Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Burhan Ul Haq/
  4. Adam Bardasht Ki Wajuhat o Nataij

Adam Bardasht Ki Wajuhat o Nataij

عدم برداشت کی وجوہات و نتائج

معاشرے کی عمارت اخلاقیات، تحمل، رواداری اور پیار و محبت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے اور جب یہ خصوصیات معاشرے سے چلی جائیں تو وہ معاشرہ تباہی و بربادی کی طرف سرعت سے گامزن ہو جاتا ہے۔ انسانی معاشرے میں بشر کی عزت و توقیر احترام قطعی طور پر لازم ہے۔ جب کسی شخص، قوم، نسل اور قبیلے کی تضحیک اور استہزا و مذاق کیا جاتا ہے، عدم برداشت سے کام لیا جاتا ہے تو ردعمل کے طور پر وہاں نفرت، حسد، بغض و انارگی اور عناد و دشمنی جنم لیتی ہے۔

جو معاشرتی زندگی کو لڑائی جھگڑے کی طرف گامزن کر دیتا ہے۔ غرور و تکبر دوسروں کی عزت نفس کو پامال کرنے کا دوسرا نام ہے۔ متکبر شخص اپنی اصلاح پر توجہ منعطف کرنے کے عوض دوسروں کی اصلاح کے لئے کمر بستہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی انا کو شکست دینے کی بجائے دوسروں کی انا کو للکارنے میں مصروف رہتا ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے دوسرے کے گریبان کو پکڑنے اس کو تار تار کرنے میں مگن رہتا ہے اس طرح وہ معاشرے کو ٹھیک کرنے کی بجائے بگاڑنے کا مؤجب بنتا ہے۔

یہی گمبھیر ناگفتہ بہ صورت حال ہمارے معاشرے کو بھی درپیش ہے جہاں عدم برداشت کا رجحان اس تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اس کے باعث تشدد پسند سرگرمیاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ لوگوں میں قوت برداشت نہیں، محض چھوٹی چھوٹی باتوں پر تشدد پہ اتر آتے ہیں۔ متشدد واقعات اکثریت میں دیکھنے میں آ رہے ہیں، اگر سوشل میڈیا کو دیکھا جائے تو سوشل میڈیا پر تو اس حوالے سے کئی وڈیوز بہت تیزی سے وائرل ہوتی ہیں۔

چند روز پہلے ایک چھوٹی سی بچی کو چائے میں پتی زیادہ ڈالنے پر خاتون نے جس بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا، اسی طرح ایک شہر میں ایک آدمی پر بازار کے بیچوں بیچ تقریباََ دو سو افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا، چاہے اس نے کوئی جرم کیا یا نہ کیا یہ کام اداروں کا ہے کہ وہ تحقیقات کریں۔ معاشرہ اس وقت زمانہ عدم برداشت اور سیاسی و معاشرتی اخلاقی اقدار سے عاری ہوتا جا رہا ہے لوگوں کے رویوں میں صبر و تحمل اور قوت برداشت نہیں ہے۔

رویوں میں شدت پسندانہ رویہ اور عدم برداشت اس حد تک غالب آ چکے ہیں کہ ہمارے رویوں اور اخلاقی اقدار کی گراوٹ کے باعث احترام آدمیت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ایک وقت تھا جب مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کے درمیان مناظرے اور مباحثے ہوا کرتے تھے لوگ ایک دوسرے کی بات کو تحمل مزاجی کے ساتھ سنتے، حسن ادب کے ساتھ اختلاف رائے بھی کرتے لیکن انسانوں کے عزت و احترام کو کبھی بھی اپنے رویوں اور اخلاقی اقدار کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے کھونے نہیں دیا جاتا تھا۔

