Thor Zada Dil (2)
تھور زدہ دل (2)
میں بھی دکھ سے نڈھال تھا اور اپنے اندر مزید اس بوجھ کو سہارنے کی طاقت نہیں پاتا تھا۔
لہٰذا سر جھکا کر کہا کہ بابا صاحب آپ رحمان چچا سے زیبی کی بات کر لیجیے۔
بابا کی لمبی خاموشی نے مجھے سر اٹھا کر انہیں دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ بابا صاحب کے ماتھے پر تفکر کی گہری لکیر تھی۔ بالآخر بابا صاحب اپنی کرسی سے اٹھے، میرا کندھا تھپتھپایا اور کہا کے آج کل حالات بہت مخدوش ہیں مدثر۔ دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف گرہ پڑ گئی ہے۔ عصبیت عروج پر ہے۔ میں پوری کوشش کرونگا مگر میں وعدہ نہیں کرتا۔
دو دن بعد بابا صاحب رحمان چچا کی طرف جا رہے تھے۔ نواز اور بالی ان کے ہمراہ تھے مٹھائی اور پھلوں کے ٹوکرے کے ساتھ۔ میں نے کہا "میں بھی چلوں بابا صاحب"؟ انہوں نے سر کے اشارے سے اجازت دے دی۔ رحمان چچا خوشدلی سے ملے مگر وہ میٹھائی دیکھ کر کچھ پریشان سے لگے۔ بابا نے تھوڑی دیر کے بعد اپنا مدعا بیان کیا۔ ایک لمحے کے لیے رحمان چچا کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ ان کے تاثرات میں بے یقینی، حیرانگی اور دکھ کی آمیزش تھی۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد انہوں نے جواب دینے کے لئے مہلت مانگی۔
بابا صاحب نے کہا کہ انہیں احساس ہے کہ یہ وقت شاید اس بات کے لئے مناسب نہیں، مگر مدثر آپ کی گودوں میں کھیلا اور آپکے سامنے پلا ہے۔ ہم زمانے سے ایک دوسرے کے سنگی ساتھی اور مددگار رہے ہیں۔ ہمارے آپس کی کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں۔ امید ہے کہ آپ پرانی دوستی کا مان رکھتے ہوئے اس کو اپنی فرزندی میں قبول فرمائیں گے۔
میری ساری رات بے قراری میں کٹی۔ میں نماز کا پابند تو تھا مگر تہجد کبھی نہیں پڑھی تھی اور وہ تمام رات سجدوں میں کٹی۔ فجر کے بعد بھی آنکھ نہیں لگی تو میں چائے کے لیے کچن گیا وہاں نواز بابا چائے کو دم دے رہے تھے۔ ان سے چائے کے لیے کہہ کے جوں ہی پلٹا مجھے پینٹری میں مٹھائی اور پھلوں کے ٹوکرے نظر آئے۔
میں شل ہو گیا۔ یہ یہاں کیسے آئے؟
میں نے ہکلاتے ہوئے نواز بابا سے پوچھا۔
نواز بابا نے بتایا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے رحمان چچا کے ملازم پہنچا کے گئے ہیں۔ میں بے اختیار ان کے گھر بھاگا مگر خلاف معمول ان کا گیٹ بند تھا اور چوکیدار بھی نہیں تھا۔ میں کافی دیر بیل بجاتا رہا، دروازہ پیٹتا رہا مگر کوئی سنوائی نہ ہوئی۔ نواز بابا میرے پیچھے ہی کھڑے تھے، کہنے لگا چھوٹے صاحب گھر چلئے۔
عصر کے قریب مجھے نواز بابا نے اطلاع دی کہ ان کا گیٹ کھلا ہے۔ میں بھاگتے ہوئے ان کے گھر داخل ہوا، سب کچھ پہلے جیسا تھا۔ میں ڈرائینگ روم میں ان کا انتظار کر رہا تھا۔ رحمان چچا آئے اور میرا کندھا تھپتھپاتے ہوئے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا مگر میں ان کے قدموں میں بیٹھ گیا، اپنی خودداری، اپنے خاندان کی آن اور شان سب ان کے پیروں پر رکھ دی۔ ان کا گھٹنا پکڑ کر بے ساختہ رو دیا۔ ایک اکیس سال کا جوان بالکل بچے کی طرح بلک رہا تھا۔
