Thor Zada Dil (1)
تھور زدہ دل (1)
میں پچھلی تین راتوں سے تہجد کے لئے اٹھتے ہوئے اپنی بیڈ روم کی کھڑکی سے معراج کو پچھلے بگیچے میں سگریٹ پھونکتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ حال اور حلیہ دونوں سے اس کا قلبی انتشار ہویدا ہے۔ میں نے نماز پڑھی اور گربہ چال چلتا ہوا کچن میں گیا اور دو کپ انسٹینٹ نیسکیفے کی بنائی پھر کمرے میں آ کر معراج کو کھڑکی سے آواز دی۔ معراج میری آواز پر یوں بدکا جیسے یہ میری آواز نہ ہو قیامت کا صور ہو۔ جلدی سے اس نے سگریٹ کو پاؤں تلے کچلا اور لپکتا ہوا میرے کمرے میں آیا۔
آپ ٹھیک تو ہیں نا دادا صاحب؟
معراج نے بے قراری سے پوچھا۔
میں نے غور سے اپنے پوتے کو دیکھا۔ یہ کیا ہو گیا میرے بچے کو؟ اتنا اجڑا اور ویران۔ ایک پل کو تو مجھے یوں لگا کہ میں معراج کو نہیں اپنے ہمزاد کو دیکھ رہا ہوں۔
آمی بھالو، تومی چینتا کرو نا (میں ٹھیک ہوں، تم فکر مت کرو)۔
لو کافی پیو۔
معراج کچھ الجھا سا کافی کا مگ پکڑ کر بے دلی سے صوفے پر ٹک گیا۔
میں جرمنی سے ہمیشہ کے لیے اپنا بزنس سمیٹ کر ڈھاکہ اپنے جنمو بھومی لوٹ آیا تھا۔ اب یہ نہیں پتہ کہ یہ "ہمشہ" کتنا طویل تھا کیونکہ پچھتر سال (75) کی عمر، ایک لمبا دورانیہ ہے اور میں پچھلے پندرہ سالوں سے اپنے آپ کو بونس پر ہی سمجھ رہا ہوں۔ ڈھاکہ سے دس بارہ دن کے بعد مجھے سلہٹ نکل جانا ہے اور وہیں اپنی موت کو خوش آمدید کہنا ہے۔ وہاں کبھی ہمارے چائے کے باغات تھے، اب تو بس آبائی گھر ہی بچا ہے۔
مجھے سلہٹ کا سکون پسند ہے اور ڈھاکہ سے وحشت۔ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ میں اپنے دونوں بیٹوں جلیل الحق اور خلیل الحق سے بہت قریب نہیں یا اپنے پوتوں اور پوتیوں سے ماسوائے معراج کے بہت قربت نہیں۔ عام سا باپ دادا ہوں۔ نظر سب پر، سب کی ضروریات وقت پر پوری مگر دل میں تنہائی کے اڑتے بگولے۔ گو مجھے معراج کے مسئلے کا اندازہ تھا مگر میں اس کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔
بھلا عاشق بھی کبھی چھپتے ہیں؟
ویسے بھی دکھ سانجھے ہوں تو بندہ ایک ہی ویو لینتھ wave length پر آ جاتا ہے۔ درد مشترک کے بھید بھاؤ ایک ہی جیسے تو ہوتے ہیں۔ جیسے چور چور کو، ویسے ہی عاشق عاشق کو شناخت کر لیتا ہے۔ معراج نے غور سے مجھے دیکھا اور نظروں سے تولا۔ یہ یقین کرتے ہوئے کہ غالباً میں ہی اسکی ڈوبتی نیا کا کھویا ہوں، اس نے ایک گہری سانس لی اور اپنے بدن کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔
معراج نے مجھے بتایا کہ اسے اس کی کلاس فیلو ممتاز سے انس ہے اور وہ دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں مگر ممتاز کے گھر کے بزرگ زبان کے فرق کی وجہ سے اس رشتے کے حامی نہیں۔ ممتاز کا تعلق اردو بولنے والے خاندان سے تھا اور معراج بنگالی گھرانے کا چشم و چراغ ہے۔
میرا گمان بالکل صحیح تھا۔ وہی روایتی عشق کی کہانی۔ جہاں کبھی مذہب، تو کبھی فرقہ، مسلک، ذات یا زبان دلوں کو تاراج کرنے کے لیے ہتھیاروں سے لیس میدان میں اترتے ہیں اور جزبوں کی فصل کو نفرت کی برق جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔ محبت جس کو تعویذ جان ہونا چاہیے اس کو نفرت اور مفادات عضو معطل بنا ڈالتے ہیں۔ محبت بس بے بسی سے ٹکر ٹکر دیکھتے ہوئے پہلے دل کو اور پھر دھیرے دھیرے آپ کے پورے وجود کو کولڈ اسٹوریج میں تبدیل کر دیتی ہے۔
