داستان سرائے کے مکین
یہ کوئی سولہ سترہ برس پہلے کی بات ہے، لاہور کے ایک اخبار میں میگزین انچارج کے طور پر کام کر رہا تھا۔ نیا اخبار تھا، اپنے آپ کو منوانے کا عزم ہمیں دن رات کام کرنے پر مجبور کرتا۔ ایسا کئی بار ہوا کہ دن کوگیارہ بارہ بجے دفتر گئے اور پھر وہیں کام میں رات بیت گئی۔ صبح سات آٹھ بجے جب لوگ دفاتر آرہے ہوتے، تب میں اپنے دوست اور میگزین کے ساتھی غلام محی الدین کے ساتھ چند گھنٹے کمر ٹکانے کے لئے گھر واپس جا رہے ہوتے۔ انہی دنوں ہمارے ملتان بیورو کی خاتون صحافی نے اشفاق احمد کا انٹرویو بھیجا۔ ان کا لاہور آنا ہواتھا، اس دوران اشفاق صاحب سے ملاقات کر لی، اس کی روداد لکھ بھیجی۔ میں نے دیکھا تو تشنہ لگی۔ اشفا ق احمد ایسی ہمہ جہت شخصیت تھی کہ ان سے ایک نشست میں انٹرویو کرنا ممکن ہی نہیں تھا، دو تین نشستوں کے بعدکچھ حد تک احاطہ ممکن تھا۔ میں نے سوچا کسی روز اشفاق صاحب سے وقت لے کر چکر لگایا جائے اور انٹرویو میں جو خلا رہ گئے، انہیں پر کر لیا جائے۔ دوتین دن بعد ہمارے سینئر ایڈیٹر صاحب نے کمرے میں بلایااوراسی انٹرویو کے بارے میں پوچھا۔ میں نے بتایا، یہ مکمل نہیں، اس پر مزید کام کی ضرورت ہے تاکہ بھرپور انٹرویو شائع ہوسکے۔ وہ سینئر ایڈیٹر صاحب اب دنیا میں نہیں، اللہ ان کی مغفرت کرے۔ صاحب مطالعہ آدمی تھے، مگرمولویوں اور مذہبی لوگوں سے باقاعدہ چڑتے تھے۔ خاصی ناگواری سے انہوں نے کہا، "کوئی ضرورت نہیں اس جعلی صوفی کا بھرپور انٹرویو دینے کی، جو کچھ وہ لڑکی کر لائی ہے، بس وہی چھاپ کر جان چھڑائو۔"حیرت سے میں انہیں دیکھتا رہ گیا۔ عرض کیا کہ چلیں آپ انہیں جعلی صوفی سمجھتے ہیں تو انہی خطوط پر ہی سہی، کچھ سوال تو ان سے پوچھنے چاہئیں کہ اشفاق صاحب اس الزام کا کیا جواب دیتے ہیں۔ اجازت نہ ملی اور ہمیں وہ انٹرویو ویسے ہی چھاپنا پڑا۔
آئندہ برسوں میں ریڈیو پاکستان کے بعض پرانے پروڈیوسروں، لاہور کے چند ایک ادیبوں سے بھی یہی جعلی صوفی والی بات سنی۔ حیرت ہوتی کہ ایسا کیوں کہا جاتا ہے؟ میرا عملی تجربہ برعکس تھا۔ رفتہ رفتہ پتہ چلا کہ یہ رائے رکھنے والوں میں تین چار باتیں مشترک ہیں۔ یہ تمام لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ اپنی گفتگو میں بڑے بڑے دعوے کرنے کے باوجود عملی طور پر ان کی ریڈیو، ادب یا صحافت میں شناخت نہیں بن سکی۔ ان میں سے اکثر اشفاق صاحب کے معاصر تھے یا ان کا زمانہ پایا، مگراشفاق صاحب جیسی مقبولیت، شہرت اور دلداری سے محروم رہے۔ ایک اور مشترک نکتہ پیپلزپارٹی اور بھٹو صاحب سے تعلق تھا، پی پی پی سے تعلق رکھنے والے کبھی بھٹو کی پھانسی کے صدمے سے نہیں نکل سکے، جنرل ضیا، اس کے دور، حتیٰ کہ اس کے دور میں نامور ہونے والوں کو وہ کبھی رعایت نہیں دے سکتے۔ اشفاق صاحب پر تنقید کرنے والوں، ان کا مذاق اڑانے والے بیشتر لوگوں کی چوتھی مشترکہ قدر مذہب بیزاری اور شریعت کے تابع تصوف سے چڑ ہے۔ ایسے لوگوں کو چرس کے سوٹے لگانے والے فقیروں، اناپ شناپ بکنے والے ملنگوں اور ملحدیہ شاعری کرنے والوں سے کوئی مسئلہ نہیں۔ جو صوفی صاف ستھرا لباس پہنے، نماز کی تلقین کرے، شریعت کی پابندی کا درس دے، مولوی کو گالی نہ دے، یہ طبقہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔
ہم نے تب سے دیکھا ہے کہ نہ صرف اشفاق احمد بلکہ ان کے گھر داستان سرائے کے مکینوں کو انہی جرائم کی سزا بھگتنا پڑی ہے۔ بانو قدسیہ اشفاق احمد کی اہلیہ تھیں، ان کا یہ جرم ایک حلقے کے لئے کسی گناہ سے کم نہیں۔ خوش قسمتی سے اشفا ق صاحب کی اولاد نے ادب یا صحافت کی راہ نہیں اپنائی، ورنہ انہیں بھی اسی ناکردہ جرم کا سامنا کرنا پڑتا۔ اشفاق صاحب سے میری دو چار ملاقاتیں ہی ہوئیں۔ اشفاق صاحب کا ٹی وی پروگرام زاویہ مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا تھا۔ ہم نے یہی دیکھا کہ اپنے وقت کا اتنا بڑا اور ممتاز ادیب تمام تر شہرت، مقبولیت اورخوشحالی کے باوجود نہایت محبت، سادگی، انکسار اور خوش خلقی سے دور دراز کے شہرسے آنے والے گمنام طالب علموں سے ملتا۔ ہم نے درخواست کی کہ ایسا وقت دیں جس میں دوسرے نہ ہوں، وہ ہر بار اپنی دوپہر کی نیند قربان کرتے اور تین چار گھنٹوں سے زیادہ وقت دیتے۔
ہم طالب علموں کو خوشگوار حیرت ہوتی جب ہربار اشیائے خورونوش سے بھری ٹرالی آتی اور اشفاق صاحب اصرار کر کے کیک اور پھل وغیرہ کھانے کا اصرار کرتے۔ ان کی باتوں میں ایک سحر تھا، مگر کبھی ایک جملہ بھی اپنی تعریف میں نہیں کہا۔ روحانیت اور بابوں پر بات ہوتی تو صاف کہتے کہ میں بابا نہیں، اپنا بابا خود ڈھونڈو۔ ایک بار کہنے لگے کہ مجھے زندگی میں کوئی روحانی تجربہ یا مشاہدہ نہیں ہوا، مگر میرے کئی ایسے دیانت دار اور قابل اعتماد دوست ہیں جو ایسے تجربات کی روداد سناتے ہیں تو میں ان کی بات پر یقین رکھتا ہوں۔ ایک ملاقات کے اختتام پر میرے دوست نے کہا کہ ہم آپ کی طرح بننا چاہتے ہیں، ترنت بولے کہ نہیں تم لوگ اپنی زندگی خود بنائو، اپنی طرح گزارو۔ ایک طنزیہ جملہ میری زبان سے پھسل گیا، کہا کہ ہم آپ کی طرح بننا چاہتے ہیں کہ جھگی والوں کے قصیدے اور خود ایک شاندار کوٹھی میں مقیم ہیں جس کے دروازے پر گارڈ تعینات ہے۔ اشفاق صاحب مسکرائے اور نرمی سے بولے، "بھائی میرے بھی تضادات ہیں، ان سے کبھی انکار نہیں کیا، اس لئے تو کہا کہ مجھے رول ماڈل نہ بنائو، اپنے ماڈل خود بنو۔"
