کہانیوں کی طلسماتی دنیا
بعض کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جوایک بار پڑھنے کے بعد آدمی بھول نہیں سکتا۔ ان کا نشتر یوں رگ وجاں میں پیوست ہوجاتا ہے کہ نکالے نہیں نکلتا۔ ان کہانیوں کی دلکشی، کاٹ اور مرکزی خیال زہن کے نہاں خانوں میں محفوظ رہتا ہے۔ ایسی بہت سی کہانیاں ہیں۔ انہی کہانیوں میں سے ایک کہانی بہت عرصہ پہلے پڑھی۔ شدید کساد بازاری کے دنوں میں ایک منگول شہزادی کا قصہ۔ وہ اپنے محبوب خاوند شہزادہ ایوان سمیت سب کچھ کمیونسٹوں کے ہاتھوں لٹا بیٹھی، اس نے یورپ کا رخ کیا۔ اس کے پاس صرف تین بیش قیمت ہیرے بچے تھے یا پھر شہزادہ ایوان کے اقوال۔ اس کا سامنا ایک سردمہر پروفیشنل بینکر سے تھا۔ جس کے سامنے حسین عورت کے آنسو وں کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ افراط زر کی ایسی خوفناک حالت کہ ہر چند دنوں میں چیزوں کی قیمتیں کئی گنا بڑھ جائیں۔ منگول شہزادی نے ایسے سفاک حالات میں کیسی ہنرمندی کے ساتھ اپنے ہیروں اور مرحوم خاوند کے اقوال کے ساتھ کام چلایا۔ بینک والے کچھ نہ کر پائے اور جیت شہزادی کے حصے میں آئی۔ حالات کی ستم ظریفی کے باعث تنہا ہوجانے والی شہزادی نے صرف ایک قول شہزادہ ایوان کے ساتھ غلط منسوب کیا، مگر ایسا کرنا اس کی مجبوری تھی۔ ہر نرم دل قاری کی طرح ہم نے بھی شہزادی کی یہ غلطی معاف کر دی، البتہ بینکر بیرن کے مقدر پر رشک ضرور کیا۔ یہ معروف مترجم اظہر کلیم کی آخری کہانیوں میں سے ایک تھی۔ کیا عمدہ، رواں ترجمہ تھا، کسی تراشیدہ ہیرے کی مانند دمکتا ہوا، بے عیب۔
روس کا لیجنڈری ادیب چیخوف میرے پسندیدہ ادیبوں میں سے ہے۔ چیخوف کا ایک قول میں نے یونیورسٹی میں ایم اے صحافت کے طلبہ کو کالم رائٹنگ کی مختلف کلاسز پڑھاتے ہوئے کئی بارسنایا۔ چیخوف کہتا تھا، "کسی افسانے یا ڈرامے میں اگر دیوار پر لگی بندوق دکھائی گئی تو ڈرامے میں اسے چل جانا چاہیے۔"یہ بہت عمدہ سبق ہے کہ تحریر میں کبھی غیر متعلق، غیر ضروری چیز کا حوالہ نہ دیا جائے۔ اگر کوئی خاص لفظ استعمال ہوتواس کا کوئی سبب ہونا چاہیے۔ چیخوف کے افسانے کرافٹ کا بہترین نمونہ ہیں۔ سید قاسم محمود نے ایک بار غلام عباس کے بارے میں کہا تھا، " ان کے افسانے اتنے مکمل ہوتے ہیں کہ ایڈٹ نہیں ہوسکتے، چیخوف کی طرح۔ ایک پیرا بھی نکالنا پڑے تو افسانے میں جھول نظر آتا ہے۔" ویسے سید قاسم محمود کے اپنے افسانے بھی ایسے تھے۔ کسی نویں نکور چارپائی کی طرح کسے کسائے، بے عیب۔ ان کا یہ پہلو زیادہ سامنے نہیں آیا، مگرجتنا کچھ لکھا وہ کمال تھا۔ مجھے یاد ہے کہ سید صاحب کراچی سے لاہور واپس آئے تو اردو ڈائجسٹ کے لئے لکھتے رہے۔ ان کے دو تین افسانے بھی شائع ہوئے۔ ایک دو میں چند چبھتے ہوئے جملے سیاست اور مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے تھے۔ میں نے الطاف حسن قریشی صاحب جیسے منجھے ہوئے استاد ایڈیٹر کو پہلی بار پریشان دیکھا، ان کے لئے ایڈٹ کرنا محال ہوگیا تھا۔ ہر جملہ دوسرے کے ساتھ یوں جڑا ہوا اور بعد میں کئی جگہوں پر اس کایوں استعمال تھا کہ الطاف صاحب چکرا گئے۔ اپنے مخصوص انداز میں وہ خفگی سے بڑبڑائے، مگر پھر جیسے تیسے کام چلا لیا۔ اسی چیخوف کا ایک دلکش افسانہ پندرہ بیس سال پہلے پڑھا۔ روس کے ایک جوڑے کی کہانی جو سفید پوشی میں زندگی گزار رہا تھا، خاوند کی تنخواہ سو روبل تھی، مگر کام چل رہا تھا۔ ایک دن پتہ چلا کہ بیوی نے ایک روبل کی لاٹری ٹکٹ خرید ی، خاوند نے اخبار سے چیک کیا توخوشی سے اچھل پڑا کہ ایک لاکھ روبل کا انعام نکل آیا۔ بیوی کو فوراً بتایا، وہ بھی نہال ہوگئی۔ یہ ظاہر ہے سو ڈیڑھ سو سال پرانی کہانی ہے، اس وقت کے ایک لاکھ روبل آج کے حساب سے کروڑوں میں بنے۔ دونوں نے دنیا گھومنے کا منصوبہ بنایا۔ کچھ دیر کے بعد جب خاوند کے اوسان بحال ہوئے اور اس نے سوچا تو اس کی عیاشی کے کسی منظر میں گھریلو بیوی فٹ نہیں ہورہی تھی۔ بے چارگی سے اس نے سوچا، بیویوں کے ساتھ بھی کبھی تفریح ہوسکتی ہے؟ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ خیال یہ تھا کہ لاٹری بیوی نے لی، زیادہ نہیں تو آدھی رقم تو اس کی بنتی ہے۔ امیر ہوجانے کے بعد اس کے رشتے داربھی ملنے آیا کریں گے، ان سب کو برداشت کرنا عذاب بن جائے گا۔ آخر کار خاوند نامدار نے لاٹری کے ٹکٹ پر لعنت بھیجی۔ سوچا ہوگا، "بھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان۔"اخبار چپکے سے پھاڑ ڈالا اور بیوی کو کہا کہ میں نے مذاق کیا تھا۔
چیخوف کی یہ کہانی بہت بار ڈھونڈی، مگر کہیں سے نہیں ملی۔ اسی طرح ٹالسٹائی کی ایک کہانی جو دنیا کی بہت زبانوں میں ترجمہ ہوئی، وہ زمین حاصل کرنے کے ایسے خواہش مند کا قصہ ہے، جسے مقامی سردار نے کہا کہ ایک دن میں جتنی زمین گھیر لو گے، وہ تمہاری ہوگی۔ وہ صبح سے شامل تک بھاگتا رہا، لالچ کے مارے اتنا وسیع چکر لگایا کہ شام کو واپس پہنچتے ہی مر گیا۔ وہی دو گز زمین اس کا مقدر بنی، جو ہر ایک کو ملتی ہے۔ یہ کہانی ٹالسٹائی نے اپنے کلاسیکل انداز میں لکھی۔
یہ اور ایسی بہت سی کہانیاں میں نے سب رنگ ڈائجسٹ میں پڑھیں۔ سب رنگ کا ہم لوگ یوں ہی تذکرہ نہیں کرتے، اس نے ہماری زندگیوں کو مسرت، انبساط اور سرشاری کے ان گنت لمحے عطا کئے۔ نہایت خوبصورت، دلکش، پراثر، تیکھی، نوکیلی، کٹیلی، اداس، چلبلی، شوخ کہانیاں ہمیں پڑھائیں۔ سب رنگ کوئی جریدہ یا ڈائجسٹ نہیں تھا۔ یہ ایک جنون کا قصہ ہے۔ شکیل عادل زادہ نے بہت بار اپنے ذاتی صفحے میں لکھا کہ سب رنگ کوئی ادارہ نہیں، فرد ہے۔ یہ کاروبار نہیں، عشق ہے، جنون بلاخیز ہے۔ شکیل بھائی نے سچ کہاتھا۔ انہوں نے سب رنگ کو سچے عشق کی طرح پروان چڑھایا، اس کی حفاظت کی، اس کے رنگ کبھی پھیکے نہیں پڑنے دئیے۔ آج سب رنگ بند ہوئے برسوں بیت گئے، اس کا بہترین دور گزرے بھی دو عشرے ہونے کو ہیں۔ شکیل عادل زادہ کا سحر ہم جیسے قارئین کے دلوں میں پہلے جیسا ہے۔ گزرتا وقت اس کے فسوں کو تیز ہی کر رہا ہے۔ رئوف کلاسرا، ڈاکٹر شاہد صدیقی یا دوسرے لکھنے والے بار بار اس کا تذکرہ کرتے ہیں تو اسے ان سب کی مجبوری سمجھنا چاہیے۔ سب رنگ کے سحر سے آپ کبھی آزاد نہیں ہوسکتے۔ ہونا بھی نہیں چاہتے، یہ سرشاری کی ایسی کیفیت ہے جسے صرف سب رنگ کے قاری ہی سمجھ سکتے ہیں۔