اب جو موجودہ صورتحال ماضی کے بالکل برعکس ہے۔ اگر ہم عدم برداشت کی وجوہات کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ اس سے اخلاقی معاشی اور سماجی مسائل عدم برداشت کو جنم دے رہے ہیں ہر معاشرے میں مختلف مزاج کے حامل لوگ بستے ہیں کچھ لوگ جذباتی اور کچھ قدرے معتدل مزاج کے ہوتے ہیں۔ بعض افراد فطرتاََ انتہائی جذباتی واقع ہوتے ہیں اور کسی بھی صورت حال میں اپنے اندر اٹھنے والے غم و غصے کے جذبات کو قابو کرنا ان کے لیے انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے اس کے برعکس ایسی شخصیات بھی ہوتی ہیں جو کسی مشکل سے مشکل ترین صورتحال میں بھی جذبات سے نہیں بلکہ صرف دماغ سے کام لیتی ہیں۔

اکثر یہ ہوتا ہے کہ جذباتی لوگ ذرا سی بات پر سیخ پا ہو جاتے ہیں اور اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں، آپے سے باہر ہو جاتے ہیں جس سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہے۔ جب یہ دونوں رویے آمنے سامنے آ جائیں تو عین ممکن ہے کہ منفی جذبات رکھنے والا شخص مثبت سوچ رکھنے والے انسان کے اندر موجود رواداری کو بھی اپنے منفی رویہ سے ختم کر دے اور نتیجتاََ اس طرح عدم برداشت کا وائرس چھوت کی بیماری کی طرح ایک سے دوسرے کے ساتھ لگتے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر تباہ و برباد کر دیتا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں چھوت کی یہ بیماری اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اس کی علامات آپ کو جا بجا نظر آئیں گی۔ ٹیلی ویژن کی اسکرین سے لے کر اصل زندگی کے مناظر تک اور اخبارات کے صفحات سے لے کر برقی صفحات تک جابجا غیر شائستہ اور اکھڑ انداز گفتگو سے آپ کا واسطہ پڑے گا۔

مذکورہ بالا واقعات ہمارے سماجی رویوں میں در آئی عدم برداشت اور تشدد کی روش کی بھرپور عکاسی کرنے کے لئے کافی ہیں۔ بلاشبہ اخلاقی انحطاط کا یہ عالم، لمحہ فکریہ ہونے کے ساتھ تشویش ناک بھی ہے۔ ہمارے مہذب لوگ ان تمام واقعات پر صحیح، غلط کی تمیز کرنے کی صلاحیت بخوبی رکھتے ہیں اور غلط کو نہ صرف غلط کہتے بلکہ اس کی بھرپور مذمت بھی کرتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب وہ خود کسی ایسی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں تو وہ بھی برداشت کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ یہ معاشرتی دو عملی کیوں؟ یہ سوال، جواب کا متقاضی ہے۔

ہر معاشرے میں بسنے والے ارکان الگ الگ شخصیات کے مالک ہوتے ہیں۔ بعض افراد فطرتاََ انتہائی جذباتی واقع ہوتے ہیں اور کسی بھی صورت حال میں اپنے اندر اٹھنے والے غصے کے جذبات کو قابو کرنا ان کے لیے انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے اس کے برعکس ایسی شخصیات بھی ہوتی ہیں جو کسی مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی جذبات سے نہیں بلکہ صرف اور صرف دماغ سے کام لیتی ہیں۔

شاید ہی کوئی دن ایسا ہو، جب آپ روڈ پر سفر کریں، دوران سفر ایسا کوئی جذباتی مظاہرہ نہ دیکھیں۔ ہر آدمی ٹریفک کےقوانین ایک طرف پر رکھ کر آگے نکلنے کی کوشش میں نظر آئے گا دوسرے کو جگہ دینا گوارا نہیں کرے گا تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ٹریفک جام ہو جاتی ہے ہر کوئی غصہ میں نظر آتا ہے ایک دوسرے کو گھور کر دیکھنا، آستینیں چڑھانا معمول بن گیا ہے۔

