Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sabiha Dastgir
  4. Dil To Bacha Hai

Dil To Bacha Hai

دل تو بچہ ہے

نت نئی خواہشات کے جال میں الجھا آدم، کبھی ان کے پورا ہونے پر جشن مناتا ہے تو کبھی ان کے ادھورا رہ جانے پر رنجیدہ۔ کبھی ان کو حسرت بنا کر دل کے کسی کونے میں دفن کرتا ہے۔ تو کبھی ان کی تکمیل کی تمنا دل میں لیے اس جہان فانی سے رخصت ہوتا ہے۔ کبھی قسمت اور حالات کی یاوری سے دبی ہوئی خواہش با مراد ہو کراس کی جھولی میں آ گرتی ہے۔ کبھی بہت جتنوں سے پوری کی گئی کوئی تمنا بےمعنی اور بے وقعت ٹھہرتی ہے اور ہم کسی نئی خواہش کے غلام بن جاتے ہیں۔ مال و املاک، خاندان، عزت، شہرت، نام مرتبہ، آسائشات، ہمیشہ جواں اور خوبصورت نظر آنا یہ سب انسانی خواہشات ہیں۔ جن سے انکار ممکن نہیں اور انہیں حاصل کرنے کی وہ تگ و دو بھی کرتا ہے اور وہ اسے فعال بھی رکھتی ہیں۔

کبھی چاہے جانے کی تمنا تو کبھی کسی دل کا جیتنا مقصود۔ کبھی کسی کی محبت میں خود کو مٹا دینے کا جنون اور اس میں دیوانے جان سے بھی گزرتے ہیں۔ جہاں تمنا عقل و خرد سے بیگانہ کر دیتی ہے۔ کبھی دل کہتا ہے بہت سن لی سب کی اب صرف میری سنو۔ دنیا کو ٹکے پر رکھو اور کر گزرو، جو کرنا چاہتے ہو۔ کہیں عمر بھر کی رفاقت اور پھر بھی خواہشیں تشنہ، پیار کے دو بول سننے اور ستائش کی تمنا میں عمررائیگاں ہوگئی۔ کبھی آئیڈیل نہ ملا، کہیں من چاہا پا بھی لیا تو دل ہی نا قدری پراتر آیا۔ ہر تڑپ اور جنون بس حاصل ہونے تک ہی تھا۔ کبھی ہر خواہش، ہر نعمت سے بے نیاز اسی حضرت انسان کا دل کہتا ہے کہ یہ سب کچھ تمہارے لئے نہیں ہے، تیری منزل کہیں اور ہے۔ جہاں دنیاوی آسائشات، مال و متاع، نام مرتبہ، شان و شوکت سب بے وقعت ہیں۔ جہاں من کا سکون اور خوشی معنی رکھتی ہے۔ جب آپ سمجھ لیتے ہیں کہ آپ چاہ کر بھی ہر ایک کو خوش نہیں رکھ سکتے۔ آپ سمیت ہر انسان میں کچھ کمیاں اور خامیاں ہیں۔ یہیں سے مادیت کا سفر ختم اور خود شناسی کا سفر شروع ہوتا ہے۔

خواہشیں ہمارے دل و دماغ کو متحرک رکھتیں ہیں۔ ان کے بغیر زندگی یکسانیت اور بوریت کا شکار ہو جاتی ہے۔ لیکن ان کی بنیاد حقیقت پسندی پر ہونی چاہیے۔ خواہش کرکے ہاتھ پر ہاتھ دھرے ان کے پورا ہونے کا انتظار کرنا خود کو دھوکہ دینا ہے۔ اپنے خواب کو حقیقت بنانے والے لوگ خیالی دنیا کے بجائے عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ اکثر لوگ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے پر کسی دوسرے کو مو رد الزام ٹھہرا دیتے ہیں۔ یعنی اپنی ناکامی کا ملبہ خود اٹھانے کے بجائے کسی دوسرے کے کندھوں پر ڈال دیا جائے۔ فی زمانہ جواں اور جاذب نظر ہونے کی خواہش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وقت کا پہیہ ہمیشہ آگے کی طرف جاتا ہے، اس حقیقت کو بخوشی تسلیم کرنا چاہیے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس سچ سے فرار نے کئی خوش نما چہروں کو بگاڑ دیا ہے۔ سیلف کئیر اور پرکشش نظر آنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ لیکن اس خواہش کا جنون میں بدل جانا خطرناک ہے۔ وقت کا آئینہ ہمیں سب کچھ صاف صاف دکھا دیتا ہے، جس کے بعد کسی مبالغہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ خواہشیں پوری کرنے سے اگر ہمیں خوشی ملتی ہو تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں لیکن اگر ان کو پورا کرنے کا مقصد کسی اور کو نیچا دکھانا یا ان کا دل دکھانا ہو، تو یہ خود پرستی ہے۔

