کورونا بحران کے چند سبق
کورونا کی تباہ کاری کم ہورہی ہے، دنیا کے بیشتر ممالک میں اس کے اثرات اب بہت کم رہ گئے ہیں، امریکہ، برازیل کے علاوہ چند ایک ممالک ہی ایسے ہیں جہاں ابھی تک روزانہ سینکڑوں افراد ہلاک ہور ہے ہیں، بدقسمتی سے بھارت بھی اس صف میں شامل ہوچکا ہے۔ برازیل ان بدقسمت ملکوں میں سے ہے، جہاں نالائق حکمران اور عاقب نااندیش حکومت کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان ہوا۔ صدر ٹرمپ کی طرح برازیلی صدر نے غیر سنجیدہ رویہ کی وجہ سے اپنی قوم کو تباہی سے دوچار کیا۔ کورونا کا پہلا سبق یہی ہے کہ قوموں کو بحران کے دنوں میں اہل اور مستعد حکمران ہی بچا سکتا ہے۔
پاکستان میں حکومتیں بحران کے دنوں میں اپنی مستعدی اور ذمہ داری کی کچھ زیادہ تابناک تاریخ نہیں رکھتیں۔ اس بار بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی ملی جلی رہی۔ وبا کے مختلف فیز تھے، ان میں سے کسی میں بہتر کہیں اوسط۔ دیانت داری سے جائزہ لیں تو غیر معمولی کارکردگی کہیں نظر نہیں آئی۔ بطور قوم ہمارے کئی طبقات کی اخلاقی کمزوری نمایاں ہوئی۔ ہمارا تاجر طبقہ بدقسمتی سے دنیا کے چند بدترین طبقات میں سے ایک ہے۔ ان کے سینے میں دل نہیں پتھر ہے۔ اخلاقی ذمہ داری چھو کر نہیں گزری اور موت کے دنوں میں بھی بے پناہ منافع کماناان کے نزدیک جائز ہے۔ یہ طبقہ صرف ڈنڈے کی زبان سمجھتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ ہر وقت ڈنڈا کیوں استعمال کیا جائے؟ کبھی تو یہ تاجر طبقہ خود بھی لحاظ کر لے۔ کورونا کے دنوں میں کیسی بے رحمی اور سفاکی سے ماسک، سینی ٹائزرز مہنگے کئے گئے۔ ہر وہ دوائی جو بازار میں عام مل رہی تھی، جیسے ہی خبر اڑی کہ یہ کورونا کے علاج کے لئے مفید ہے، اگلے ہی روز اس کے نرخ دس پندرہ گنا تک بڑھ گئے۔ پانچ ہزار کا ٹیکہ پچاس ساٹھ ہزار اور پھر لاکھوں میں ملنے لگا۔ مارکیٹ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے اصول پر چلتی ہے۔ جس چیز کی زیادہ ضرورت ہو، وہ مہنگی ہوجائے گی، مگر کچھ حدود بھی ہوتی ہیں۔ انسان آخر کتنا منافع کمانا چاہتا ہے؟ موت جب چاروں طرف گھوم رہی ہو، کوئی بھی گھر اس کا نشانہ بن سکتا ہو، تب تو ان تاجروں، دکانداروں کو ڈرنا چاہیے۔ کورونا کے دنوں میں ہم نے دیکھا کہ پوری بے شرمی اور بے حیائی سے ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کی گئی۔
چند ایک اچھی، استثنائی مثالیں موجود ہیں، مگر بہت بڑی اکثریت نے جو دل چاہا، وہی کیا۔ افسوس کہ انتظامیہ انہیں روکنے میں بری طرح ناکام رہی۔ پنجاب اور سندھ میں مشاہدہ کیا گیاگویا انتظامیہ وجود ہی نہیں رکھتی۔ ماسک، سینی ٹائزر، جان بچانے والی ادویات، آکسیجن سلنڈرز ہر چیز بے پناہ مہنگی ہوگئی۔ جو چیزیں باہر سے آتی ہیں، ان کا مہنگا ہونا سمجھ میں آتا ہے، مگر مقامی سطح پر تیار ہونے والے آکسیجن سلنڈر اتنے مہنگے کیوں ہوجائیں؟ کئی ماہ تک پنجاب حکومت کو ہوش نہیں آیا کہ کورونا ٹیسٹ کے نرخ کم کرائے، جیسا کہ ماضی میں شہباز شریف حکومت نے ڈینگی ٹیسٹ کے لئے کئے تھے۔ بہت دیر سے یہ نرخ کچھ کم کرانے کا اعلان ہوا، مگر اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ ہمیں اپنی قوم کی اخلاقی تربیت پر توجہ دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ انتظامیہ کو بحران ہینڈل کرنا بھی سکھانا چاہیے۔
