Friday, 18 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Smuggle Nama

Smuggle Nama

سمگل نامہ

عرصہ ہوا کہ سمگلر دلچسپی کا موضوع رہے، کوئی مووی نہ چھوڑی، کوئی ڈاکو منٹری ایسی نہ بچی، جو سمگلنگ کے حوالے سے ہو اور تاڑنے سے بچ گئی ہو، کیا کمال کمال کے سمگلر پیدا ہوئے۔

جدید سمگلنگ کی نشاۃ ثانیہ خدائے لم یزل نے جنوبی امریکہ کو ہی بخشی، ہز ہائی نیس پابلو اسکوبار آف کولمبیا جیسے معتبر سمگلر ہوں یا میکسیکو کے آنجہانی ڈرگ سمگلر مائیکل اینجلو فیلکس ہوں، کوکین کے پورے پورے جہاز امریکہ سمگل کر لیتے تھے۔

ہمارے ہاں بھی کوئی ہلکے سمگلر پیدا نہیں ہوئے، اپنے غزنی والے بابو کو ہی دیکھ لیجیے، سالم سالم بت سمگل کرکے درے کے پار لے جاتے تھے، محمود آف غزنوی کے بعد برصغیر پاک و ہند میں سمگلرز کا ایسا قحط الرجال پڑا کہ ایک بھی ڈھنگ کا سمگلر پیدا نہ ہو سکا، کہاں پورے کے پورے بتوں اور مورتیوں کو سمگل کرکے کابل لایا جاتا اور کہاں آج کا دور۔

اب تو درے سے چرس ہی سمگل ہوتی ہے، یہ وہی روٹ تھا جہاں سے کبھی غزنوی بابو بت لے جایا کرتے، کیا مکافات عمل ہے، بتوں سے افیون اور پھر چرس، خیر تینوں افادیت کے لحاظ سے ایک ہی ہیں۔

درے کی چرس کے فضائل صرف پہلے سنے تھے، پھر عین الیقین ہوا، اس سے پہلے حق الیقین کی منزل آتی اور دو عدد سوٹے لبوں سے جھپی ڈالتے احقر نے مذہب کے نشہ کو چرس پر فوقیت دی، ثقہ چرسی تو چرس کو ملنگی بوٹی کہتے ہیں، کئی مستند چرسی جب درے کی چرس کپسٹن کے سیگریٹ سے گودا نکال کر اس میں بھرتے ہیں، تو ان کے اندر کا دوستو فسکی جاگ جاتا ہے۔

ایک چرسی کا کہنا تھا کہ، چرس عاجزی پیدا کرتی ہے، اب میں اسے کیسے بتاؤں کہ اکابر نے کہیں لواطت کو جائز قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ "اس سے انسان میں عاجزی آتی ہے"۔

چرسی، لوطی اور صوفی کے پاس نہ جانے کیوں عاجزی پیدا کرنے کے سارے غیر پارلیمانی ہتھکنڈے ہی ہوتے ہیں، چرسی چرس سے، گے مفعولی سے اور صوفی گھنگرو ڈال کر بھلے شاہ کی طرح مجرا کرکے ہی عاجزی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

بات سمگلنگ کی ہو رہی تھی، آج کل بھی مہاتما بدھ کے مجسمے سمگل کیے جاتے ہیں، غزنوی بابو تو بت شکن تھے، کاش وہ حضرت امیر معاویہ کے طریق پر عمل کر لیتے، خدائے لم یزل پڑھا سنا معاف کرے، البیرونی کی کتاب الہند میں پڑھا تھا "سسلی کے مال غنیمت میں ہاتھ آنے والے بتوں کو امیر معاویہ نے ہندوستان میں مہنگے داموں فروخت کر دیا (کتاب الہند جلد 1 صفحہ 164 ناشر اردو ترقی ہند)۔

میں سیدنا امیر معاویہ کو ویسے ہی مجدد تسلیم نہیں کرتا، اندھا دھند بت شکن بننے کا کیا فائدہ جب ان کو ان کی کام کی جگہ بیج کر اچھا خاصا زر مبادلہ بیت المال میں جمع کر سکتے ہیں۔ مجسموں کا ذوق مسلمانوں میں بہت کم اُمراء میں رہا ہے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سلطنت عثمانیہ کے سلیمان القانونی کے وزیراعظم اِبراھیم پاشا بتوں اور مجسموں کے شائق تھے، پڈا پسٹ کی فتح کے بعد بت شکن بننے کے بجائے وہ مجسمے استنبول میں اپنے محل میں نصب کروائے۔

البیرونی نے تو خیر سومنات کے بت غزنی کے کچرے میں پڑے دیکھے تھے، آج غزنی کی حالت بھی دیکھ لیجیے اسی بنجرپن میں رل رہا ہے، خزانہ افغانی بھی یہاں سے لوٹ کر لے گے اور فرنگی بھی، مگر فرنگی نے اس خزانے کو کوہ نور کی طرح سر کا تاج پہنایا، کابلی حملہ آورں کی طرح عبرت کا نشان نہیں بنایا، قرآن کا سب سے پرانا مسودہ برمنگھم مینو سکرپٹ لندن میں پڑا ہے، ڈاکٹر حمید اللہ جب حدیث کا سب سے قدیم نسخہ دریافت کرتے ہیں تو دیوبند یا بریلی سے نہیں بلکہ فرانس کی لائبریری سے۔ یہ فرق ہوتا ہے لٹیرا ازم اور امپیریل ازم میں۔