کیا خواہشات کی غلامی زندگی کو بے سکون کر دیتی ہے؟ لیکن خواہشات کے بغیر بھی تو زندگی میں کوئی رنگ کہاں؟ خواہشات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اور انتہا کہاں پر ہوگی؟ یہ انسان خود ہی ہے جسے ان حدود کا تعین کرنا ہے۔ حاصل اور لاحاصل کی یہ دوڑ کبھی ہمیں تھکا بھی دیتی ہے۔ اس دوڑ میں کبھی انسان اپنے بہت سے قیمتی رشتے اور دوست بھی گنوا بیٹھتا ہے۔ محلات جیسے گھروں میں موجود تنہا لوگ اس بات کا ثبوت ہیں۔ ان کے مہنگے ترین بستر بھی ان کی پر سکون نیند کی ضمانت نہیں، بلکہ اس کے لئے وہ خواب آور ادویات کے محتاج ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مادی چیزوں سے جڑی خوشیاں عارضی ہوتی ہیں۔ کوئی بہت قیمتی چیز کچھ لمحوں یا کچھ وقت کے لئے خوشی دے سکتی ہے، لیکن پھر کچھ نیا ہماری توجہ اور کششش کا باعث بن جائے گا۔ یہ ترتیب زندگی کے ساتھ چلتی رہے گی۔ مادیت کے انبار میں گھرے لوگ بھی خوشی اور سکون کے متلاشی دکھائی دیتے ہیں

غریب شہر تو فاقوں سے مر گیا عارف
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی

اپنی آسائشوں اور خوشیوں میں ہمیشہ خاموشی اور چپکے سے ان لوگوں کو شامل کرتے رہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو۔ یہی ہمارے دین کا حکم بھی ہے۔ کبھی اپنی خواہشات کے سرکش گھوڑے کی لگامیں کھنچ کر کسی ضرورت مند اور محتاج کا دامن بھر دیں۔ صرف مالی مدد نہیں بلکہ کسی کے پاس بیٹھ کر چند گھڑیاں اس کو سن لیجئے۔ یعنی آپ کا وقت ان کے لئے بہت اہم اور مدد گار ہو سکتا ہے۔

اگر آپ نے کڑی محنت سے کچھ حاصل کیا ہے تو آپ کو اس کی قدر کرنا بھی آنا چاہیے۔ پہلے اسے سنبھا لیں۔ اسی طرح آپ نے اگر اپنی محبت کو فتح کر لیا ہے تو اس کی قدر اور تجدید بھی ضروری ہے۔ جو لمحہ موجود میں آپ کے پاس ہے، پہلے اس کے لئے شکرگزار ہوں۔ اس پر خوشی اور قناعت آپ کو بے چین نہیں رکھے گی۔ آپ کے نصیب کا آپ کو مل کر رہے گا، لیکن اس کو پانے کی دوڑ میں حاصل کی نہ قدری نہ کریں۔

اگر سب کچھ ہونے کے باوجود بھی من خالی لگے تو شاید اس کا مطلب ہے کہ آپ خود کو نہیں پہچانتے۔ آپ یہی نہیں جانتے کہ آپ کو خود سے اور دنیا سے کیا چاہیے؟ ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی خواہشوں کو مادی چیزوں سے جوڑ تو رہے ہیں لیکن آپ کی منزل کہیں اور ہے؟ اور اس منزل تک آپ کو کوئی اور نہیں بلکہ آپ کی خود شناسی ہی لے کر جائے گی۔

Check Also

Ahthra, Jinnat Ki Jhapat Aur Pir Sahab

By Tahira Kazmi