Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Sadaqat Hussain/
  4. Afsana Kya Hai?

Afsana Kya Hai?

افسانہ کیا ہے؟

زندگی کی ترجیحات میں جنکا رومانس افسانہ ہے وہ ہی تخلیق کا اصل شرف پاتے ہیں۔ اگر افسانہ خود بتائے کہ میں کیوں لکھا گیا ہوں اور وہ گفتگو کرے تو سمجھ لیں افسانے کی تشکیل میں انسانی نفسیات اور احساس کے سمندر جزب ہیں۔ یہ افسانہ ہی ہے جو زندگی میں ہمیں دوسرا موقع مہیا کرتا ہے جسکا انکار زندگی کرتی ہے۔ رومانس کا عملی تجربہ رکھنے والا، والی مصنف، مصنفہ افسانہ میں جادوئی اسلوب نگاری کے ساتھ رومانویت کی نفسیاتی حد عبور کر سکتا، کر سکتی ہے۔

ہماری یاد داشتوں کی ازسر نو تشکیل کا نام افسانہ ہے۔ عصر حاضر میں بدلتی سماجی ترجیحات کے باعث رومانوی افسانہ دم توڑ رہا ہے۔ محبت فرسودہ جذبہ بنتی جا رہی ہے۔ تخلیقی نثر فہم، عقل، دانش فکر سے نہیں بلکہ مشاہدہ کے پہلے تصور سے کسی بھی وقت جنم لے سکتی ہے۔

افسانے میں افسانوی فضا یا ماحول کی تشکیل ایک ایسا تخلیقی عمل ہے جو قاری کو اردگرد کے ماحول سے مبرا کر کے افسانے میں اپنی بھرپور توجہ انہماک اور شراکت پیدا کرا دیتا ہے۔ اس حوالے سے افسانے کی فضا نہایت دلچسپ اور مسحور کن ہونی چاہئے تاکہ قاری اسے پڑھتے ہوئے اس فضا کا حصہ بن جائے۔ جس کا طلسم افسانہ ختم ہونے کے بعد بھی اثر رکھے۔ ایسی افسانوی فضا آفرینی کے لئے قلمکار کو ڈرامائی انداز اختیار کرنا ہوگا۔

ادب، فلسفہ اور آرٹ سے محروم معاشرے زیادہ عدم برداشت کے حامل سماج کہلاتے ہیں۔ اچھے مختصر افسانے لکھنے والے ادیبوں کے اچھے افسانوں کا متواتر مطالعہ نئے لکھنے والوں کو وسیع علمی فکری میدان فراہم کرتا ہے۔ یوں آپ مختصر مدت میں کسی حد تک افسانوی شعور تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ناول متن میں کہانی در کہانی، کردار در کردار ڈالتا ہے جبکہ افسانہ اپنے متن میں کہانی اور کردار تخلیق کرتا ہے۔

تحیر سے لبریز تخلیقی ادب تادیر زندہ رہتا ہے۔ حقیقت نگاری، جادوئی حقیقت نگاری (میجیکل رئیلزم) فینٹیسی سب جلد ہوا ہو جاتی ہیں۔ محض نقاد کی ادبی فلسفیانہ انکوائری اور ادبی اتھارٹی ایک ڈھکوسلہ ہے جب تلک کہ وہ ایک تخلیق کار نہ بنے۔ اچھا افسانہ تادیر انسانی نفسیات کا محور و مرکز رہتا ہے۔ تخلیقی ادب انسانی جوہر کا کائناتی حسن ہے۔ اکہری تحریر مصنف کی محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔ بیانیہ بہتر تخلیقی تحیر و فکر مشاہدہ سے معمور اور اسلوب دلکش پرکشش ہو تو ناول یا افسانے میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔

