسز کے لئے ملتان لیب سے استفادہ کیا جائے جبکہ سنٹرل پنجاب والے لاہور اور اپر پنجاب والے پنڈی سے فائدہ اٹھائیں۔ پشاور میں پہلے ہی ایسی لیب بن چکی ہے۔ ڈی این اے کے ڈیٹا بینک کو بھی غیر معمولی وسعت دینی چاہیے۔ ہر ملزم یا مشتبہ ملزم کا ریکارڈ رکھا جائے۔ یہ آسان کام نہیں، اس کے لئے خاصے فنڈز درکار ہوں گے۔ پنجاب حکومت کو وفاق کی مدد سے یا اپنے طور پر یہ کر گزرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ لاکھوں جرائم پیشہ افراد اور مشکوک جرائم پیشہ کے فنگر پرنٹس ریکارڈ کا ڈیٹا بینک بنانا چاہیے۔ ہمارے ہاں سو فی صد چوریوں اور ڈکیتیوں میں ملزم فنگر پرنٹس کا خیال نہیں رکھتے۔ نہایت آسانی کے ساتھ موقعہ واردات سے ان کے فنگر پرنٹس لے کر ڈیٹا بینک سے میچ کئے جا سکتے ہیں۔ نادرا کے ذریعے ان کا مکمل بائیوڈیٹا مل جائے گا۔ ایسا کرنے میں کچھ وقت اور خاصا سرمایہ خرچ ہوگا، مگر یہ ایسا کام ہوگا جس سے کرائم ریٹ ڈرامائی حد تک کم ہوسکتا ہے۔
خواتین کے تحفظ کے لئے بھی جامع اور مبسوط پلان بنانا چاہیے۔ اس سانحہ میں متاثرہ خاتون پر کسی قسم کا سوال یا الزام نہیں لگانا چاہیے۔ سی سی پی او لاہور نے جو غیر ذمہ دارانہ بیان دیا، وہ اس پر معذرت کر چکے ہیں۔ اس بیان پر جس انداز میں عوامی ردعمل آیا، سول سوسائٹی نے شدیدتنقید کی، سوشل میڈیا نے بھرپور دبائو پیدا کیا۔ یہ خوش آئند ہے۔ آئندہ کوئی پولیس افسر ایسی کمزور بات نہیں کہہ سکے گا۔ میڈیا کا رویہ مثالی تو نہیں رہا، مگر ماضی کے کیسز کی نسبت بہت بہتر رویہ اپنایا گیا۔ ابھی تک متاثرہ خاتون کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ مستقبل میں بھی یہ شناخت ظاہر نہیں ہونی چاہیے۔ جو یہ بلنڈر کرے، پیمرا اور دیگر ریگولیٹری اداروں کو چاہیے کہ انہیں نشان عبرت بنا دیں۔ ہمیں اپنے رویوں کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسے سانحوں میں متاثرین کے لئے سپورٹ سسٹم بنایا جائے۔ ایسے گروپ ہوں جو میڈیا سے دور رہ کر انہیں نفسیاتی، اخلاقی مدد فراہم کر سکیں۔ مولانا طارق جمیل جیسے علماء بھی یہ کام کر سکتے ہیں، مگر انہیں میڈیا سے ہر حال میں دور اور لوپروفائل رہتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔
خواتین مسافروں کی حفاظت کے حوالے سے بھی ماہرین کو پلان بنانا چاہیے۔ ایسی منصوبہ بندی ہو کہ مستقبل میں ایسا افسوسناک واقعہ نہ ہوسکے۔ شہریوں کے لئے لائسنس والے ہتھیار کی فراہمی آسان بنائی جائے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس پر بھی بحث کریں۔ ناجائز اسلحہ عام ہے، مگر شہریوں کے پاس اپنے دفاع کے لئے پستول تک موجود نہیں۔ مغربی دنیا میں خواتین کے لئے امونیا سپرے اور مرچوں والے سپرے عام دستیاب ہیں۔ ایسی کسی خوفناک صورتحال میں خواتین انہیں استعمال کر کے کسی حد تک اپنے بچنے کے اسباب پیدا کر سکتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسا ہونا چاہیے۔ خواتین کے لئے سیلف ڈیفنس ٹریننگ پروگرام شروع ہونے چاہئیں۔ گرلز ہائی سکول، گرلز کالجز کی سطح پر یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ حکومت اگر اچھی شہرت والی این جی اوز کو ساتھ لے کر چلے تو یہ کام شروع ہوسکتا ہے۔ ماہرین کی مشاورت سے بچوں، بچیوں اور مڈل، ہائی سکول کی سطح پر نصاب میں ایسے ابواب شامل کئے جا سکتے ہیں، جن میں سکھایا جائے کہ کسی ناخوشگوار صورتحال میں اپنا دفاع کس طرح کیا جائے؟ یہ کام میڈیا کو بھی کرنا چاہیے۔ ہم اخبار والے اپنے سنڈے میگزین وغیرہ میں ایسے آرٹیکل دیتے رہتے ہیں، اگر چینلز ایسا کریں تو لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو نفع پہنچ سکتا ہے۔
سانحہ لاہور پاکستانی قوم کی یاداشت پر ایک بھیانک دھبہ ہے، نجانے کب تک اس کے منفی اثرات رہیں گے۔ اللہ متاثرہ خاتون کے لئے آسانی پیدا کرے، ظالم ملزموں کو کیفر کردار پہنچانے سے انہیں ریلیف ملے گا۔ ہمیں اس سانحہ سے وہ سبق سیکھنے چاہئیں جن سے مستقبل میں ایسے واقعات کو ہونے سے روکا جا سکے۔ یہ وہ کام ہے جس پر اب ماہرین، تجزیہ کاروں، کالم نگاروں اور حکومتی عمائدین کو توجہ دینی چاہیے۔