Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Deobandiyat

Deobandiyat

دیوبندیت

اٹھارہ سو ستاون کی ناکام بغاوت اور مغل سلطنت کے کھونے کے بعد برصغیر کے مسلمان علمی اور سیاسی زوال کو شدت سے محسوس کرنے لگے اس سیاسی زوال کے رد عمل میں اسلام کی تجدید نو کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ فکر مند مسلمان کسی سہارے کی تلاش میں تھے۔ اس صورت میں دو سہارے سامنے آئے۔ ایک مادی سہارا تھا تو دوسرا روحانی۔ ایک علیگڑھ کی خراد پر چڑھا کر مسٹر تیار کر رہا تھا تو دوسرا دیوبند میں ملاں۔ ملاں اور مسٹر میں تعلق سوکنوں والا تھا مگر مقصد ایک تھا۔

قحط الرجال کے اس دور میں دیوبند بڑا خوش نصیب رہا اسے وہ وہ رجال ملے کہ دیوبند کو برصغیر کی ایک بڑی تحریک بنا دیا۔ مولانا محمود الحسن، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا حسین احمد مدنی اور سب سے بڑھ کر مولانا عبیداللہ سندھی یہ وہ نام تھے۔ کہ اقبال کو دیوبند کے بارے میں کہنا پڑا۔ دیوبندیت کسی فرقے کا نہیں بلکہ ایک عقیدے کا نام ہے۔

دیوبندیت بنیادی طور پر اہل سنت کے ماتریدیہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنی والی ایک تحریک تھی۔ یہ تحریک شاہ ولی اللہ کی تعلیمات سے بھی بہت متاثر تھی اور اس کے حاملین فقہ حنفی کے قریب تھے۔ دیوبندیت کی تعلیمات وہابیت سے بھی میل کھاتی تھیں۔ یہ بھی بدعات یعنی عرس اور قبر پرستی کے سخت خلاف تھے۔ یہی وجہ تھی احمد رضا خان بریلوی نے دیوبندیوں پر چڑھائی کر دی اور ان کے خلاف اپنا مشہور کتابچہ حسام الحرمین لکھ کر ان پر کفر کے فتوے لگائے اور دیوبند کے کفر کو سیمنٹ سے مزید پکا کرنے کے لیئے حجاز کے علماء سے فتوے لکھوائے۔

اس کے جواب میں دیوبند کے مولانا سہارن پوری نے مہند علی المفنہد لکھ کر ان فتووں کی تردید کی۔ اسے کتاب کو دیوبند کا مینو فیسٹو سمجھ لیں۔

مولانا رشید احمد گنگوہی نے ایک جگہ بیان کیا۔ خدا بھی جھوٹ بول سکتا ہے کیونکہ وہ قادر مطلق ہے اس لیئے جھوٹ بولنے پر قادر ہے۔ اس نظریئے کو انھوں نے امکان کذب کا نام دیا۔ بریلویوں نے یہ بات پکڑ لی اور آج تک دیوبندیوں کو گستاخ کہتے ہیں۔

دیوبند کے بطن سے برصغیر کے مسلمانوں کی سب سے تگڑی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے ہند نکلی۔ یہ متحدہ قومیت کے حق میں تھے۔ متحدہ قومیت کے سب سے بڑے وکیل مولانا حسین احمد مدنی تھے۔ مولانا مدنی نے ایک بڑی معرکہ الآرا کتاب لکھی ہے۔ برطانوی سامراج نے ہمیں کیسے لوٹا۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بہر حال مولانا مدنی کا خیال تھا۔ قوم مذہب کے بنیاد مذہب نہیں وطن ہوتا ہے۔

مولانا محمود الحسن دیوں ند کے گاڈ فادر تھے۔ یہ نظریاتی اور عملی دونوں تھے۔ انھوں نے برطانوی سامراج کے خلاف عملی تحریک چلائی۔ اسے تحریک ریشمی رومال کہا جاتا ہے جب یہ خفیہ تحریک انگریز کے ہتھے لگی تو مولانا کو سزا کے طور پر مالٹا بھیج دیا گیا۔

دیوبند نے جو سب سے شاندار شخصیت پیدا کی وہ مولانا عبیداللہ سندھی کی تھی۔ سکھ گھرانے میں پیدا ہونے والے سندھی صاحب بڑے جدید مولوی تھے۔ اس وقت کے برصغیر کے علماء میں جتنا ایکسوپئئر مولانا کا تھا اتنا کسی کے پاس نہ تھا آدھی دنیا گھومی۔ روس کے کیمونسٹ انقلاب کو اپنے سامنے برپا ہوتے دیکھا۔ انھوں نے قیام ماسکو میں اشتراکیت سے کافی اثر قبول کیا۔ یہی وجہ تھی جب استنبول میں قیام کے دوران انھوں نے آزاد ہندوستان کے لیئے جو آئین مرتب کیا تھا۔ اس میں جاگیرداری کے بجائے nationalization کو ترجیح دی تھی۔