رحمان چچا میرے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے پھر مجھے کھڑا کر کے گلے سے لگایا اور کہا کہ خوش رہنے کی کوشش کرنا۔ کیسا سنگین مزاق تھا، روح بھی قبض کر لی اور ساتھ ہی جینے کی دعا بھی دی۔ بعد میں مجھے نواز بابا نے بتایا کہ صبح سویرے کی فلائٹ سے چاچی، زیبی اور قمر کو کراچی روانہ کیا جا چکا ہے۔ اس خبر نے تو مجھے میری اپنی نظروں میں ہی بونا کر دیا۔
کیا رحمان چچا نے مجھے اتنا کمینہ سمجھ لیا تھا کہ میں بگڑے سیاسی حالات کا فائدہ اٹھاتا؟
کیا اتنے سال کا ساتھ بھی اعتبار قائم کرنے کے لیے ناکافی تھا؟
میں واقعی شدت غم سے ڈھے گیا۔ جدائی تو تھی ہی پر بے اعتباری نے مجھے کہیں کا نہ رکھا۔
بابا نے تیسرے دن مجھے سلہٹ روانہ کر دیا۔ عجب بے حسی اور بے گانگی کے عالم میں دن گزر رہے تھے۔ اماں اور یاسمین کھانا کھلا دیتی تو کھانا کھا لیتا، نہانے کا کہتی تو نہا لیتا۔ سونے کا کہتی تو آنکھیں بند کر کے لیٹ جاتا گو کہ نیند کی دوائیں اپنا اثر کھو چکیں تھیں۔
انہیں بے حواسی کے دنوں میں مجھے سقوط مشرقی پاکستان کی خبر ملی اور میرے دماغ میں پہلا خیال رحمان چچا کا آیا اور میں اماں کو بغیر بتائے، ان کی تلاش میں ڈھاکہ پہنچا۔ ڈھاکہ پہنچ کر مجھے خبر ملی کہ رحمان چچا کی تولیہ کی فیکٹری جلائی جا چکی ہے۔ ان کا گھر بھی لٹ چکا تھا اور وہ در بدر اپنی جان بچاتے پھر رہے تھے۔ بڑی مشکلوں سے ان کا ٹھکانہ ڈھونڈ کر ان کو بحفاظت برما کے راستے پاکستان بھجوانے کا انتظام کیا۔ آخری ملاقات میں چچا پھوٹ پھوٹ کر روئے مگر میرا دل خالی کا خالی رہا۔
ان کو پاکستان بھجوا کر میں پھر سلہٹ لوٹ آیا۔ اتنی مار کاٹ اور بربریّت دیکھنے کے بعد تو انسانیت پر اعتبار ہی نہیں رہا تھا۔ جس طرح غیر بنگالیوں کی نسل کشی کی گئی تھی اور جس طرح ان کے جان، مال اور عزت کو پائمال کیا گیا تھا اس کو میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ اس غیر انسانی سلوک کو دیکھ کر پہلی بار میں نے شکر ادا کیا کہ زیبی یہاں نہیں تھی۔ ان تمام باتوں کا میرے دل و دماغ پر بہت اثر ہوا اور میں لمبے عرصے تک سکون آور دوائیوں کا محتاج رہا۔
بابا صاحب نے بہت زور لگایا کہ میں دوبارہ مقابلے کے امتحان کی تیاری کروں مگر مجھے کتابوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔ پھر میں نے چائے کے باغات سنبھال لیے۔ زندگی کی طرف تو نہیں لوٹا مگر اپنے آپ کو کام میں ضرور غرق کر لیا۔ مگر میرا دل پھر سدا ہی بے سکون رہا۔ یاسمین کی شادی کے بعد اماں کا میری شادی کے لیے اصرار بڑھتا گیا۔ پتہ نہیں میں نے اماں کی بات مانی یا اپنے نفس سے ہارا، بہرحال دور پار کی رشتہ دار شمسہ سے میری شادی ہو گئی۔
مگر شاید یہ زندگی کا بدترین فیصلہ تھا۔ شمسہ چونکہ خاندان ہی سے تھی لہٰذا اڑتے اڑتے اس کے کانوں تک بھی زیبی کی داستان پہنچ چکی تھی۔ وہ ناعاقبت اندیش بجائے مرہم بننے کے رقابت کی آگ میں سلگتی چنگاری بن کر میری زندگی میں داخل ہوئی۔ اس کی زبان کی دھار الاماں الاماں۔ ایسا کڑوا بول بولتی کہ انسان زہر زہر ہو جائے۔ شروع میں، میں طرح دے جاتا تھا مگر ایسی بے وقوف عورت میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی جو اپنے ہی گھر کو پھونکنے پہ تلی بیٹھی تھی۔
