انقلابی رہنماء
ہم ایک ایسے ہیجان خیز دور سے لرزتے ہوئے گزر رہے ہیں جو کسی ان دیکھے خطرے سے بھی زیادہ خطرناک دکھائی دیتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان پر جب بھی ضرب لگی اس کے سیاسی لیڈروں کی جانب سے ہی لگی، نہ جانے ان کی ضربیں کب ختم ہو ں گی، ان کا غصہ اس پر سے کب اترے گا، یہ خود ان کو بھی معلوم نہیں، بس یہ اس ملک کی سرکوبی پر لگے ہوئے ہیں اور ہمارے جیسے کچھ لوگ یہ عبرت انگیز تماشہ دیکھنے پر مجبور ہیں۔ حق پرستوں کی طرح باطل پرست بھی ہر دور میں موجودرہے ہیں اور اسی لیے حق و باطل کی جنگ جاری ہے۔
آج کا باطل امریکا جس قدر طاقت ور ہے اس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی چنانچہ وہ اسی گھمنڈ میں پوری دنیا کو للکارتا رہتا ہے۔ انسانیت کو ایسے ہی حالات میں حق پرست رہنما ملے جنھوں نے دانش و حکمت اور قوت بازو سے باطل کو للکارا ہے، اس وقت ہمارے سامنے اس باطل کو چیلنج نہیں کیا جارہا لیکن ہم نے تاریخ میں دیکھا ہے کہ کئی ایسے باطل اٹھے لیکن پھر تاریخ کی کتابوں میں گم ہو گئے۔ تاریخ نے انسان کو جو تجربہ عقل اور سبق دیا ہے، اگر اس کو درست مان لیا جائے پھر آج کے انسان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ ہم زور زبردستی برداشت کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔
حق کے لیے بھی آواز بلند نہیں کرتے حالانکہ حق بات کے لیے جرات اظہار اور باطل سے جرات انکار کسی زندہ انسان کی علامت ہے اور کسی انقلابی کا امتیازی وصف اور انقلاب کا سلسلہ جس کی قیادت ماضی میں پیغمبر کرتے رہے اور ہر دور کے دوسرے بڑے انسان، آج تک جاری ہے۔ جب تک برائی موجود رہے گی جب تک انسان پر ظلم باقی رہے گا، اس کے خلاف انقلاب بھی جاری رہے گا اور کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی انسان اس بھاری بوجھ کو اٹھانے کی کوشش کرتا رہے گا۔ تاریخ میں اول درجے کے جن انقلابیوں کا ذکر ہم پڑھتے ہیں، انھوں نے اپنی بے مثال زندگیاں اس راہ میں قربان کر دیں اور اپنی ذات میں ایک مکمل انقلابی کی مثال قائم کر دی۔
پیغمبروں کے سروں پر آرے چلے، سقراط نے زہر کا پیالہ پی لیا اور ماؤزے تنگ نے نہایت ہی غربت کی زندگی بسر کی اور انقلاب کی جنگ میں اپنا بیٹا تک خوشی خوشی قربان کر دیا۔ جدید ترین انقلابی کی ایک تصویر ہمیں محمد علی جناح میں دکھائی دیتی ہے جس نے جرات اظہار سے کبھی منہ نہ موڑا، ایک صاف ستھری بے داغ زندگی بسر کی اور اپنے انقلابی خیالات کو حقیقت بنانے کے لیے ہی جنگ کامیابی کے ساتھ لڑی۔ جناح کے عہد کی جنگ تیر وتفنگ کی نہیں سیاست کی جنگ تھی جو اس بیمار نے حیران کن طاقت کے ساتھ لڑی اور جیتی۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے سہارے انسانیت ابھی زندہ ہے اور انسانی زندگی آگے چل رہی ہے۔