اب میں تو چرسی نہیں ہوں کہ اچھا بھلا چرس کا ذکر کرتے اندر کا ہنری کسنجر جاگ گیا اور میں اکابر بارے بکواس کرنے لگا، مجھ سے تو چرسی ہی اچھے اپنے ناقد کو بھی عزت دیتے ہیں، بس کبھی کبھی مسجد کی ٹوٹیاں ہتھیا لیتے ہیں، خیر خدا کے ذمے ہر مخلوق کو رزق دینا ہے، چرسی کا رزق تو درے اور تیراہ کی چرس ہی ہے چاہے وہ اس کو مسجد کی ٹوٹی کے صدقے ہی کیوں نہ ملے۔ دانے دانے پر کھانے والے نام ہوتا ہے۔

ایک جید چرسی کے ٹن نامہ کی سمع خراشی کرتے ہوئے سنا تھا "انسان کو اس کے حصے کی چرس پہنچ کر ہی رہتی ہے، اب دیکھو تیراہ اور درے سے آئی چرس کیسے یہاں تم تک پہنچ کر رہی"۔

چرسی نے یہاں سمگلر کی خدمات کا ذکر نہیں کیا، کسی دور میں امریکی سمگلر لکیور بھی دنیا بھر میں سمگل کرتے تھے، اب چرسی کے پاس غالب جیسا دماغ کہاں تھا، غالب کے ذوق کا عالم دیکھیے کہ اس زمانے میں بھی ولایتی شراب پیتے تھے اور فرنچ کاغذ پر لکھتے تھے جب عوام کو دیسی شراب کا گھونٹ مشکل سے ملتا، غالب شراب عاجزی پیدا کرنے واسطے نہیں بلکہ یہ کہہ کر حلال کر لی۔

"یہ تمھارے مذہب میں حرام اور میرے مشرب میں حلال ہے"۔

وہ لکیور کی مدح میں اپنے خط میں لکھتے ہیں۔

"لکیور کے معنی تم نہ سمجھو گے، انگریزی شراب ہوتی ہے، قوام کی بہت لطیف، رنگت کی بہت خوب اور طعم کی کی ایسی میٹھی جیسے قند کا قوام پتلا"۔

مگر غالب بھی لکیور کے ان امریکی سمگلروں کو کریڈیٹ دینا بھول گے جن کے باعث ولایتی شراب کے اتنے اعلی فضائل ادب کا حصہ بنے۔ مگر سمگلر تو فراخ دل ہوتے ہیں سوائے ایک کے وہ تعریف کی پرواہ کیے بغیر جان پر کھیل کر لوازمات زندگی صارفین تک پہنچاتے ہیں۔

سوائے ایک میں غزنی والے سمگلر آتے ہیں، محمد قاسم فرشتہ نہ ان کو کافی کنجوس اور دولت کا حریص لکھا ہے، اب تاریخ فرشتہ کی گواہی ہے تسلیم تو کرنا پڑے گا، محمد قاسم فرشتہ کتنا دبنگ مورخ تھا کہ ابراھیم عادل شاہ ثانی نے جب اس سے تاریخ لکھنے کی فرمائش کی تو قاسم فرشتہ نے سمپل کے طور پر پہلا مسودہ بادشاہ کو دکھایا جس میں اس کے باپ عادل شاہ اول کی موت کا تذکرہ بھی لکھا تھا۔

عادل شاہ اول خوبصورت لڑکوں اور خواجہ سراؤں کا شوقین تھا، ایک دفعہ ایک خوبرو خواجہ سرا پر نیت خراب کر بیٹھا خواجہ سرا نے غیرت میں آکر اس کو قتل کر دیا، فرشتہ نے باپ کی ایسی رسوا کن موت کا تذکرہ بیٹے کو پڑھوایا تو وہ فرشتہ پر آگ بگولہ ہونے کے بجائے اس کی صاف گوئی کا مرید ہوگیا۔

کیا زمانہ تھا، مؤرخ صاف گو، بادشاہ منصف مزاج اور خواجہ سرا باغیرت قاتل ہوا کرتے تھے۔ خواجہ سرا اور قتل اس سے مجھے مشہور ترقی پسند صفدر میر یاد آگے۔

ایک زمانے میں ترقی پسندوں اور شورش کاشمیری کے "چٹان" والوں کے بیچ نطریاتی جنگ اس نہج پر پہنچی کہ ترقی پسند مصنفین کے صفدر میر نے یہاں تک کہہ دیا۔

"میں خالی ترقی پسند ہی نہیں باکسر بھی ہوں"۔

Check Also

Subhan Allah Ke Maqam

By Aamir Mehmood