محمود الحسن کے شاگرد خاص کے اثر سے دیوبند کے اندر کے لوگ بھی خائف ہو گئے تھے۔ جن میں دیوبند ایک بڑا نام بھی شامل تھا جو مولانا سندھی کی ریکی کرتا تھا انگریز کی ایما پر۔ مولانا نے اپنی کتاب امام شاہ ولی اللہ اور انکا فلسفہ میں لکھتے ہیں۔

"میں کسی غیر مسلم کو صیح بخآری نہیں پڑھا سکتا اور اس کی وجہ میں سرعام مجمعے میں بیان نہیں کر سکتا"۔

ایک جگہ لکھتے ہیں"جوں جوں میری نظر قرآن پر گہری ہوتی گئی میرے لیئے بعض احادیث سمجھنا دشوار ہوتا گیا"۔

مولانا نے دعویٰ کیا ہے شاہ ولی اللہ احادیث کو دین کی اساس نہیں مانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ دیوبند کے کئی ملاؤں نے ان کے نظریات کی وجہ سے کہنے لگے۔ آخری عمر میں ان کا دماغ خراب ہوگیا تھا۔

دیوبند کا تصوف خاصا دلچسپ تھا۔ انھوں نے تصوف کو مشرف وہابیت کر دیا۔ اس میں عرس و دیگر صوفیانہ بدعات کا خاتمہ کیا۔ دیوبند نے تصوف کو عوامی کرکے عام مسلمان کے اخلاق کا حصہ بنا دیا۔

دیوبند کی تحریک میں جدید تقاضوں کو سمجھنے کی صلاحیت باقی مسلمانوں سے زیادہ تھی۔ The deobandi movement and global Islam کے مصنف Brnnon d Ingram اپنی مذکورہ کتاب میں ایک دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا طیب جب جنوبی افریقہ کے دورے پر گئے تو ان سے پوچھا گیا۔ یہاں کے پیچیدہ معاشی نظام میں سود کے بغیر گزارہ نہیں ہے تو انھوں نے فتویٰ دیا کہ چونکہ جنوبی افریقہ دار السلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے اور دار الحرب میں اسلامی احکام موقوف ہو جاتے ہیں اس لیے آپ یہاں سود پر لین دین کر سکتے ہیں۔

دیوبند کی تاریخ میں عسکریت روحانیت جتنی ہی پرانی ہے۔ جس کی ابتداء اٹھارہ سو ستاون کی بغاوت میں ہوئی۔ انھوں نے تھانہ بھون کے علاقے کو اسلامی ریاست قرار دے دیا۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اس اسلامی خطے کے امیر المومنین بن گئے۔ رشید احمد گنگوہی چیف جسٹس۔

عسکریت کا دوسرا مرحلہ تحریک ریشمی رومال کی صورت میں ظاہر ہوا اور اس کا تیسرا دور افغان جہاد کہ صورت میں سامنے آیا۔ افغان جہاد کا ایندھن سب سے زیادہ دیوبند کے مدارس نے فراہم کیا۔ پشتون اور بلوچ بیلٹ میں دیوبند کا اثر سب سے زیادہ تھا تھا اس لیئے سعودی ریالوں کی تجوریاں ان پر کھل گئیں۔

ریالوں کی بارش میں مزید شدت اس وقت آئی جب جھنگ کے ایک ملاں نے کافر کافر کی نعرے لگا کر سعودیہ ایران کی سرد جنگ میں سعودیہ کا ٹٹو بننے کا فیصلہ کیا۔ اس کی جماعت کو سعودیہ کی خفیہ ایجنسی نے بنایا تھا۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارتگری کی بنیاد اسی جھنگوی ملاں نے رکھی تھی جسے ضیا الحق کا بھی آشیر باد بھی حاصل تھا۔

دیوبند کی علمی روایت کو تہس نہس کرکے انھیں شدت پسندی کی طرف لانے میں حق نواز جھنگوی کا ہی ہاتھ تھا جسے بعد ازاں علی شیر حیدری اور ضیاء الرحمن فاروقی نے آگے بڑھایا اور ویل چیئر والی بریلوی بابے کی طرح قوم کے دماغ خصی کر گئے۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat