Mojze Aaj Bhi Ho Sakte Hain (7)
معجزے آج بھی ہو سکتے ہیں (7)
مسلم باغ ایک پرانا شہر ہے اور اس کا نام پہلے ہندو باغ ہوتا تھا۔ یہاں پر شہر کے اندر بھی سیب کے باغات نظر آجاتے تھے اور سنگل سڑک کبھی آبادی اور کبھی باغات سے گزرتی بالآخر شہر سے باہر نکل آتی تھی۔ جہاں پر ایک دفعہ پھر وہی ویرانی اور پتھروں والا دشت شروع ہوجاتا تھا۔ اس سے آگے ایک دو بڑے سیلابی نالے سڑک کو کراس کرتے ہیں اور پھر "نسائی" کے چھوٹے سے گاوں پر پہنچ جاتے ہیں جہاں پر سڑک کنارے آج کل گاوں سے بھی بڑے رقبے پر کیڈٹ کالج وجود میں آچکا ہے۔ یہ مشرف دور میں بلوچستان میں شروع کئے گئے پانچ چھ کیڈٹ کالجوں میں سے ایک ہے۔
اس سے پہلے "نسائی" ایک چھوٹا گاوں ہوا کرتا تھا جس کی چند ایک کچی مٹی والی دکانیں سڑک کنارے ہوتی تھیں جن پر اکا دکا لوگ ہی نظر آتے۔ یہاں سے ایک چھوٹی سڑک بائیں ہاتھ اندر والی دور دراز آبادیوں کے کئے نکلتی ہے جو آگے جاکر سیب کے درختوں میں گم ہو جاتی ہے۔ میں نے اپنے کسی سفر میں اس سٹاپ پر مسافروں کو کھڑے نہیں دیکھا۔
"نسائی" سے آگے بڑھتے ہوئے دایئں ہاتھ کا پہاڑی سلسلہ قریب آنا شروع ہوجاتا ہے اور یہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ قلعہ سیف اللہ کا قصبہ آیا ہی چاہتا ہے۔ دور سے پہاڑی کے اوپر ایک بہت پرانی پوسٹ نظر آنا شروع ہو جاتی ہے اور بالآخر آپ قلعہ سیف اللہ کے چھوٹے سے قصبے میں داخل ہوجاتے ہیں جو کہ ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہاں پر آپ کو سڑک کے اطراف سرکاری دفاتر اور عمارتیں زیادہ اور رہائشی گھر کم نظر آتے ہیں۔ ایک دو پٹرول پمپ بھی تھے جس کہ وجہ سے کچھ رونق کا احساس ہوتا ہے۔
آپ قلعہ سیف اللہ سے تھوڑی ہی دیر میں باہر نکل جاتے ہیں جہاں دائیں طرف ضلعی ہیڈکوارٹر کے دفاتر اور عمارتیں نظر آتی ہیں اور بالآخر آپ ایک دوراہے پر پہنچ جاتے ہیں جہاں پر ایک مسجد اور ایک کچی مٹی سے بنا ہوٹل ہے۔ مجھے اپنے بے شمار اسفار میں کوئی ایک سفر بھی ایسا یاد نہیں جب میں اس ہوٹل پر نہ رکا ہوں۔ اس کا ایک ہی بڑا ہال ہے جہاں زمین پر چٹائیاں بچھے ہوتی ہیں۔ ہم جیسے بابوؤں کے لئے باہر برآمدے میں چند ایک ٹوٹی پھوٹی پلاسٹک کی کرسیاں رکھی ہوتی ہیں جو شائد ہمارے آنے کا انتظار کر ہی ہوتی ہیں تاکہ ان کو جھاڑا جائے۔ مقامی لوگ سب زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانے میں ہی سکون محسوس کرتے ہیں۔
کھانے کے وقت یہاں کا "روش" اور اس کے بعد قہوہ آپ کو نئی توانائی دے کر اگلے سفر اور فیلڈ وزٹ کے لئے پھر سے تروتازہ کر دیتا ہے۔ یہ جگہ کافی کھلی ہے اور تقریباً ہر وقت ہوا چلتی رہتی ہے۔ گرمیوں میں بھی ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ سردیوں میں تو آپ باہر برآمدے میں نہیں بیٹھ سکتے۔ ہوٹل کی ساری کھڑکیوں اور برآمدے کو موٹے پلاسٹک کے ٹکڑوں سے بند کر دیا جاتا ہے تاکہ سوئی کی طرح چبھنے والی ہوا ہال کے اندر بیٹھے لوگوں تک کسی چھید سے نہ پہنچ سکے۔ ہال کو دو تین لکڑی سے جلنے والی انگیٹھیوں نے گرم کیا ہوتا ہے جن کا پائپ چھت سے گزرتے ہوئے باہر گیس اور دھواں خارج کررہا ہوتا ہے۔ اس مقام کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں سے لورالائی جانے کیلئے راستہ سڑک نکل رہی ہے جو آگے جاکر ڈی جی خان چلی جاتی ہے اور دوسری ژوب کے لئے روانہ ہوتی ہے۔