ہم نے اشفاق احمد کوصوفی پایا، ہر ایک کے لئے دستیاب، ہر ایک کو میسر، ہمیشہ خوش خلقی، سادگی اور محبت سے ملنا، محبت بانٹنا۔ لوگوں کو رب کی طرف متوجہ کرنا، مہربان رحیم رب سے محبت کے گر سکھانا۔ زاویہ کا کوئی بھی پروگرام دیکھ لیں یا وہ گفتگو پڑھ لیں، زندگی کا کوئی نہ کوئی پہلو سنور جاتا ہے۔ صوفی اور کیا کرتا ہے؟ یہی ان کی باوقار، محترم اہلیہ بانو قدسیہ کرتی رہیں۔ بانو آپا بھی شفقت، محبت کا پیکر تھیں، ہمیشہ ہر ایک میں محبت بانٹی۔ زندگی کے بارے میں ان کی اپنی سوچ، اپنے تصورات تھے، انہیں کبھی نہیں چھپایا، ہمیشہ مضبوطی سے بیان کیا۔ بانو آپا ایک مضبوط خاتون تھیں، انہوں نے سب کو دکھایا کہ مضبوط، باوقار اور ممتاز ہونے کے لئے خود ترسی، ہمہ وقت کا سیاپا، مظلومیت کے رونے رونا اور مردوں پر طعن کی ضرورت نہیں۔ ایک عورت فیمنزم کا نعرہ لگائے بغیر بھی نمایاں ہوسکتی ہے۔ بانو آپا نے عملی طور پر دکھایا کہ اپنا گھر اجاڑے بغیربھی زندگی میں کامیاب ہوا جا سکتا ہے۔ اشفاق صاحب اچھے خاوندہوں گے، مگر وصف بابو آپامیں بھی کم نہیں تھے۔
مجھے اس بات پر ہمیشہ ہنسی آتی ہے کہ پیپلزپارٹی کے جیالے جنرل ضیا کے دور میں ٹی وی پر ڈرامے لکھنے والوں کو اتنا ناپسند کیوں کرتے ہیں؟ کیا ان گیارہ برسوں میں یہ تخلیق کار "نیپال "چلے جاتے؟ (نیپال چلے جاناجدید سوشل میڈیائی اصطلاح ہے، جسے سمجھ نہ آئے، وہ کسی فیس بک استعمال کرنے والے سے پوچھ لے۔ )سوال یہ ہے کہ ان لوگوں نے ریڈیو یاپی ٹی وی پر جو ڈرامے لکھے، کیا وہ ادبی اعتبار سے کم تر تھے؟ ہرگز نہیں، کون کم بخت ہے جو اس زمانے میں لکھے گئے اشفاق صاحب اور بانو آپا کے ڈراموں پر تنقید کر سکتا ہے؟ کیا شاندار ڈرامے انہوں نے لکھے۔ ابھی پچھلے دنوں " فہمیدہ کی کہانی، استانی راحت کی زبانی" کا خیال آیا، مسحور کردینے والا لانگ پلے تھا۔ اشفاق احمد، بانو قدسیہ، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر انورسجاد، منوبھائی، مستنصر حسین تارڑ اور کئی دوسرے لکھنے والوں نے لاہور سٹیشن سے سدابہار ڈرامے لکھے۔ مزے کی بات ہے کہ اشفاق احمد اور بانو آپا پر طعن کرنے والے یہ سب لوگ منو بھائی کے حوالے سے خاموش ہوجاتے ہیں، جن کے کئی بہت مشہور اور مقبول ڈرامہ سیریل اور لانگ پلے اس زمانے میں چلے۔ اس لئے کہ منو بھائی آخر تک بھٹو کے جیالے سمجھے جاتے رہے۔ اشفاق صاحب کا ریڈیائی پروگرام "تلقین شاہ" کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے، کئی جلدیں ہیں۔ سننے والے تو خیر آج تک اس کے سحر سے باہر نہیں آئے، پڑھنے والوں پر بھی کچھ کم اثر نہیں ہوتا۔
اگلے روز معروف مصنفہ نیلم احمد بشیر کاآپا بانوقدسیہ کے حوالے سے ایک مضمون پڑھا۔ نیلم صاحبہ نے عنوان ہی طنزیہ رکھا، بانو آپا کے ناول راجہ گدھ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، ذاتی شکوے شکایات بھی چلتے رہے۔ اس مضمون پر بات کرنا تھی، کالم کی سپیس ختم ہوئی۔ آئندہ نشست میں بات ہوگی۔