Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sana Shabir
  4. Khuda Kon Hai?

Khuda Kon Hai?

خدا کون ہے؟

عشق پر تخیلات کا زور نہیں چلتا، کیونکہ تخیلاتی قوت عشقِ محترم کی مرید ہے۔ جس طرح حساب میں صفر کی کوئی قدر نہیں ہوتی مگر سارا حساب صفر کا محتاج ہے۔ درحقیقت قدر و قیمت ساری کی ساری صفر کی ہی ہے۔ ایک سے سو تک کی گنتی میں کوئی ایسا ہندسہ ایجاد ہی نہ ہو سکا جو صفر کی قدر کو ماپ سکتا جبکہ سو کو ہزار و کروڑ بننے کے لیے صفر کے سامنے ہی جھکنا پڑتا ہے۔ تو صفر کی کوئی قیمت طے ہی نہیں کر سکتا، یہ انمول ہے۔

تخیل تو ظاہر کی شبہیہ ہے اور جو نظر نہیں آتا ہے اصل قدر تو اس کی ہی ہے۔ جو نظر نہیں آتا اس کا معلوم نہیں ہوگا تو جو نظر آتا ہے اس کی قیمت کا تعین کیسے ہوگا؟

جو نظر نہیں آتا لیکن سب وہی ہے، وہ درحقیقت عشقِ محترم ہے۔

دنیا کی تمام تر سائنس اور اس کی ایجادات محض نظر آنے والی اور وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو جانچتی ہیں۔ وہ نظر نہ آنے والے عشق کو ماپنے سے قاصر ہیں۔ عشق سائنس کے لیے ہمیشہ ناقابلِ تسخیر رہے گا۔ عشق سائنس کا دشمن نہیں ہے، سائنس کا وجود عشق کے بنا محض ایک ہائپوتھیسز کا ڈھیر ہے جو کسی لائبریری میں پڑے پڑے دیمک کی خوراک ہو جائے۔ یہ عشق کی ہی رمز ہے جو سائنسدان کو تلاش عطا کرتی ہے۔ تلاش کیا ہے؟

ت لا ش یعنی تیرا لاشعور، اور سائنس تو شعور سے زیادہ لاشعور کی طاقت پر ایمان رکھتی ہے۔ لاشعور کیا ہے؟ جو تمہارے شعور کا مالک ہے مگر تمہارا شعور اسے ماپنے سے قاصر ہو۔ صفر، عشق، لاشعور۔ دیوانوں کو عشق ہی خدا لگتا ہے، خدا عشق ہی تو ہے۔ سامنے آتا بھی نہیں ہے اور ہر سو وہی ہے۔ خود، خدا، خدمت، خوشی یہ سب الفاظ مختلف نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں ایک دوسرے کے اخذ و ماخوذ ہیں۔

سمجھنے والے کعبہ کو خدا کا گھر سمجھتے ہیں اور پھر سیاہ مقدس ڈبے میں خدا کو مقید پا کر اسے بت بنا لیتے ہیں۔ وہ تو عشق ہے، اپنی ذات میں منفرد اور لامحدود۔ ہائے کہ اللہ تیری یہ سادہ سی دکھنے والی پیچیدہ چالیں کہ ہم خانۂ دل سے بتوں کو پاک کرنے کی بجائے حرم میں تیرے نام کا بت سجا آتے ہیں۔ وہ عشق ہے، ہر سو رواں دواں، جسے سکوت نہیں، جسے موت نہیں، وہ بحرِ بے کراں ہے، جو اربوں آدمیت سے لے کر اک چیونٹی کے دل میں بھی بیک وقت گھر کئے ہوئے ہے وہ طاقت(force) خدا ہے۔

ہم ناداں اپنے تخیل کے پردے پہ اس کا جسم تراشتے رہتے ہیں اور وہ جسم سے بےنیاز ایک روحِ لامحدود ہے جو ہر جسم میں دوڑتی پھرتی ہے۔ جسے خدا نظر نہیں آتا اس کے سینے میں موجود دل کو حرارت کی ضرورت ہے۔ اور وہ حرارت بھی عشق ہے، وہ انکار بھی تلاش ہے، وہ تلاش بھی عشق ہے۔ وہ عشق ہی خدا ہے۔ صفر، عشق، لاشعور، خود، خدا، خدمت، خوشی ان سب کا تعلق تمہاری روح سے ہے، اور تمہارا خدا تمہارى روح میں ہے۔ لفظ (خدا) خود کچھ غلط فہمیوں کا شکار ہے۔ چونکہ ہر ثقافت میں دیوتاؤں کے بارے میں مختلف معبود اور نظریات ہوتے ہیں، اس لیے یہ لفظ اتنا عام ہے کہ کوئی حقیقی معنی نہیں رکھتا۔

یونانی پینتھیون کے دیوتاؤں اور دیویوں کے نام ایفروڈائٹ، اپولو، ایتھینا، ہیڈز، ہیرا اور زیوس تھے۔ ان کی ذاتی تاریخیں، طاقتیں اور خامیاں تھیں۔ رومی دیوتاؤں اور دیویوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ جدید ہندو دیوتاؤں کو لکشمی، وشنو، شیو اور برہما جیسے ناموں سے پوجتے ہیں۔ کچھ بحث کرتے ہیں کہ آیا دیوتاؤں کی اکثرتیت کی وہ تعظیم کرتے ہیں جس کا حوالہ بہت سے الگ الگ دیوتاؤں یا کسی ایک اعلیٰ ہستی کے مظہر سے ہے۔ مسلمان اللہ کے سامنے جھکتے ہیں جسے اللہ کہتے ہیں۔ مسیحی خُدا باپ، خُدا بیٹا، اور خُدا پاک روح کی تعریف میں عقیدے پڑھتے ہیں، جسے وہ تثلیث کہتے ہیں (اس کے بارے میں مزید بات کریں گے)۔

سَوَّیۡتُہ، وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہ، سٰجِدِیۡنَ ﴿29﴾ (الحجر)

"پھر جب میں اس کی نوک پلک درست کر لوں اور پھونک دوں میں اس میں اپنی روح میں سے، تو گر پڑنا اس کے لیے سجدے میں۔ "

اور روح کی کبھی بھی موت نہیں ہو سکتی، جسم کی موت کے بعد روح جسم کی قید سے نکل جاتی ہے لیکن مرتی نہیں ہے، روح پھونکنے والا اس روح کو واپس بلا لیتا ہے یا کسی اور آزاد جگہ منتقل کر دیتا ہے۔ جسم تو مادہ ہے، مادہ کی حالتیں تبدیل ہو سکتی ہیں، ہمارا جسم ہزار سال بعد شاید کسی کی موٹر گاڑی کی ٹنکی کا تیل بنا ہوگا لیکن روح (spirit) کی حالت تو تجریدی (abstract) ہے اس کی حالت تبدیل کرنے کے لیے سائنس قاصر ہے، اسے تو تجرید اولیٰ عشقِ محترم ہی سمجھے۔

Check Also

Final Call

By Hussnain Nisar