Hurera Se Hooria Tak (1)
ہُریرہ سے حوریہ تک (1)
میں اسکول سے واپسی پر بوا کی خیر خبر لینے اورنگی ان کے گھر چلی گئی۔ گھر کیا تھا بس کچا پکا سر چھپانے کا آسرا تھا۔ یہ بھی غنیمت کے بھلے وقتوں میں بوا کے میاں نے جوڑ توڑ کر کہ یہ چھپر چھاؤں ڈال لی تھی ورنہ بیوگی اور وہ بھی جوان بیوہ، زمانہ میں جو نہ دسا بنتا کم تھا۔ بوا کا امی کے زمانے سے اس گھر میں آنا جانا تھا۔ امی، میری ساس ان کا بہت اکرام کرتی تھیں۔ بوا کے ہاتھوں میں بہت صفائی تھی اور وہ روایتی ملبوسات کی تیاری میں سند کا درجہ رکھتی۔ فرشی غرارہ، شرارہ، آڑا پیجامہ۔
کلی دار کرتے، فراک اور حیدرآبادی لباس کی کٹائی سلائی میں ماہر۔ بہترین ڈیزائنر۔ کسی بوتیک میں ہوتیں تو ہزاروں لاکھوں کماتیں۔ سیدھی سادھی بوا زمانے کے چلن سے نا آشنا، قناعت پسند اور سادہ طبیعت۔ میری بری کے سارے بھاری جوڑے انہی کے ہنرمند ہاتھوں کے تیار کردہ تھے۔
ساس امی کے گزرنے کے بعد بھی اس گھر میں ان کا وہی احترام روا تھا۔ وہ میرے یہاں عموماً اتوار کو آیا کرتی تاکہ ان کی ملاقات عباس، میرے میاں سے ہو سکے۔ عباس کو وہ بابو پکارتی اور عباس بھی ان سے لاڈ اٹھویا کرتے۔ وہ اکثر اورنگی سے عباس کے لیے لال ساگ، چوڑا، ٹپالی گڑ اور کبھی کبھار پٹل بھی لایا کرتیں اور عباس خوشی سے نہال ہو ہو جاتے۔ میرے لیے یہ سوغاتیں بڑی اجنبی سی ہوتیں۔ میری آشنائی چوڑے سے ضرور تھی مگر وہ بھی بچپن کی حد تک۔ پتہ چلا یہ سب مشرقی پاکستان میں شوق سے کھایا جاتا تھا۔ میں نے حیرانی سے اپنے میاں سے پوچھا کہ آپ تو یہیں، اِسی پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں پھر؟
وہ اداسی سے بولے یہ سب میں نے اپنے بچپن میں اپنی نانی کے گھر کھائے ہیں۔ وہ گھر جہاں نانا ابو اور نانی جان کا لا متناہی پیار تھا۔ میں نے ان دونوں کو ہمیشہ مشرقی پاکستان کے لیے بلکتے ہی دیکھا۔ انہوں نے مجھے مشرقی پاکستان کے اتنے قصے سنائے کہ وہ خطئہ زمین میری روح میں بس گیا ہے۔ یہ سوغاتیں مجھے اسی خوب صورت دور میں لے جاتی ہیں۔ میں اپنی نانی کا پہلا اور چہیتا نواسہ تھا۔ اُس زمانے بوا بڑی کامنی اور نکھری نکھری سی ہوا کرتی تھیں۔
بوا، امی سے خاصی چھوٹی ہیں مگر پُر مشقت زندگی اور صدمات کی یلغار نے ان پر گہرے نشان ثبت کر دیے ہیں۔
عباس کی آواز میں غم گھلا ہوا تھا۔
ہاں بھلا میں کیسے بھول سکتی ہوں اس سانحے کو! اس حادثے کے تیسرے دن ہی تو ہمارے گھر ابتسام کی پیدائش ہوئی تھی۔ بوا کے بیٹی داماد بس اسٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑے آپس میں گفتگو میں مصروف تھے کہ ان دونوں کو واٹر ٹینکر کچلتا ہوا نکل گیا۔ اجل بھی کس کس بھیس میں آتی ہے۔ غریب آدمی تھیں سو نہ کورٹ نہ کچہری، بس رو پیٹ کر بیٹھ رہیں۔ بیٹی داماد کا غم، بوا کے میاں کو لے بیٹھا اور وہ دو ہی سالوں میں چٹ پٹ ہو گئے۔ آخری دنوں میں بیچارے غم سے تھوڑے سنک گئے تھے۔ اکثر گھر سے نکل جاتے کہ تبسم سے ملنے جا رہا ہوں۔ بیچاری بوا جانے کہاں کہاں خجل خوار ہو کر انہیں ڈھونڈ کر لاتیں۔ وہ ان کے لیے بہت مشکل دور تھا۔ گھر میں تبسم کی نشانی دو سالہ بیٹی حوریہ، جیسے بوا کلیجے سے لگا کر رکھا کرتی تھیں۔ پھر بوا کے میاں بھی گزر گئے اور بہتے آنسوؤں کی یلغار نے بوا کی بینائی کو بہت متاثر کیا۔ اب باریک کام ان کے بس کا نہیں تھا سو انہوں نے آرائشی سلائی چھوڑ کر تکیے کے غلاف سینا، چادروں کا کنارہ موڑنا اور تھیلے سینا شروع کر دیے پر ان سادہ کاموں کی اجرت بھی بہت معمولی تھی۔
اب تو ان باتوں کو برسوں بیت گئے اور میرا چھوٹا بیٹا ابتسام بھی سنیر کیمبرج کرکے این ای ڈی میں داخل ہو چکا ہے۔
تبسم کی اکلوتی بیٹی حوریہ بوا کے جینے کا سبب مگر اب بوا حوریہ ہی کی وجہ سے حد درجہ متفکر بھی۔ حوریہ سیانی ہوگئی تھی، خوش جمال و خوش خصال گویا گدڑی میں لعل۔ غربت میں تو بیٹیوں کی جوانی آزار اور یہاں تو حسن بھی سوا۔ بوا نے حوریہ کو میٹرک کرا کر گھر بیٹھا لیا تھا کہ کالج بس سے جانا پڑتا اور اب بوا کی بوڑھی ہڈیوں میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ روز بس کے چار پھیرے لگاتیں۔ انہوں نے اپنا سارا گن، ہنر حوریہ کی پوروں میں رچا بسا دیا تھا۔ وہ بہترین سلائی کرتی تھی مگر بوا زمانے سے اتنا ڈری ہوئی تھیں کہ حوریہ کو کسی بوتیک پر کام کرنے کی اجازت دینے کی روادار نہ تھیں۔ میں اکثر اسکول سے اپنی کولیگز کے کپڑے حوریہ سے سلوایا کرتی اور اسے اجرت بھی اچھی دلاتی۔
آج صبح میرے پاس حوریہ کا فون آیا تھا کہ نانی امی کی طبیعت خراب ہے اور آپ کو بہت یاد کر رہیں ہیں۔ سو اسکول سے فارغ ہوتے ہی میں پھل اور مرغی وغیرہ خریدتی ہوئی بوا سے ملنے چلی آئی۔ بوا بدلتے موسم کی زد میں تھیں۔ بیماری سے نڈھال کم مگر حوریہ کی فکر سے ہراساں زیادہ۔ مجھ سے اپنی پریشانی کا ذکر دوہرایا مگر بر بازار میں کب مول ملتے ہیں؟ یہ سنجوگ تو نصیبوں کا لیکھ ہے۔ کب، کہاں اور کس سے سب طے شدہ۔ میں نے کوشش کی، اپنی کولیگز سے بھی ذکر کیا، عباس نے بھی دھیان رکھا مگر بات آگے بڑھتی ہی نہیں تھی۔
حوریہ اچھی سلجھی ہوئی لڑکی ہے۔ شکل صورت، گن، سلیقہ لحاظ مروت سے مرسع۔ اس کی سب اچھی عادت جو مجھے بہت پسند ہے، اس کا جانوروں اور پرندوں سے لگاؤ۔ روٹی کے بچے کچے ٹکڑوں کو چورا کرکے چڑیوں کے آگے ڈالنا اور ایک فالتو روٹی لازمی پکانا تا کہ محلے کی بلیوں کو دے سکے۔ ڈھلتی شام میں اس کے کچے آنگن میں چار چھ آوارہ بلیاں اور منڈیر پر چڑیوں کے جھنڈ ہوتے ہیں۔ اس کا یہ عمل مجھے بہت پسند کہ شاید یہی ہم دونوں میں قدر مشرک بھی۔
میں نے بوا کو مقدور بھر تسلی دی کہ بس اسی تک میری قدرت۔ حوریہ کو تاکید کی کہ مجھے بوا کی خیریت سے برابر آگاہ رکھے۔ میں نے دروازہ بند کرتے ہوئے پلٹ کر بے فکری سے روٹی کا چورا چگتی چڑیوں اور کھانے سے فراغت کے بعد اپنی صفائی میں مصروف بلیوں کے درمیان صحن میں متفکر سی کھڑی حوریہ کو دیکھا، بےساختہ جی سے اس کے نیک نصیبے کی دعا نکلی۔
میں کلفٹن سے آ رہی تھی کہ پل کی چڑھائی پر میری بیچاری پرانی گاڑی ہانپ اور کانپ کر بند ہوگئی۔ چہار جانب سے پیں پاں گونجنے لگی اور اللہ بھلا کرے ایک موٹر سائیکل سوار کا جس نے گاڑی کو ٹھیل ٹھال کر کنارے لگایا اور میں موٹر میکینک کی تلاش میں سرگرداں پھری۔ قسمت اچھی تھی کہ پل اترتے ہی دور ایک موٹر میکینک کی دکان نظر آ گئی۔ لشٹم پشٹم وہاں پہنچی، میکینک کوئی بھلا مانس تھا کہ میری افتاں و خیزا صورت دیکھتے ہی مجھے جلدی سے لوہے کی سال خوردہ کرسی پیش کی اور چھوٹے کو پانی کے لیے آواز دی۔ ایک دس بارہ سال کے بچے نے کولر سے ٹھنڈا پانی نکال کر شیشے کے دھندلے گلاس میں پیش کیا۔ جھجھک کے ایک سیکنڈ بعد ہی میں مارے پیاس کے وہ پانی غٹا غٹ پی گئی۔ اوسان یکجا کیے اور اس شریف النفس میکینک کو ساری صورتحال بتائی اور گاڑی کی چابی اس کے حوالے کی۔
حواس سنبھلے تو دکان کا طائرانہ معائنہ کیا۔ اس شدید گرمی میں اس دکان کی چھت تلے بڑی فرحت بخش ٹھنڈک اور دکان کی بے ترتیبی میں بھی عجیب سی ترتیب تھی۔ چھوٹے نے دکان میں چلتے اکلوتے پیڈسٹل فین کا رخ میری طرف کر دیا تھا۔ اس کی اس مہمانداری نے جی شاد کیا اور میں نے اس سے اس کا نام پوچھا؟
"شمشاد۔ "
اس نے بدستور کام میں منہمک، سر جھکائے جھکائے جواب دیا۔
"تم پنکھے کا رخ اپنی طرف کر لو بیٹا، یہاں دروازے کے پاس اچھی ہوا آ رہی ہے"۔
میں نے پسینے میں شرابور شمشاد سے کہا۔
"رہنے دو اماں، ہم تو عادی ہیں کہ اب گھر کی بجلی بھی کٹ چکی ہے"۔
شمشاد کے جواب نے میرا دل کاٹ کر رکھ دیا اور میں کچھ کہنے جوگے نہ رہی۔ میں خاموشی سے اٹھی اور پنکھے کا رخ اس کی طرف موڑ دیا۔
اب میں نے نوٹ کیا تو مجھے دکان کے ایک قدرے اندھیرے کونے میں پلاسٹک کے اسٹول پر معقول حلیے بشرے میں ایک شخص بیٹھا نظر آیا جو انتہائی انہماک سے چھیچڑا کھاتے بلونگڑے کو دیکھ رہا تھا۔ ورک شاپ میں بلونگڑے کی موجودگی یقیناً غیر متوقع و حیرت انگیز تھی۔ میں نے ہنستے ہوئے، بلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شمشاد سے پوچھا تم لوگ یہ شوق بھی پالتے ہو؟
شمشاد نے کولر سے المونیم کے پیالے میں پانی نکال کر بلی کے آگے رکھتے ہوئے کہا یہ ان صاحب کا مہمان ہے۔ اس نے اسٹول پر بیٹھے شخص کی طرف اشارہ کیا۔
یہ کہاں مل گیا آپ کو؟ میں نے حیران ہوتے ہوئے ان سے پوچھا؟