Khush Hali Ki Akhri Dastak
خوشحالی کی آخری دستک
کھانے یا پینے والی ڈبہ بند شاید ہی کوئی ایسی چیز ہوگی جس کے اجزاء ترکیبی میں ایک نام نہ لکھا ہو، سائٹرک ایسڈ۔ ہر طرح کے جوس، سکواش، کولا، جام، جیلی، بسکٹ، مائیونیز، کیچپ، ٹافیاں، یہاں تک کہ چاکلیٹس، کاسمیٹکس، اور ادویات تک میں سائٹرک ایسڈ کا استعمال عام اور ناگزیر ہے۔
سائٹرک ایسڈ جسے عام زبان میں ٹاٹری بھی کہا جاتا ہے، لیموں کے رس میں نو سے دس فیصد پایا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ تجارتی پیمانے پر دنیا بھر میں اس کا استعمال قریب تیس لاکھ ٹن سالانہ ہے جس کی رسد ظاہر ہے کہ لیموں سے ممکن نہیں۔ لہٰذا پچھلے سو سال سے دنیا بھر میں یہ لیموں کی بجائے کم قیمت کھانے کی ویسٹ اشیاء سے بنایا جاتا ہے۔
چقندر سے شکر بنانے کے عمل دوران جو شیرہ حاصل ہوتا ہے وہ سائٹرک ایسڈ یا ٹاٹری بنانے کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا خام مال ہے۔ دوسرے نمبر پر گنے سے بننے والا شیرہ اور آلو کے چپس بنانے والی فیکٹریوں کی ویسٹ۔ فصل سے آلو نکالتے وقت فی ایکڑ دو سے ڈھائی من آلو کٹ جاتے ہیں۔ ان کا استعمال صرف جانوروں کے چارہ کے طور پر کیا جاتا ہے۔ یہ کٹے ہوئے ضائع آلو بھی سائٹرک ایسڈ کی تیاری کے لئے کم قیمت خام مال کے طور پر استعمال کئے جا سکتے ہیں۔
اب آپ جاننا چاہتے ہوں گے کہ ان سب خام مال سے ٹاٹری بھلا بنائی کیسے جا سکتی ہے؟ تو مجھے یقین ہے کہ اس کا تیاری کا طریقہ جان کر آپ حیران و ششدر رہ جائیں گے۔ آپ میں سے قریب ہر شخص نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ اگر کھانے کی کوئی چیز چند روز تک کہیں کھلی فضا میں پڑی رہ جائے تو اس پر کالے سے رنگ کی ایک پھپھوندی لگ جاتی ہے۔ اس پھپھوندی جس کو ہم پنجابی میں"اُلّی" بھی کہتے ہیں انگریزی میں Aspergillus niger کہا جاتا ہے۔ بس یہی کالی سی پھپھوندی یا aspergillus niger۔ ٹاٹری بنانے کے کام آتی ہے۔
شکر ساز فیکٹری کے ویسٹ شیرے میں چینی کا تناسب پچاس فیصد تک ہوتا ہے۔ اس میں اس کے وزن سے ڈیڑھ گنا پانی اور کچھ کیمیائی مرکبات انتہائی کم مقدار میں ملا کر لوہے یا سٹیل کے ڈرموں میں ڈال اس میں کچھ پھپھوندی شامل کر کے مناسب درجہ حرارت پر رکھ دیا جاتا ہے۔ سات سے دس دن میں یہ پھپھوندی اس آمیزے میں موجود چینی کو ٹاٹری میں تبدیل کر دیتی ہے۔
جسے بعد میں چونے کے پانی کی مدد سے علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔ چپس بنانے والی یا فیکٹریوں کی ویسٹ، یا کٹے پھٹے بیکار آلوؤں سے ٹاٹری بنانے کے لیے اس ویسٹ کو ابال کر پانی شامل کر کے لئی کی صورت بنا لیتے ہیں۔ اس لئی کو فرمینٹر ٹینک میں ڈال کر اس میں وہی کالی پھپھوندی ڈال دیتے ہیں۔ اسی طرح سات سے دس دن میں آلوؤں میں موجود سارے نشاستہ کو پھپھوندی ٹاٹری میں تبدیل کر دیتی ہے جسے اوپر بتائے گئے طریقے کی مدد سے الگ کر لیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں یہ کام انیس سو سترہ سے ہو رہا ہے۔ وطن عزیز کہ جس میں سینکڑوں نہیں ہزاروں مائیکروبیالوجی میں ایم فل کیے فارغ نوجوان نوکری کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہوں گے، اپنے استعمال کی سو فیصد ٹاٹری دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ حیرت ہوتی کہ ہمارے جامعات اساتذہ کرام جن میں بیشتر باہر کے ممالک سے پی ایچ ڈی ہوتے ہیں اپنے طلبا کو اس طرح کے چھوٹے قابل عمل پراجیکٹس پر کام کیوں نہیں کرواتے؟
ہمارا اندازہ ہے اس طرح کا پائلٹ پراجیکٹ چند لاکھ روپے میں بنایا جا سکتا ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی کے چار طلبہ مل کر محض اپنے موبائل فون کی قیمت کے برابر سرمایہ سے اس کا پائیلٹ پلانٹ بنا سکتے ہیں۔ معیار کی جانچ اور عمل کی بہتری کے بعد تجارتی پیمانے پر فیکٹری لگانے کے ازاں بعض سرمایہ کاروں کو دعوت دی جا سکتی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ہاں کی اُلّی بھی سوچتی ہوگی کہ یہ کیسے الو ہیں۔ میرا بھی مثبت استعمال نہیں کر سکے، نہیں معلوم ہم کب غیر روایتی سوچ اپنائیں گے۔ نہیں معلوم ہم کب خوشحال ہوں گے؟