قکعہ سیف اللہ میں محکمہ زراعت کے ڈسٹرکٹ آفیسر وحید خان کاکڑ صاحب تھے جو کہ انتہائی محنتی آدمی تھے۔ انہوں نے ہمارے اس پہلے وزٹ میں ہی ہمیں اپنا گرویدہ کر لیا تھا اور پھر ہمارا ساتھ اس پورے پراجیکٹ میں خوب چلا تھا۔ میں ان کی مستعدی، معامل فہمی اور لچکدار روئے سے بے حد متاثر ہوا اور حقیقت یہی ہے کہ بلوچستان میں اس پراجیکٹ کی کامیابی میں ان جیسے بلا تکان کام کرنے والے افسران کا بہت اہم کردار تھا۔ انہیں مولانا عبدالواسع نے خصوصی طور پر اپنے ضلع میں تعینات کروایا تھا۔
مولانا اس وقت کی حکومت میں سینئیر صوبائی وزیر اور منصوبہ بندی کے محکمے کے وزیر تھے۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام ان دنوں ق لیگ کی صوبائی حکومت کی اہم اتحادی تھی اور اس لئے یہ اہم وزارت ان کے پاس تھی اور وہ بھی اس ذمہ داری جو خوب نبھا رہے تھے۔ وہ ایک پروگریسو سوچ کے آدمی تھی اور شائد جمیعت کے وزرا میں سے قابل ترین آدمی جو ہر وقت اپنے علاقے میں ترقیاتی کام اور منصوبے کامیابی سے چلاتے رہتے تھے۔ اسی وجہ سے قکعہ سیف اللہ جیسے چھوٹے علاقے کے دور دراز اکا دکا آبادی والی جگہوں پر بھی فارم ٹو مارکیٹ روڈ اور بجلی پہنچ رہی تھی۔
ہمارے پراجیکٹ میں بھی سب سے زیادہ کام اسی ضلع میں ہوا تھا۔ بعد میں 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے پر بھی وہ مزید پانچ سال سینئر وزیر اور وزیر منصوبہ بندی رہے۔ آپ قکعہ سیف اللہ سے آج کل گزریں تو اس کا مین روڈ دو رویہ ہوچکا ہے جس ہر شمسی توانائی سے چلنے والی سٹریٹ لائٹ لگی ہوئی ہیں۔ مرکزی بازار میں بنک نظر آئیں گے جن میں "بنک آف پنجاب" بھی شامل ہے اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ایسا شاہ و ناذر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
وحید خان کاکڑ نے ہمیں اس پہلے وزٹ میں ہی اپنی بنائی گئی کچھ اسکیموں کو دکھانے کا پروگرام بنایا ہوا تھا اس سے پہلے کہ ہم روش کھا کر اور شلمبئے پی کر ہوٹل کی چٹائی پر دراز ہوتے اس نے گاڑیاں تیار کروادیں اور ہم ان میں بیٹھ کر ژوب جانے والی سڑک پر روانہ ہوگئے۔ اس سڑک پر تھوڑا آگے جاکر سڑک کے بایئں ہاتھ اس علاقے کے ایک اور قابل قدر خاندان "جوگیز ئی" فیملی کے گھر ایک قطار میں آتے ہیں۔ یہ بہت بڑی اور خوب صورت حویلیاں ہیں۔ اس فیملی کی بلوچستان اور پاکستان کی ترقی کے حوالے سے بہت خدمات ہیں اور اس خاندان کے بہت سے اہم افراد سیاست کے میدان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اعلی انتظامی عہدوں پر تعینات رہ چکے ہیں۔
