1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sana Shabir/
  4. Khuda Ki Talash

Khuda Ki Talash

خدا کی تلاش

آپ کا باطن وہ ہے جو آپ واقعی اندر سے ہیں۔ اپنے باطن کو جاننا اپنے مقصد، اپنی اقدار، اپنے تصورات، اپنے محرکات، اپنے مقاصد اور اپنے عقائد کو جاننا ہے۔ ایسا نہیں جیسا کہ آپ کو دوسروں نے بتایا ہے، بلکہ جو آپ نے اپنے لیے دریافت کیا ہے۔ اسی طرح خدا کا وجود ہے۔ جو ہر پل محسوس ہو تا ہے۔ انسان جو ہوش رہتا ہے اور آگاہی کی مار سہہ رہا ہے، اس کی روح کے تانے بانے خدا کی کھوج میں بندھے ہوئے ہیں۔

دھرم کو شاید یہ بات گوارا نہیں ہے کہ خدا کی کھوج لگائی جائے کیونکہ دھرم آنکھیں موند کر رٹے رٹائے خدائے بالغیب پر ایمان رکھنے کی بات کرتا ہے۔ مگر انسان کی خالص فطرت خلوت و جلوت میں اس کے نظارے مانگتی ہے۔ تو خدا کی کھوج لگانا گناہ کے زمرے میں آتا ہے اور نہ ہی یہ ایمان کی کمزوری کا سبب ہے۔ بلکہ یہ سینے میں ابلنے والا وہ شدید درد ہے جس کی ایک ایک ٹھیس انسان کو خدا کی تلاش پر اکساتی ہے۔

یہی تلاش تو رحمت ہے کیونکہ اس مادی دنیا میں جب ہر دوسرا شخص مادی فوائد کے حصول کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے وہاں اسی دنیا کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بھی کسی کے دل میں خدا کی کھوج کا ذوق پیدا ہو جائے تو یہ رحمت ہی ہے۔

دھرم کہتا ہے کہ خدا نظر نہیں آتا مگر عشق کہتا ہے کہ خدا کہاں نظر نہیں آتا؟

جب انسان کے دل میں آگہی کے در کھلتے ہیں تو وہ اپنے ہی وجود میں موجود ایک ایسی دنیا سے متعارف ہو جاتا ہے جو ہماری ظاہری دنیا سے کئی گنا وسیع ہے۔

جوں جوں وہ اپنے اندر کی دنیا سے آشنا ہوتا ہے اور اپنے ہی اندر کے حیرت کدے سے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں تو پھر اس پر دریافت کا جنون سوار ہو جاتا ہے۔

وہ اس بڑی دنیا کا اکلوتا وارث اپنی سلطنت کو دیکھنے کے لیے سرپٹ گھوڑے دوڑاتا ہے۔ جب وہ اپنی ذات کے کسی ایک کنارے پر کھڑے ہو کر دوسرے کنارے تک دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی سیارے کی مخلوق نہیں ہے وہ درحقیقت خود ایک سیارہ ہے۔ اس کی اپنی ذات ایک جہان ہے، جس میں کہکشائیں ہیں، کئی سمندر ٹھاٹھیں مارتے ہیں اور کئی صحرا پیاسے کروٹیں لے رہے ہیں۔ وہ جب خود کو اتنی بڑی جاگیر کا اکلوتا وارث پا لیتا ہے تو اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوتے ہیں، اور ہر سوال کا ایک جواب ہوتا ہے اور ہر جواب سے ایک اور سوال اٹھتا ہے اور ہر اٹھنے والا سوال ایک طوفان لاتا ہے اور اس طوفان کے بعد انقلاب آتا ہے۔

وہ اپنی ذات میں موجود طوفانوں سے لڑ لڑ کر تھک ہارتا ہے اور جب اسے اس وسیع جاگیر میں اپنا آپ تن تنہا محسوس ہوتا ہے تو پھر وہ آگہی کے اس مرحلے پہ آن ٹھہرتا ہے جہاں پر "اقراء" کا حکم آتا ہے۔ اور یہ حکم اقراء ہی تو انقلاب ہے، ایک تحریک ہے، غور کرنے کی، سمجھنے کی، پڑھنے کی۔ درحقیقت خود کو پڑھنے کی، خود کو سمجھنے کی۔ اور جب انسان اقراء کو سمجھ لیتا ہے تو پھر وہ اپنے اندر اور باہر کی وسیع دنیا کے مالک کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی درختوں کے تنوں پر موجود نقش و نگار میں، کبھی پرندوں کی بولیوں میں، کبھی ڈی این اے کے وراثتی اثرات میں تو کبھی الہامی کتابوں میں، غرض کہ وہ ہر شے میں خدا کو ڈھونڈتا پھرتا ہے، یہ وہ طلب ہے جو الوہی ہے جو لگانے والا خود ہی مطلوب ہو جاتا ہے۔ جب وہ اس کو کو اپنی ہی تلاش میں آتشِ نمرود پہ لٹا دیتا ہے اور وہ سر تسلیم خم کر لے تو پھر اس آگ کو اس پہ گلزار کر دیتا ہے۔ اور وہ گلزار اس کے وجود میں موجود قلب کو ریشم کر دیتا ہے۔

پھر وہ ریشم ہوئے دل کے ساتھ خدا کا ہر پل دیدار کرتا ہے۔ خدا تو ایک لامحدود قوت ہے جو اس کائنات کے ذرے ذرے کو جکڑے ہوئے ہے، کوئی ایک چہرہ اس قوت سے باہر نہیں ہے۔ تو پس خدا کا دیدار کرنے کےلیے وہ انسان کبھی خود میں جھانک لیتا ہے اور کبھی ظاہر کی دنیا میں۔ پھر خدا اسے ہر سوں نظر آتا ہے۔ خدا کو صرف غیب سمجھیں گے تو پرستش کرتے رہیں گے اور خدا کو ہر پل حاضر سمجھیں گے تو اسے ایک عالمگیر قوت پائیں گے جو آپ کے من کی دنیا کو انرجی دے گی۔ وہ ہر پل ہر دل میں حاضر ہے۔ بس اپنا دل صاف رکھنا ہے اور دوسرے دل کا درد اپنا سمجھنا ہے، اور دل توڑنے کو کفر سمجھنا ہے۔ پھر وہ تمہیں ہر جگہ ملے گا مگر اس کو پانے کےلیے خود کو ڈھونڈنا شرط ہے۔

کچھ لوگ رویا دیکھ سکتے ہیں یا خدا کی آواز سن سکتے ہیں۔ دوسرے شاید کچھ نہ دیکھ سکیں اور نہ سنیں — لیکن امن اور خوشی کے احساسات کا تجربہ کریں جو الفاظ سے باہر ہیں۔ آپ کسی گیت یا کلام کے ذریعے خدا کی موجودگی کا تجربہ کر سکتے ہیں جو روح ذہن میں لاتی ہے۔ یہ کسی دوست یا اجنبی کے ساتھ پیشگی ملاقات کے ذریعے ہوسکتا ہے۔

Check Also

Kachhi Canal Ko Bahal Karo

By Zafar Iqbal Wattoo