Saturday, 26 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raza Ali Khan
  4. Aeeni Tarameen Aur Insaf

Aeeni Tarameen Aur Insaf

آئینی ترامیم اور انصاف

چرچل سے جنگ عظیم کے موقع پر کسی نے پوچھا کہ "کیا ہم جنگ جیت جائیں گے؟" چرچل نے سوال کرنے والے سے پوچھا کہ "کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں؟" سوال پوچھنے والے نے جواب دیا بالکل تو چرچل نے جواب دیا کہ "پھر ہم جنگ جیت جائیں گے"۔ اس ایک سوال کا جواب اس نے اس بناء پر دیا کہ جب ملک میں انصاف کا بول بولا ہو تو ہر ناممکن کام ممکن ہو جاتا ہے۔

چرچل کا یہ جواب آج بھی لکھنے پڑھنے والوں کی زبان پر آتا ہے، کسی بھی معاشرے میں انصاف اس کی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ انصاف کے بغیر معاشرے ترقی نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی ملک و قوم ترقی حاصل کر سکتی ہے، انصاف ہی انسان کے اندر اخلاقیات، اقدار اور روایات کو قائم و دائم رکھتا ہے۔ اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ہو سکتا کہ کوئی قوم یا ملک ترقی حاصل کر سکے۔

ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام گزشتہ ستر سالوں سے انصاف کے نام پر من پسند فیصلے کرتا رہا حکمران عدالتوں میں اثر انداز ہوتے رہے اور آج تک ہورہے ہیں۔ اپنی مرضی کی عدلیہ اور ججز ہر حاکم وقت کی خواہش رہی ہے تاکہ کوئی بھی فیصلہ اس کے خلاف نہ آسکے، یہی وہ ستم ظریفی ہے جس کی وجہ سے آج ہمارا عدالتی نظام دنیا کے 139ویں نمبر پر موجود ہے۔

آپ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل دیکھ لیں یا حالیہ معاملات آپ کو ہر چیز یکسان نظر آئے گی اس میں رتی برابر بھی فرق محسوس نہیں ہوگا ہر عمل حکمرانوں کی ذات سے وابستہ ہے ان کے حالیہ بیانات اس کی عکاسی کر رہے ہیں۔ اپنی اس سوچ اور ترجیحات کو یہ عملی جامعہ پہنانے کے لیے ہر وہ عمل کرینگے جہاں ان کے مفادات پوشیدہ ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہمارے حاکمین نے وہ کردار ادا کیا جو شائد اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے تھا انہوں نے اپنے اختیارات کو استعمال تو کیا اور کرنا بھی چاہیے کیونکہ آئین پاکستان انکو حق دیتا ہے وہ کسی بھی قسم کی قانون سازی اور دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئین سازی کر سکتے ہیں۔

آئین کا یہ حق ہمارے حاکمین نے استعمال کرکے عدلیہ کے کردار کے حوالہ سے ترامیم کی جس کو آجکل ہم 26ویں آئینی ترامیم کہہ رہے اور سن رہے ہیں۔ اس آئینی ترامیم کو جس افراتفری اور جلد بازی میں منظور کیا گیا وہ کسی بھی اچنبھے سے خالی نہیں ہے آپ اس بات سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ 21 اکتوبر کی رات کو صبح فجر کے وقت تک اسمبلی کا سیشن چلتا ہے یہ سیشن عوام کے مفادات کے چل رہا تھا یہ میرا سوال ہر پڑھنے والے سے ہے؟ اگر تھا تو اس میں ایک عام شہری کو کیا حاصل ہوا؟ ایک عام شہری کو اس آئینی ترامیم سے کیا فوائد حاصل ہونگے؟

