Library Ik Khamosh Imarat
لائبریری اک خاموش عمارت
جو ہوتا اندیشہ ایسے رد ہونے کا
نہ دیکھتا خواب ایسے آزاد ہونے کا
لائبریری جسے کسی ملک و قوم کا سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ میرے نزدیک اگر لائبریری کو فوج سے تشبیہ دی جائے تو قطعی غلط نہ ہو گا جس طرح فوج میں معقول ٹریننگ کی بدولت فوجی تیار کیے جاتے ان کے دلوں کو وطن کی محبت سے سرشار کیا جاتا ہے اور مختلف مورچوں میں اپنی بہادری کا ثبوت دینے کے لیے منتقل کیا جاتا ہے بلکل اسی طرح لائبریری بھی اپنے جوان تیار کرنے کا کارنامہ سرانجام دیتی ہے بس اصول کچھ یوں ہیں کہ مطالعہ جذبہ و جنوں جب کہ کتابیں ہتھیار کا کام دیتی ہیں اور جتنے مضبوط ہتھیار ہوں وار بھی اتنا دلچسپ ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں لائبریری کو یہ خاص مقام حاصل نہیں جس کا میں نے تزکرہ کیا ہماری نگاہ میں مطالعہ صرف ایک اردو زبان کا لفظ ہے بس اور کچھ نہیں۔
وہ پرانی روایات تھیں جہاں کتابوں کو دوست اور لائبریریوں کو سرمایہ سمجھا جاتا تھا۔ دراصل پرانے وقتوں میں کسی قوم کی ترقی یافتہ ہونے کا سبب اس ملک میں موجود لائبریریوں کی تعداد پر منحصر ہوتا تھا اور مطالعہ کا رواج عظمت پر مبنی تھا۔ آپ کا کتب خانہ آپ کو معتبر بناتا تھا۔ آج نہ تو کتب خانے باقی رہے نہ مطالعہ سے لگاؤ۔ میں نے کسی کو کہتے سنا تھا علم اک زیور ہے اور اس زیور کی رکھوالی لائبریری میں کی جاتی ہے زمانہ قدیم میں واقعی اس کی حفاظت سونا چاندی کی مانند کی جاتی تھی لوگ صحیفوں کی رکھوالی ایک ہیرے کی مانند کرتے تھے ایسے ایسے کلام موجود تھے کہ پڑھنے والے کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ علامہ اقبال، فیض احمد فیض، اکبر آلابادی، بہادر شاہ ظفر، فراق گھورق پوری جیسے شاہکار جنہوں نہ صرف برصغیر بلکہ پورے عالم میں اپنی شاعرانہ تخلیقات کا لوہا منوایا آج کیوں ہم اور ہماری قائم کردہ لائبریری ان سے فراموش ہیں۔ سعدی جو فارسی زبان کا معلم مانا جاتا تھا جس کی شاعری کو انگریز حکومت نے خود ترجمہ کروا کر برصغیر لائبریریوں میں بھیجا تھا اور لوگوں کو تلقین کی تھی اسے پڑھ کر زندگی گزارنے کا ہنر سیکھا جائے وہ کتاب وہ اقتدار کہاں ہے، البیرونی جنہیں father of Modern geodesy کہا جاتا تھا ان کی ریسرچ کس لائبریری کا حصہ ہیں، جابر بن حیان کی کیمیائی ریسرچ کہاں فراموش ہے ہم نے کیوں ان عظیم شخصیات اور ان جیسے اور بھی بہت جن کے بارے میں نہ ہمیں پڑھایا گیا نہ بتایا نہ لائبریری کے سینے میں دبایا گیا ان کے تجربوں کی قدر نہ کی نہ ہی ان کے علوم کو فروغ ایشیا سے دیا گیا۔
یہ تمام معلوماتی خزانہ مغرب کی لائبریریوں میں آویزاں ہے جس سے وہ بھرپور استفادہ اٹھا کر دنیا پر قابض ہیں۔ ہم قدیم کے ساتھ خستہ تو جوڑ دیتے ہیں لیکن اس خستہ میں سے اک بھی چیز محفوظ کی ہوتی تو دنیا کے آگے شرمسار نہ ہوتے۔ کافی طالب علموں کو یہ تک معلوم نہیں مسلمانوں کی نظمیں کون سی تھیں چند دن پہلے کچھ طالب علموں سے ملنے کا اتفاق ہوا تو باتوں باتوں میں سوال اٹھا "سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا" کس کی تخلیق کردہ ہے جواب آیا کسی انڈین کی ہو گی ہمیں نہیں معلوم۔ کیا ہم نے اپنی نسلوں میں نفرت کا ایسا بیچ بو دیا ہے کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کی تفریق میں اپنے شاعروں کو ان کے کلام کو پہچانے سے کاسر ہیں۔ لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ لائبریری میں آؤٹ ڈیٹ سٹف نہیں ہونا چاہیے لیکن جب کل کا علم نہیں ہو گا تو آج کا کیا خاک ہو گا۔ چند نام کی لائبریری جو ہمارے وطن میں موجود ہیں وہ بھی ناکامی سے دوچار ہیں نہ ان کا بجٹ آتا ہے نہ بزرگوں کی کوئی بات کوئی یاد اس میں آویزہ ہے۔
ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے بہت سے امیدوار اپنی رائے دیتے ہیں کوئی ان عمارتوں کی طرف توجہ نہیں دیتا جن کا نام کتب خانہ ہے جو نسلیں بناتی ہیں۔ آج یہ خاموش عمارتیں ضرور اپنے اندر سوال لیے کھڑی ہیں کہ میرا سرمایہ وہ کلام جن سے میں روشن تھی وہ کہاں ہیں۔ آپ سب سے سوال ہے آپ میں سے کتنے لوگ لائبریری کا رخ کرتے ہیں؟ کرتے ہیں تو کتنوں نے اپنے اباؤاجداد اپنی شناخت کو دریافت کرنا چاہا ہے؟ good governance کا سوال تو سب کی زبان پر ہوتا ہے تاریخ کو سلام، بزرگوں کی روایات قدیمی ریسرچ کی واپسی اور جوانوں کو ان کے کلام سے آگاہی بھی اسی زمرے میں آتا ہے اگر کوئی اہمیت دے تو۔