چین کے لیڈرماؤزے تنگ نے ایک بار کہا تھا کہ انقلابی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے خیالات اور نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں اور پھر ان کے لیے مسلح جدوجہد بھی کرتے ہیں جیسے پیغمبر اسلام محمدﷺ دوسرے وہ جو ان خیالات کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں اور اس اظہار کے لیے کسی تکلیف اور سختی کو قبول کرنے پر آمادہ رہتے ہیں، تیسرے وہ جو صرف دل میں ایسے خیالات رکھتے ہیں۔
یہ تینوں درجہ بدرجہ انقلابی ہیں۔ اس پر ہمیں حضور پاک ﷺ کی وہ مشہور حدیث یاد آجاتی ہے کہ برائی کو دیکھو تو اسے بزور بازو روکنے کی کوشش کرو اور یہ کامل ایمان کی نشانی ہے، اگر ایسا نہ کر سکو تو برائی کے خلاف زبانی احتجاج کرو اور اسے زبان سے روکو، یہ دوسرے درجے کا ایمان ہے اور اگر برائی کو نہ زبرستی روک سکو اور نہ زبان سے تواس کو دل سے برا جانو اور یہ صرف دل سے برا جاننا کمزور ترین ایمان کی نشانی ہے۔ مسلمانوں کے رہبرﷺ نے جو بات چودہ سو سال پہلے فرمائی تھی اس کو جدید الفاظ میں عہد حاضر کے ایک انقلابی نے بیان کیا اور ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا کہ مسلمانوں کا رہبر ایک مکمل انقلابی تھا۔
لوگ خاموش اس لیے رہتے ہیں کہ انھیں اس سے کسی مالی نقصان اندیشہ ہوتا ہے اور وہ اپنی خاموشی سے اپنے ساکھ کو بچانا چاہتے ہیں لیکن ایک اچھے حکمران کو جرات اظہار اور جرات اختلاف دونوں میں سے کسی ایک صورت حال کا لازماً سامنا کرنا پڑتا ہے اور جس حکمران کے دل میں عوام کے لیے ہمدردی موجود ہو وہ کھل کر جرات اظہارکرتا ہے اور اگر وہ بھی سچی بات کا اظہار نہ کرے تو ان پر معاشرے کو افسوس کرنا چاہیے۔
ہمیں سیاسی لیڈر تو بہت ملے لیکن کوئی رہنماء نہیں ملا، محمد علی جناح کے بعد ہم رہنمائی کے لیے ترس گئے اور اپنے آپ کو بے رحم سیاسی لیڈروں کے حوالے کر دیا، ان سیاسی لیڈروں نے ہمارا جو حال کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے کہ آج ایک عام پاکستانی کو صحت کی بنیادی سہولت بھی میسر نہیں۔ کتابوں میں کچھ بھی درج ہو زمینی حقائق بڑے بے رحم ہوتے ہیں، ہم ان زمینی حقائق سے پہلوتی کرتے رہے اور اگر کبھی ان کاادراک ہوا بھی تو سنگین ضرورتوں کے تحت ہی ہوا۔ ہم تو اپنی ضرورتوں کے لیے پوری قوم کی متفقہ تصنیف کردہ آئین کی کتاب کو بھی ضرورتوں کے تحت بدلتے رہتے ہیں جسے آئینی ترمیم کہا جاتا ہے۔ ہماری تاریخ یہی بتاتی ہے کسی رہنماء کے انتظار میں ہم انھی سیاستدان کے حوالے رہیں گے۔
لیکن سیاستدانوں کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کڑی نگرانی میں ہیں۔ ماضی کے ایک فاضل سیاستدان یحٰی برمکی نے کہا تھا کہ بادشاہ کو راضی رکھنے کے لیے اس کے ساتھ ایک حسینہ کی طرح نازو انداز اور عشوہ گری سے پیش آؤ۔ ہمارے سیاستدانوں کو بھی اپنے اس بزرگ کی بات پر عمل کرنا پڑے گا اور جتنا ملا ہے اس پر راضی ہو کر اس میں آہستہ آہستہ اضافے کی کوشش کرنی پڑے گی۔