بہت سمجھایا کہ زیبی پرچھائیں تھی تم حقیقت ہو، اسکے تعاقب میں اپنی توانائی ضائع مت کرو مگر وہاں تو وہی چوبیس گھنٹوں کا ایک ہی راگ۔ حالانکہ میں بالکل سچ کہ رہا ہوں کہ میں تقدیر کا قائل ہو چکا تھا اور میں مان چکا تھا کہ زیبی میری زندگی میں کہیں نہیں مگر اس عورت نے زیبی کو مجسم کر دیا۔ تین سال کے اندر اندر جلیل اور خلیل بھی پیدا ہو گئے مگر گھر ہنوز جہنم ہی رہا۔ میرا مکان کبھی گھر بنا ہی نہیں۔ یہ لفظوں کا رشتہ بھی خوب ہے جو دل تک رسائی ہو گئ تو لاکھ کا ورنہ خاک کا۔
اس ہنگامے اور روز کی دانتاکل میں اماں گزر گئیں۔ بابا صاحب ان کی موت سے اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ انہوں نے جائیداد میرے اور یاسمین میں تقسیم کر دی۔ خود اللہ سے لو لگا کر گوشہ نشین ہو گئے۔ میری زندگی میں سکون مفقود تھا۔ میں نے دونوں معصوم بچوں کو اس مکدر ماحول سے بچانے کے لیے ہوسٹل میں داخل کرا دیا تھا۔ آخر شادی کے دسویں سال میں نے شمسہ سے پوچھا کہ تم چاہتی کیا ہو؟ کہو تو تمہیں آزاد کر دوں؟
شمسہ کہنے لگی نہیں طلاق نہیں چاہیے بس تم کو برداشت نہیں کر سکتی۔ میں نے کہا ٹھیک۔ پھر میں نے اپنے چائے کے باغات بیچ کر ڈھاکہ میں کمرشل بلڈنگز خریدیں اور دونوں بچوں کو ہوسٹل سے وآپس گھر لایا اور ان تینوں اور بابا صاحب سب کو ڈھاکہ میں دھان منڈی میں سیٹل کیا اور بابا صاحب کو جائیداد کی پاور آف اٹارنی دی۔ بابا صاحب میرے اس فیصلے سے ناخوش تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے بھی سکھی رہنے کا حق ہے، شمسہ طلاق نہیں لیتی تو کوئی بات نہیں تم دوسری شادی کر لو۔
میں نے کہا بابا صاحب میں بھر پایا شادی سے۔ آپ سلامت رہیں۔ جب تک آپ ہیں بچوں کی طرف سے مجھے بے فکری ہے۔ ڈھاکہ میں ان لوگوں کا مناسب انتظام کر کے میں جرمنی اپنے دوست رضوان کے پاس آ گیا۔ یہ بہاری تھا اور میرا اسکول اور کالج فیلو۔ ڈھاکہ فال کے بعد میں نے اس کو اور اس کی فیملی کو چھ مہینے اپنے سلہٹ والے گھر میں پناہ دی تھی پھر اس کو بھی برما کے راستے پاکستان بھجوایا تھا۔ اس بات کا وہ بہت احسان مند تھا حالانکہ دوستی میں احسان نہیں ہوتا۔
اس کے بہت اصرار پر میں اس کے گھر دس دن رہا پھر میں نے اپنا بندوبست کر لیا۔ بجائے شہر کے، میں قریب ترین قصبے میں منتقل ہو گیا تاکہ فطرت سے قریب رہوں۔ جس اسٹور سے میں ضرورت کا سامان لیا کرتا تھا اس کے مالک مسٹر آندرے سے اچھی دوستی ہو گئ تھی۔ وہ جب پندرہ دن پر شہر سامان لینے جاتا تو اس کی مدد کے خیال سے میں بھی ساتھ ہو لیتا۔ پھر آندرے نے مجھے اپنی دوکان میں سلیزمین شپ آفر کر دی جو میں نے قبول کر لی۔
دو سال بعد آندرے کی طبیعت خراب رہنے لگی اور میں اس کا تیمار دار بھی بن گیا۔ اس نے کہا کہ سارا وقت تو تم میرے پاس گزارتے ہو، یہیں آ جاؤ، دو فالتو بیڈ روم ہیں جون سا پسند ہے وہ لے لو۔ میں اس کے گھر منتقل ہو گیا، یوں اس کی دوکان بھی سنبھالتا رہا اور اس کی دیکھ بھال بھی۔ وہ میری نماز پر بڑا حیران ہوتا تھا۔ کہتا تھا کہ بھئ بڑا وقت ضائع کرتے ہو۔ پانچ بار پڑھتے ہو۔
ہم لوگوں کو تو ہفتے میں ایک دن چرچ جانا کھل جاتا ہے اور تم لوگوں کا اللہ تم لوگوں کو ہر وقت بلاتا رہتا ہے، کمال ہے۔ میں نے اس سے پوچھا تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے؟ کہنے لگا ہاں جب میں دوسری جنگ عظیم میں زخمی حالت میں پولینڈ میں گرفتار ہوا تھا تو اپنی پولش نرس کے عشق میں مبتلا ہو گیا تھا۔