پاکستانی عوام میں جہالت اوربے بنیاد سازشی نظریات کو قبول کرنے کی حیران کن صلاحیت موجود ہے۔ بچکانہ سی تھیوریز چلتی رہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد اس پر یقین کرتی رہی۔ کوئی یہ بات کیسے مان سکتا ہے کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹر زہر کاٹیکہ لگا کر کورونا کے مریضوں کو مار رہے ہیں؟ بہت سے لوگ یہ مانتے رہے۔ یہ ڈاکٹر ہمارے گھرانوں سے ہی ہیں، ہمارے ہی بیٹے، بھانجے، بھتیجے، آخر کوئی کسی بے گناہ مریض کو کیوں ختم کرے گا؟ کورونا نے دنیا کے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا، بہت سے ممالک میں ہزاروں، لاکھوں لوگ اس سے ہلاک ہوئے، پاکستان میں چھ ہزار لوگ کورونا کا نشانہ بن گئے۔ بے شمار لوگ ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ کورونا ایک ڈرامہ ہے، حکومت کا باہر سے فنڈ لینے کا بہانہ۔ سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ آخر ہم پاکستانی بطور قوم سازشی تھیوریز کو کیوں مان لیتے ہیں؟ حکومتوں اور سرکاری اداروں پر عدم اعتماد ہے یا ہمارے لاشعور میں خوف نقش ہوچکا ہے؟
طب سے وابستہ افراد کی اچھی کارکردگی کو سراہنا چاہیے۔ انتہائی خطرناک حالات اور مکمل حفاظتی لباس سے محروم ڈاکٹربرادری اور دیگر طبی عملہ نے شاندار طریقے سے کام کیا۔ شاباش۔ الخدمت، اخوت اور ان جیسی سماجی تنظیموں نے بھی کمال کر دکھایا۔ الخدمت نے تو بلا مبالغہ لاکھوں گھرانوں میں راشن بانٹا۔ انفرادی طور پر بھی گلی محلے کی سطح پر لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے، اسی وجہ سے لاک ڈائون میں بھی غریب بے روزگار لوگوں کے بھوکے مرنے کی نوبت نہیں آئی۔ حکومت کی جانب سے سوا کروڑ کے لگ بھگ لوگوں کو ریلیف پیکیج دینا قابل تحسین ہے۔ اتنی بڑی تعدادتک احساس پروگرام کے تحت پیسے پہنچانا آسان نہیں تھا۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم نے جو اچھا کام کیا، اس کا کریڈٹ انہیں ملنا چاہیے۔ کورونا کے حوالے سے شعور پیدا کرنے میں میڈیا کا کردار بھی مثبت رہا۔
ایک اچھی بات یہ سامنے آئی کہ ہمارے خطے کے لوگوں کی قوت مدافعت اہل مغرب سے کہیں زیادہ ہے۔ کورونا سے پہلے اگر کوئی یہ کہتا تو اس کاتمسخر اڑایا جاتا۔ لوگ کہتے کہ مغرب میں چیزیں خالص ملتی ہیں، لائف سٹائل بہتر ہے، وہ باقاعدگی سے اپنا طبی معائنہ کراتے ہیں، ورزش کا رجحان زیادہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کورونا سے پتہ چلا کہ اہل مشرق خاص کر جنوبی ایشیائی ممالک کے ہم جیسے لوگوں کی قوت مدافعت مغرب کے عوام سے بہت بہتر ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ہم لوگ حفظان صحت کا خیال نہیں رکھتے، اشیا خالص نہیں، پانی آلودہ ہے، فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے، اس لئے ہمارے ہاں لوگ زیادہ ڈھیٹ اور سخت جان ہیں۔ ایسا نہیں۔ ان چیزوں سے بھی ایک خاص قسم کی سخت جانی پیدا ہوتی ہوگی، مگر ہماری قوت مدافعت کی وجہ مختلف ہے۔ برازیل کے صدر نے بھی یہی کہا تھا کہ برازیلین عوام گٹر کا پانی پی لے تو وہ جراثیم بھی مر جائیں، اس کا اشارہ بھی ایسے ہی دلائل کی طرف تھا، اسی چکر میں اس نے ایک لاکھ آدمی کورونا سے مروا دئیے۔