یہاں سے آگے جاتے ہیں وحید کاکڑ نے گاڑیاں دائیں طرف اترنے والے کچے راستے پر مڑوادیں ُ جہاں پہاڑ کی دوسری طرف اس کی ٹیم ایک اسکیم پر کام کر رہی تھی۔ ہم نے اس کے کام کی کوالٹی چیک کی ٹیم سے گپ شپ لگائی اور واپس ژوب جانے والی سڑک پر آگئے جس ہر دائیں طرف سڑک کے ساتھ ساتھ لاتعداد چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں چل رہی تھیں جب کے بائیں طرف دور تک وادی ژوب میں پھیلے ہوئے انتہائی زرخیز مٹی کے میدان پانی کو ترس رہے تھے۔ جس کے مرکز میں دریائے ژوب کچھ کچھ بہنے کی کوشش میں رک رک کر چل رہا تھا۔ اس میں اتنا کم پانی تھا کہ وہ بہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کے کناروں پر دور اس سڑک سے سبزے کی ایک لکیر نظر آتی تھی۔ یہ سیب کے باغات اور فصلیں تھیں جو کہ ڈیزل پمپ لگا کر سیراب ہورہی تھیں اور اس بے انتہا پمپنگ کی وجہ سے زیر زمین پانی تیزی سے غائب ہورہا تھا جس کو سنبھالنے کے لئے ہم اپنے پراجیکٹ کے ذریعے تگ ودوکر رہے تھے۔ ہمارے ہراجیکٹ کا بنیادی مقصد پانی کے ضیاع کو روکنا اور کم پانی سے زیادہ علاقے کو سیراب کروانا تھا جس میں وہاں کی مقامی آبادی کا کردار بڑا اہم تھا۔
اب ہم "کالو قلعہ" کی طرف بڑھنا شروع ہو گئے تھے جس کی" مہمان سرائے" کی طلسماتی داستانیں اس علاقے میں سینہ بہ سینہ پھیلی چلی آ رہی تھیں۔ اس سرائے میں ویرانوں کے مسافروں کو رات کے رہنے کے لئے پناہگاہ اور کھانا ملتا۔ اس جگہ ایف سی کی ایک چیک پوسٹ بنی ہوئی تھی جس سے گزر کر "بادنزئی" کا سر سبزوشاداب علاقہ آتا ہے۔ یہ علاقہ ویرانے میں نخلستان ہے۔ جگہ جگہ فصلیں اور باغات ہیں۔ باغات کے گرد کچی مٹی او پتھروں سے بنی حفاظتی چاردیواریاں اور ان کے اندر سے گزرتی یہ سنگل بلیک ٹاپ سڑک اپنا ہی مزہ دیتی۔ اس علاقے کی اونچی نیچی زمین پر بنی سڑک پر گزرتے ہوئے میں ہمیشہ ان باغات میں کھو جاتا۔ مسلسل پہاڑی اور بنجر علاقے کے سفر کے بعد اتنے درختوں اور سبزے کو دیکھنا ایک دلکش نظارہ ہوتا۔ سیب کے سیزن میں یہاں ہر طرف ایک مسحورکن خوشبو پھیلی ہوتی۔
یہ علاقہ "سبکزئی ڈیم "کے کمانڈ ایریا میں آتا ہے۔ جس کی تعمیر پر اس وقت "واپڈا" کے زیر انتظام زور شور سے کام ہورہا تھا۔ اس ڈیم سے ہزاروں ایکڑ بارانی زرعی اراضی کو فائدہ ہونا تھا لیکن افسوس کہ ڈیم تو بن گیا اور نہریں بھی۔ لیکن اس علاقے میں کمانڈ ایریا ڈیولپمنٹ کا کام ابھی تک بھی بہ وجوہ مکمل نہ ہوسکا جس کی وجہ سے اس سارے علاقے میں زراعت کے لئے مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں مل رہا جو کہ ایک باعث شرم بات ہے۔ ڈیم گزشتہ بارہ تیرہ سال سے ہر سال پانی جمع کر کے ہماری نااہلی کا تماشہ دیکھنے کھڑا ہوجاتا ہے۔
اس خوب صورت علاقے سے آگے بڑھتے ہیں تو "موسی خلہ" کلومیٹروں دور سے نظر آنا شروع ہوجاتا ہے جس کا دھڑ ۂزاروں سالوں سے اس زمین میں دفن ہو چکا اور وہ بڑی مشکل سے اپنا سر زمین سے باہر نکالے آسمان کی طرف منہ کئے اس مبارک گھڑی کے انتظار میں لیٹا ہوا ہے جب زمین اسے اپنے شکنجے سے آزاد کردے گی اور یہ کپڑے جھاڑتا ہوا کھڑا ہوجائے گا۔۔
(بلوچستان کے پانیوں کو محفوظ کرنے کا سفر ابھی جاری ہے۔۔)