اس کا جواب وہ اپنے دل سے پوچھ سکتے ہیں، میں صحافت کا ایک ادنیٰ کا لکھاری ہوں میں نے اپنی زندگی میں نماز فجر کے وقت اسمبلی میں ایسے بزرگ اور عمر رسیدہ عوامی نمائندگان کو ہشاش بشاش نہیں دیکھا جو اس آئینی ترامیم کو منظور کروانے کے لیے موجود تھے۔ یہ بزرگان کبھی نظروں کے سامنے بھی نہیں آئے۔ کیونکہ یہ ایوان نمائندگان دراصل اپنے مفادات کے لیے اکٹھے ہوئے تھے اور جو شاباشی وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف، بلاول زرداری، خواجہ آصف، مولانا فضل الرحمٰن سمیت دیگر لوگ ایک دوسرے کو دے رہے تھے وہ حقیقت میں ایک دوسرے کو ہی دے رہے تھے جو اپنے مقاصد میں کامیاب ہو چکے تھے۔

آپ اس آئینی ترامیم کو غور سے پڑھیں اس آئینی ترامیم سے ایک عام فرد کا کوئی لینا دینا ہے لینا دینا صرف ان افراد کا ہے جو ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کو کنٹرول کرنا موجودہ حالات میں سب سے زیادہ ضروری ہے، اس آئینی ترامیم سے عام آدمی کا نقصان ہوا وہ کس طرح ہوا ہے وہ دیکھنے اور پڑھنے کے قابل ہے۔ اگر آپ لوگ یہ تصور کر لیں یہ ترامیم واقعی ہی عوام کے لیے کی گئی ہے، جیسا کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ عدالتی نظام کی بہتری کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا اور عام لوگوں کو انصاف کی بروقت اور تیزی ترین فراہمی کے لیے ترامیم لائی جا رہی ہیں تو میں ان کی صرف ایک بات سے متفق ہوں اور وہ صرف تیز ترین والی بات ہے جس تیزی اور سرگرمی سے بلاول زرداری دوڑ دھوپ کر رہے تھے اور ان کے بیانات سے جو چیزیں آشکار ہورہی تھیں وہ واضح اشارہ تھا وہ آئینی ترامیم کو جلدی منظور کروانا چاہتے ہیں اور حکومت نے جس انداز کے ساتھ آئینی ترامیم کو منظور کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔

خیر بات ہو رہی تھی آئینی ترامیم میں عام شہریوں کے مفاد کی اور تیز ترین انصاف کی اس وقت پاکستان کی مختلف جیلوں میں نوے ہزار کے لگ بھگ قیدی مقید ہیں، ان قیدیوں میں ہر طرح کے جرائم کے ملزمان اور مجرم قید ہیں جن میں یقیناً بیشتر بے گناہ بھی ہونگے اور قصور وار بھی لیکن اس وقت نچلی عدالتوں میں تقریباََ 25 لاکھ کے قریب مقدمات ہیں اور جن میں سب سے زیادہ مقدمات صوبہ پنجاب میں پندرہ لاکھ کے قریب ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ نچلی عدالتوں میں جہاں انصاف کے حصول کے سال ہا سال لگ جاتے ہیں وہیں ہائی کورٹ میں دائر اپیل لگنے کا وقت بھی دو اڑھائی سال تک پہنچ جاتا ہے اور وہاں بھی کیس کی مدت کے تعین کا علم نہیں ہوتا اس طرح سپریم کورٹ جہاں 58 ہزار کے قریب کیسز ہیں وہاں پر ہائی کورٹ کے فیصلے کی اپیل لگنے مین چار سے پانچ سال کا وقت لگ جاتا ہے، یہ عام شہریوں کے مقدمات کی حالت ہے۔

اس آئینی ترامیم میں ایک شق ایسی ہے جس کو پڑھ کر میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے اور یقین کریں میں اس شق سے اس قدر دل برداشتہ ہوا کہ میں الفاظ میں آپ کو بیان نہیں کر سکتا وہ شق یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی فیس پچاس ہزار سے بڑھا کر "دس لاکھ" کر دی گئی ہے "جی دس لاکھ روپے" کر دی گئی آپ اس بات سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک غریب جو اپنی پوری زندگی کی جمع پونچی وکیلوں اور عدالتی چکروں میں لگا دیتا ہے وہ اپنے بھائی بیٹے کے انصاف کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل کے لیے پہلے دس لاکھ روپے اکٹھے کرئے گا پھر وہ اپیل لگے گی۔