حیرت ہے کہ چھپن سال کا طویل عرصہ بھی اس نفرت کی گھاٹی کو عبور کرنے پر قادر نہیں۔ یہ نفرت اتنی تنومند کیوں ہوتی ہے؟
شاید اس لیے کہ اس کی آبیاری ارمانوں کے خون سے ہوتی ہے۔ اس نفرت کے کوہ طور کو اب محبت کی تجلی کی اشد ضرورت تھی۔
میں نے معراج سے لڑکی کے باپ کا نام اور گھر کا پتہ پوچھا اور اس کو تسلی دی اور کہا کہ بے فکر ہو کر سو جائے، ابھی اس کا دادا اتنا بھی ناتواں نہیں کہ پوتے کا یہ مسئلہ حل نہ کر سکے۔ معراج بے یقینی سے مجھے دیکھتے ہوئے بے ساختہ مجھ سے لپٹ گیا۔ کمرے سے جاتا ہوا معراج اس معراج سے بہت مختلف تھا جو ڈیڑھ گھنٹہ پہلے اس کمرے میں آیا تھا۔ میں نے چاہا کہ فجر کے بعد ایک جھپکی لے لوں مگر یادوں کا سائکلون مجھے بے بس تنکے کی طرح بہاتا بوڑھی گنگا کے گھاٹ لے گیا۔
ستر کی بات ہے میں گریجوئیٹ کر چکا تھا اور تن من سے سی ایس ایس کی تیاریوں میں لگا تھا۔ فجر کی نماز سات گنبد مسجد میں پڑھنے کے بعد مجھے گھاٹ کے کنارے امتحان کی تیاری کے لیے پڑھنا بہت اچھا لگتا تھا اور گھر واپسی کا سفر اس سے بھی زیادہ من پسند کیونکہ میری واپسی کا وقت اور زیبی کے پھول چننے کا وقت تقریباً ایک ہی تھا۔ صبح صبح اس کی جھلک مجھے سارا دن تازہ دم رکھتی تھی۔
زیبی یعنی زیب النساء رحمان چچا کی بیٹی تھی۔ ہمارے دو گھر بعد ان کا گھر تھا، اورنگزیب روڈ پر۔ رحمان چچا کی پرانے ڈھاکہ میں تولیہ کی فیکٹری تھی۔ دو ہی بیٹیاں تھیں ان کی زیبی اور قمرن النساء۔ زیبی ایڈن گلز کالج میں بی اے پارٹ ون میں تھی اور میری چھوٹی بہن یاسمین اور زیبی کلاس فیلو تھیں۔ قمر ہولی کراس کالج میں فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی۔
ہم سب بچپن سے ساتھ پلے بڑھے تھے اور چاروں ہی دن بھر دھما چوکڑی مچائے رہتے تھے۔ قمرن کو تو میں نے گود میں بھی لادا ہے۔ پکنک پہ جانا ہو یا گھاٹ پہ، سنیما دیکھنا ہو یا میوزیم جانا ہو سب کچھ ساتھ تھا۔ حد یہ کہ ان کی گڑیا کی شادی میں، میں ہی گڑیا گڈے کا نکاح بھی پڑھاتا تھا۔ میرے ذہن و دل میں زیبی کے لیے کچھ نہیں تھا۔ پتہ نہیں یہ ساعتوں کا فسوں ہوتا ہے یا نصیبوں کا لیکھ۔
ایک سہ پہر سب کچھ بدل گیا۔ یاسمین اور زیبی سکینڈ ائیر کے آخر میں کالج کی فیرول پارٹی میں گئی تھیں۔ اس دن صبح سے گنگھور گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ اماں نے بارش کے پیش نظر میاں جی (ڈرائیور) کو جلدی فارغ کر دیا اور مجھ پر ان دونوں کو کالج سے وآپس لانے کی ذمہ داری ڈال دی۔ زیبی نے نذرل الاسلام کی کسی نظم کے ایکٹ میں حصہ بھی لیا تھا۔ میں ان لوگوں کو لینے کالج پہنچا اور پہلی نظر میں تو میں زیبی کو پہچان ہی نہیں پایا۔
مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کس جادوئی لمحے میں وہ چہکتی چڑیا ڈال چھوڑ کر میرے من میں آ بسی۔ اس دن اس نے ریڈ باڈر والی زرد ساڑھی پہنی تھی، نارمل چوٹی گوندھنے کے بجائے جوڑا باندھا تھا اور اس جوڑے میں بہت سارے چمپا کے پھول سجائے تھے اور میں حیران تھا کہ یہ اپنی روزمرہ والی پڑوسن یکایک اپسرا کیسے بن گئ؟ میں اس کو بے خود دیکھتا ہی رہ گیا۔ مجھے ہوش، یاسمین کے کہنی سے جھنجھوڑنے پر آیا۔ میں اپنے آپ سے خوف زدہ ہو گیا تھا۔
گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے بغیر اس کی طرف دیکھے گھر کے اندر چلا گیا۔ میں اسی گمان میں رہا کہ یہ دوبارہ اپنے معمول کے حلیے میں آ جائے گی تو یہ تاثر زائل ہو جائے گا مگر یہ میری خام خیالی تھی۔ وہ تصویر تو لگتا تھا کہ دل کے ساتھ ساتھ پتلیوں پر بھی نقش ہو گئی ہے۔ امتحان سے فراغت کی وجہ سے چچی، زیبی اور قمرن کراچی چلے گئے اپنے بڑے ماموں کے گھر۔
وہ بیس دن ایسڈ ٹسٹ ثابت ہوئے میرے لیے اور مجھے اندازہ ہوا کہ میں تو گلے گلے تک عشق میں دھنس چکا ہوں۔ انہونی ہو چکی ہے۔ اب کوئی جائے فرار نہیں۔ ان دنوں میری بدمزاجی عدیم المثال تھی اور میرے مزاج کے یہ تیور سب کے لیے باعث حیرانی و پریشانی تھے۔ کیونکہ میں کافی مہذب اور نرم گفتار تھا۔ ان دنوں نوکر میری آتش فشانی سے چھپتے پھرتے تھے۔ زیبی کی وآپسی پر میری جان میں جان آئی۔ مجھے نہ جانے کیوں وہم ہو چلا تھا کہ یہ لوگ ڈھاکہ واپس نہیں آئیں گے۔
زیبی کو دیکھ کر اپنی زندگی کا یقین ہوا۔ چاند کی تابناکی دوبارہ محسوس ہوئی، کھانے میں ذائقہ ملا۔ میں حیران تھا کہ کیا محبت اتنی طاقت ور ہوتی ہے کہ محبوب کی دید زندگی کی نوید بن جائے ورنہ جدائی دم گھونٹ دے۔ کیا اعجاز مسیحائی ہے محبوب کے پاس۔ میرے اس ذہنی خلفشار کی وجہ سے میری پڑھائی بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔ کتاب کے ہر صفحے پر زیبی ہوتی تھی۔ بس ایک فلم تھی جو مستقل چلتی رہتی تھی۔
سیاسی صورتحال اس قدر تیزی سے بدل رہی تھیں کہ ہر بات غیر یقینی ہو گئی تھی۔ آپ فضا میں ہراس سونگھ سکتے تھے۔ پچیس مارچ انیس سو اکہتر سے پہلے اردو بولنے والوں کے لیے وحشت و دہشت کی فضا تھی تو پچیس مارچ کو آرمی کے ٹیک اوور کے بعد بنگالیوں کے لیے زمین تنگ تھی اور آسمان بے رحم۔ ان کو پاکستان سے وفاداری کا ثبوت مہیا کرنا پڑتا تھا۔ انسان اپنی پرچھائی پر شک کرتا تھا اور کہیں جائے پناہ نہیں تھی۔
ایک سوڈو امن کا سماں تھا۔ سمجھو ایک ٹائم بم تھا اور اس کی کلک کلک آپکے اعصاب کا امتحان۔ اس گھمبیر صورت حال کو دیکھتے ہوئے بابا صاحب نے اماں اور یاسمین کو سلہٹ بھجوا دیا۔ مجھے بھی کہا سلہٹ جانے مگر دل مضطر در محبوب کیسے چھوڑتا۔ میں نے جانے سے انکار کر دیا۔ اماں کو تو نہیں مگر بابا صاحب کو کچھ کچھ اندازہ تھا کہ ہو نہ ہو میری اس بدحالی کے پیچھے دل ہی کی کارستانی ہے۔
اماں کی سلہٹ روانگی کے دوسرے دن بابا صاحب نے عصر کے بعد مجھے اپنی اسٹڈی میں طلب کیا۔ بابا صاحب کی اسٹڈی گھر کا بہترین حصہ تھی۔ شیشم کی بڑی سی میز اور آرام کرسی اور ٹیک کی لکڑی کے شلف اور ان میں سجے نادر قلمی نسخے اور فارسی، اردو، انگریزی اور بنگالی کتابوں کا بہترین کلیکشن۔ ان کی صندل کی صندوقچی اور قلم دان اسٹڈی کو معطر رکھتے۔ وہ اسٹڈی کب تھی، گوشہ عافیت تھی اور وقت تو با ادب ہو کر اسٹڈی کی دہلیز ہی پر ہاتھ باندھے رک جاتا تھا۔
بابا صاحب نے مجھ سے میرا مسئلہ پوچھا؟
میں کیا بولتا بابا صاحب سے بے تکلفی بھی نہیں تھی۔
بابا نے کہا "مدثر مجھے پتہ ہے کہ معاملہ دل کا ہے"۔