عشق کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ اس کے شعلے کہیں بھی، کسی بھی جگہ پر بھڑ ک سکتے ہیں۔ کشتگان سب رنگ تو بہت ہیں، حسن رضا گوندل بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے عشق نبھانے کا عزم باندھا اور اسے یوں نبھایا کہ دل سے واہ واہ کی صدا نکلتی ہے۔ فیس بک پر گوندل صاحب نے سب رنگ کاصفحہ بنایا، اس کی مختلف کہانیوں کو پی ڈی ایف کی شکل میں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ برسوں سے وہ اپنی روایت نبھا رہے ہیں۔ اس دوران وہ کوشاں رہے کہ سب رنگ کی منتخب کہانیوں کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے۔ یہ بڑا پراجیکٹ تھا، اس لحاظ سے بہت اہم کہ سب رنگ کے پرانے شمارے اب کہیں سے نہیں ملتے۔ جن کے پاس ہیں وہ کسی کو پڑھنے نہیں دے سکتے کہ شائد واپس ہی نہ آئے۔ حسن رضا گوندل نے نجانے کیسے شکیل عادل زادہ کو منایا؟ ایک پرفیکشنسٹ سے اس کی متاع حیات سے متعلق کچھ منوانا کاردارد ہے۔ حسن رضا گوندل نے یہ کر دکھایا۔ وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے فیس بک پر سب رنگ کے مداحین سے ان کی پسندیدہ کہانیوں کے بارے میں استفسار کیا، کئی سروے کئے اور یوں سب رنگ کہانیوں کی کتابی شکل میں سیریز کی پہلی کتاب "سب رنگ کہانیاں (سمندر پار کے شاہکار افسانوں کے تراجم) شائع ہوئی۔ اس میں وہ تینوں کہانیاں ہیں، جن کا کالم کی ابتدا میں ذکر کیا۔ ان کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ سمر سٹ ماہم، اوہنری اوربعض ایسے نام جو زیادہ معروف نہیں، مگر ان کی کہانیاں حیران کن ہیں۔
سب رنگ کہانیاں شائع ہونے میں جہلم بک کارنر کے گگن شاہد، امر شاہد کا بھی بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے صبر تحمل کے ساتھ اس پراجیکٹ کا انتظار کیا اور پھر نہایت حسین کتاب چھاپ کر اپنی محبت کا ثبوت دیا۔ پہلی کتاب میں سمندر پار کی کہانیاں شامل ہیں۔ سب رنگ کے تراجم بہت مشہور تھے، ان پر مشتمل مزید کتابیں بھی آئیں گی۔ یہ دس بارہ کتابوں کی سیریز کامنصوبہ ہے۔ اللہ کرے جلد مکمل ہو۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ سب رنگ پڑھنے سے محروم رہے، اب وہ ان کتابوں کے ذریعے اس طلسم حیرت افزا سے واقف ہوسکتے ہیں، شکیل عادل زادہ کے نگار خانے کی سیر کر سکتے ہیں۔ سب رنگ کا تذکرہ آئے اور بازی گر کی تکمیل کا ذکر نہ آئے تو زیادتی ہوگی۔ شکیل عادل زادہ بازی گر کی آخری قسطوں پر کام کر رہے ہیں، بازی گر جیسی کہانی کو سمیٹنا کون سا آسان کام ہے؟ بازی گر کہانی نہیں سمندر ہے، رنگوں کا انوکھاطلسم کدہ ہے۔ شکیل بھائی اس پر کام کر رہے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو جلد مکمل ہوجائے گا۔ یہ مکمل ہو تو پھر امر بیل کی آخری قسط کا سوال بھی کیا جائے؟ امر بیل پر کبھی الگ سے بات کریں گے، بازی گر کے طلسم نے اسے اوجھل کر دیا، مگر پڑھنے والے اسے بھی نہیں بھلا سکتے۔