عدم برداشت کی ایک وجہ انصاف کی عدم فراہمی ہے اگر فوری انصاف ہو، فوری سزائیں ہوں تو شاید ایسے واقعات میں کچھ کمی آ جائے۔ مشتعل ہجوم پر اگر فوری طور پر قابو پا لیا جائے یا معاشرے کے زندہ انسانوں میں کسی کا ضمیر زندہ ہو تو شاید ان واقعات کو رونما ہونے سے روکا جا سکے۔ پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے، اس کو نشان عبرت بنایا جائے، معمولی جرائم میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کر نے کی بجائے اس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اگر مشورہ ہی ہجوم میں سے کوئی دے دے تو بھی پڑھے لکھے مشتعل ہجوم سے بہت سے لوگوں کی جان بچائی جا سکتی ہے۔

ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ ایک معاشرے میں بےحسی اور تشدد اس وقت جنم لیتا ہے جب اس معاشرے میں انصاف کا حصول ناممکن، تشدد، عدم برداشت اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فرسٹریشنز بڑھ جائیں تو قتل جیسے جرائم مرتکب ہوتے ہیں۔

اگرواقعہ شعب ابی طالب کا جائزہ لیں تو یہ سارا واقعہ صبر و تحمل اور برداشت کا نمونہ ہے۔ اگر ہم خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی سیرت مبارکہ کا جائزہ لیں تو اس میں بردباری و برداشت کا عملی نمونہ ہے۔ محسن انسانیت، قائد تمدن، امن عالم کے نقیب اعظم حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ وہ واحد منبع ہے جس سے عالم اسلام بلکہ ساری دنیا کی زندگی اور انسانی معاشرے کی سعادت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔

آپ ﷺ کی ذات بابرکات پر بے شمار درود و سلام ہوں۔ آپ ﷺنے اپنے تحمل و بردباری اور بے پایاں شفقت و برداشت سے دنیا کو امن و امان کا خطہ بنا دیا۔ آپ ﷺ کی تعلیمات عالیہ اور لائے ہوئے نظام میں دنیا کی فلاح و بہبود پوشیدہ ہے۔ اسی پر چل کر ہم تباہی سے بچ سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں امن عالم تقریباََ بالکل مفقود ہو چکا ہے۔ اخوت و بھائی چارہ، ایثار و قربانی اور تحمل و برداشت کے جذبے مجروح ہو رہے ہیں۔

فلسطین، بوسنیا، لبنان، کشمیر اور دنیا کے دیگر خطوں میں مسلمانوں کا لہو کتنا ارزاں ہے۔ بین الاقوامی دہشت گردی ہو یا فرقہ واریت یا اسلحہ کا مقابلہ سب عدم برداشت کی ہی قبیح ترین شکلیں ہیں۔ قومی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر عالمی طاقتوں کی طرف سے ظاہر ہونے والا عدم برداشت کا رجحان لاقانونیت اور انارکی کا سبب بنتا ہے۔ مختلف ممالک میں ان کی عسکری مداخلت و بربریت اور عدم برداشت کی شکل ہے۔ عدم برداشت کے اس رجحان کو ہم تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں روک سکتے ہیں۔

اسلام میں عدم برداشت اور انتہا پسندی کا کوئی تصور نہیں، دینی تعلیمات سے ہمیں بلاتفریق و امتیاز احترام انسانیت کا درس ملتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں امن و امان کے قیام، ملک و مملکت کے استحکام اور پرامن بقائے باہم کے لیے ضروری ہے کہ تحمل و برداشت، عفو و درگزر، حلم و بردباری، رواداری اور اعتدال پسندی کو فروغ دیا جائے۔ معاشرے سے غربت، جہالت، بے روزگاری اور لاقانونیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے اسوہ نبوی ﷺ کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔

Check Also

Sunen, Aaj Kya Pakaun

By Azhar Hussain Azmi