قوت مدافعت گٹر کا پانی پینے سے نہیں بڑھتی، آلودہ پانی تو ہمارے ہاں ٹائفائیڈ، ہیپا ٹائٹس اور معدہ کی مختلف بیماریوں کا باعث ہے۔ اگر ہمارے ہاں چیزیں خالص ملیں، پانی صاف ہو، فضائی آلودگی کم ہوجائے تو ہماری قوت مدافعت اور صحت کئی گنا بہتر ہوجائے۔ ہماری قوت مدافعت بہتر ہونے کی بڑی وجہ ہمارے لوک دانش اور صدیوں سے بزرگوں کے تجربات کا نچوڑ اگلی نسلوں میں منتقل ہونا ہے۔ کئی ایسی نہایت مفید چیزیں ہمارے روزمرہ کے کھانوں میں شامل ہیں جو سانس اورجسم کی مختلف بیماریوں کے لئے بہت مفید ہیں۔ ہمارے ہر کھانے میں ہلدی، ادرک، لہسن، گرم مسالہ جات پڑتے ہیں، لونگ، جائفل، خطائی بادیان، بڑی الائچی، چھوٹی الائچی، دارچینی، پودینہ، اجوائن وغیرہ عام استعمال ہوتا ہے۔ شائد ہی کوئی گھر ہو جہاں پودینہ، دھنیہ، سبزمرچ کی چٹنی نہ بنتی ہو، پیٹ خراب ہونے پر بچوں اور بڑوں کو سونف، بڑی الائچی وغیرہ کا قہوہ نہ پلایا جاتا ہو۔ یہ سب چیزیں وہ ہیں جو قدرتی طریقے سے قوت مدافعت بڑھاتی ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے لاکھوں لوگوں کو کورونا ہو کر گزر گیا، مگر انہیں پتہ ہی نہیں چلا۔
کورونا کا ایک سبق یہ ہے کہ ہمیں قدرتی چیزوں کی طرف زیادہ جانا چاہیے۔ باورچی خانہ میں موجود ان عام سی چیزوں کو اہمیت دیں۔ ادرک، دارچینی، لونگ، سونف، پودینہ وغیرہ کے قہوہ جات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ جدیدسائنسی تحقیقات سے ضرور فائدہ اٹھائیں، مگر ہمیں نیچرو پیتھی کی طرف لوٹنا چاہیے، قدرتی اشیا سے علاج۔ صدیوں سے نسل در نسل یہ ورثہ منتقل ہورہا ہے، اس کی قدر کریں۔
ایک بڑا فیکٹر لوگوں کا ایمان اور اپنے خالق پر بھروسہ بھی ہے۔ سنت رسول ﷺیہی ہے کہ طبیب سے علاج کرائو اور پھر رب سے دعا کرو، نتیجہ اس پر چھوڑ دو۔ کورونا کی تباہ کاری کی ایک بڑی وجہ نفسیاتی شکست خوردگی ہے۔ مشاہدہ کیا کہ لوگ کورونا کا شکار ہونے کے بعد علاج اور اس سے کچھ زیادہ روحانی مضبوطی کے باعث بیماری سے لڑ پائے۔ نماز، مختلف دعائیں، قرآن پاک کی تلاوت، اپنے رب پر یقین سب سے بڑی قوت ہے۔ مریض اگر لڑنے کا جذبہ نہ رکھتا ہو، اسے لگے کہ کوئی بچانے والا نہیں، تب شکست یقینی ہے۔
یہ درست کہ صاحبِ ایمان بھی موت کا نشانہ بن جاتے ہیں، وبائوں کی ہلاکت آفرینی ہر ایک پر اثرانداز ہوتی ہے۔ دوا کے بغیر صرف دعا پر بھروسہ سنت طریقہ نہیں۔ مومن موت سے نہیں ڈرتا، وہ اپنے خالق حقیقی کے بلاوے سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنی طرف سے وبا، بیماری سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، اپنی سی تدبیرکے بعد اگر وقت آگیا ہے تو خوشدلی سے اس فیصلے کو قبول کرتا ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ رب کریم کی رحمت اس کے ساتھ رہے گی۔ کورونا نے بہت سے خوش نصیبوں کو اپنے رب سے زیادہ قریب کر دیا۔ ان پر دنیا کی حقیقت واضح ہوگئی اورمال کی حیثیت بھی۔ یہ خوش بختی ہے۔ کہتے ہیں کہ مشکل اگر اللہ کے قریب کر دے تو وہ آزمائش، اگرخدانخواستہ دور لے جائے تو وہ سزا تھی۔ ہرایک اپنا جائزہ لے کہ اس کا شمار کس طبقے میں ہے؟