ایسے انصاف کی فراہمی کونسے ممالک میں ہے حالانکہ ہمارے ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے نمائندگان ہمیں امریکہ اور یورپ کے ممالک کی مثالیں دیتے ہیں۔ میں ان مثالوں کو درست تسلیم کرتا ہوں اور مانتا ہوں کہ وہاں آئینی عدالتیں موجود ہیں لیکن کیا ان جیسا انصاف آجکل ہمارے ملک میں کسی شخص کو نصیب ہو سکا ہے۔ یہ سوال ہمیں اپنے ہر نمائندے سے پوچھنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ انصاف کی فراہمی کے لیے ہمیں کیا کردار ادا کرنا چاہیے جب تک ہم انصاف کو ایک شہری کی دہلیز تک نہ پہنچا دیں اس وقت تک انصاف کے تقاضے مکمل نہیں ہوتے۔

انصاف ایک واحد راستہ ہوتا ہے جو کسی بھی شخص کا بنیادی حق ہوتا ہے اور اس کے اس حق کو ادا کرنا ہر حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی کیونکہ ریاست اپنے تین ستونوں پر کھڑی ہے جس کا ایک ستون عدلیہ بھی ہے، اس بات میں شک نہیں ہونا چاہیے کہ ماضی میں ہماری عدلیہ سے ایسے فیصلے ہوئے ہیں جو کسی بھی صورت انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا بلکہ پسند و ناپسند کی بنیاد کیے گئے فیصلوں سے ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی اور آج ہم جس موڑ پر کھڑے ہیں وہ ہم سب کے لیے سوچنے اور سمجھنے کے قابل ہے۔

آپ اس بات کو تصور کریں اگر ایک غریب اور سفید پوش باپ کے پاس اپنے بے گناہ بیٹے کے لیے دس لاکھ روپے نہ ہوں تو وہ کیا کرئے گا کیا پوری زندگی کے لیے اپنے بیٹے کو جیل کا ایندھن بنا دے گا، وہ کس طرح اتنی بھاری رقم اکٹھی کرئے آپ اس بات کا جواب اپنے ضمیر سے پوچھیں، کیا حکومت نے اس آئینی ترامیم میں عوام کو کوئی فایدہ دیا ہے یقیناً نہیں دیا بلکہ انہوں نے انصاف کو اس قدر مہنگا کر دیا ہے جو غریب کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے اس طرح کے حکومتی فیصلے سے انصاف کی فراہمی یقینی ہو سکتی ہے قطعاً نہیں ہو سکتی۔ دوسرا آئینی بینچ بنانے سے سپریم کورٹ میں اب ہر کیس آئینی بینچ میں جائے کیونکہ ہمارے آئین میں انسانی حقوق کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی اور کوئی ملزم آئین کے آرٹیکل دس کے تحت فیر ٹرائل کا حق نہ ملنے کا دعویٰ کرکے اپنا کیس آئینی بینچ میں بھیج دے گا۔

اس لیے حکمران اتحاد کو چاہیے کہ وہ اس آئینی ترامیم میں جو سقم رہ گے ہیں ان کو دور کرنے کے لیے ستائیسویں آئینی ترامیم لیکر آئیں اور چھوٹی عدالتوں سمیت ہائی کورٹس میں ججز کی کمی کو دور کریں، آئین میں ہائی کورٹ کو اپیل سننے اور فیصلہ کرنے کی مدت کا تعین کیا جائے ساتھ ہی دس لاکھ روپے کی آئینی ترامیم کو ختم کرئے اور معزز سپریم کورٹ سے التماس کی جائے کہ وہ فوری انصاف کی فراہمی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرئے تاکہ انصاف کی فراہمی میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو سکیں اور فوری و دیرپا انصاف ہر فرد کو مہیا ہوسکے۔

Check Also

Aeeni Tarameen Aur Insaf

By Raza Ali Khan