افسانہ ایک تخلیقی اکائی ہے۔ زندگی اور انسانی سائیکی کی تصویر گری کے لئے افسانے سے بہتر اور کوئی تخلیقی صنف نہیں۔ جہاں آپ واقعاتی تسلسل کے ساتھ ساتھ خیال و احساس کے نہ صرف آزاد و خودمختار پیمانے تشکیل دیتے ہیں بلکہ کہانی کی فطرت کے حقیقی رازداں کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہوتے ہیں۔ افسانہ نگار اپنا مشاہدہ اور تخیل تحریری زینت کی صورت قاری کو ترسیل کرتا ہے۔ زندگی کے عنوان میں رنگ بھرتا ہے۔ کہانی کو امر کرتا ہے۔ لکھنے والے کبھی مرتے نہیں۔ وہ مر کر بھی اپنی تخلیقات میں زندہ رہتے ہیں۔

افسانہ زندگی کی تشریح ہے۔ آپ کی تلخ شیریں یادیں اور اطراف کی مشاہداتی زندگی اگر تخلیقی یا سادہ حسن اسلوب میں ڈھل کر الفاظ کا پیرہن اوڑھ لیں تو افسانہ تشکیل پاتا ہے۔ خیال کی آبرو الفاظ کے تہذیبی چناؤ کے ذریعے ممکن ہے۔ اسلوب اسی خیال کی تشکیل میں معاون ہے۔ موضوع کی تازگی کرداروں کی شگفتگی اور تخلیقی تحیراتی نثر اگر کہانی کا محور ہوں تو افسانہ تصویر پاتا ہے۔

اگر آپ کسی خیال کی نموپذیری پر قدرت نہیں رکھتے اور اسے افسانے کے قالب میں ڈھالنے کی قطعی صلاحیت سے بھی محروم ہیں تو خدارا ایسے افسانے مت لکھیں جو فلموں کی کہانیوں سے لئے گئے ہوں۔ فلم ایک علیحدہ میڈیم ہے اور اس کے تقاضے سراسر معاشی اور تجارتی ہوتے ہیں۔ جبکہ افسانہ انسانی احساسات کا دلکش بیانیہ ہے جسے فنکارانہ ہنرمندی سے پیش کرنے کا اپنا ایک علیحدہ سلیقہ ہے۔ فلم کے مرکبات اور ترجیحات پیشہ وارانہ اصولوں کی پابند ہوتی ہیں۔ جبکہ افسانہ دلی وارداتوں اور احساسات کی تصویر کا نام ہے۔

کسی بھی فکر کی ترویج یا تحریر کے زاویوں میں جمالیاتی انداز اپنانے سے قلم کار افسانے کے فسوں میں منفرد صورت حال پیدا کر سکتا ہے۔ یوں افسانے کے مصنوعی ماحول میں زندگی کی کیفیت دلکش رنگ بدلتی ہے۔ اسلوب کی زبان سے پھول جھڑتے محسوس ہوتے ہیں۔ تخلیقی جوہر کی خفیہ کاری گری تحریر کو عام سطح سے اٹھا کر آفاقیت تک لیجاتی ہے۔ افسانے کے موضوع میں تنوع ہو۔ ایک بنتے ہوۓ خیال کا تسلسل ہو۔ منضبط منصوبہ بندی ہو۔

مگر تخلیقی اور جمالیاتی صورت حال وضع کرنے میں قلمی، فکری اور شعوری قوتیں بنجر ہوں۔ تو افسانے سے قاری کی دلی فکری وابستگی کے قیام کی امید نہ رکھی جائے۔ افسانے کا حسن تخلیقی جملوں کی تذویراتی گہرائی میں پنہاں ہے۔ افسانہ نگار داخلی اور خارجی احساسات کے ساتھ ماحول سے امڈتی کہانیوں کے ماخذ کو کس طرح جزب کر کے قرطاس ابیض پر پھیلاتا ہے اصل امتحان یہ ہے۔

انقلاب کبھی بھی تحریر سے نہیں بلکہ تقریر اور مزاحمت سے جنم لیتا ہے۔

Check Also

Ab Iss Qadar Bhi Na Chaho Ke Dam Nikal Jaye

By Syed Mehdi Bukhari