Bemehar Rawaiye
بے مہر رویے
لاہور میں میکلورڈ روڈ پر موٹرسائیکل کے پرزوں کی تھوک کی منڈی ہے۔ ایک محلے دار کی وہاں دکان ہے۔ کسی کام سے وہاں جانا ہوا تو میں ان کی دکان پر چلاگیا۔ دکان پر ایک کرسی تقریباً ٹوٹی ہوئی پڑی تھی۔ دکان کے ملازم نے مجھے اس پر بیٹھنے کا اشارہ کیا، میں کرسی کی حالت دیکھ کر ٹھٹھکا کہ محلے دار نے فوراً اپنے ملازم کو ڈانتا، یہ کوئی مینوفیکچرر تھوڑا ہی ہیں، ہمارے ہمسائے ہیں اور ساتھ ہی مجھے کاؤنٹر کے دوسری طرف اپنے ساتھ پڑی کرسی پر آنے کیلئے کہا۔
کچھ دیر بعد ایک گاہک آیا، اس نے ایک انتہائی پھٹا ہوا ہزار کا نوٹ دیا، اس نے سرسری سا دیکھ کر گلے میں رکھ لیا اور اس کو بقیہ رقم گن کر دیدی۔ گاہک کے جانے کے بعد میں نے کہا عام طور پر اتنا خراب نوٹ دکاندار نہیں لیتے، فوراً کہنے لگا، ابھی کوئی مینوفیکچرر آئے گا اسی پھٹے پرانے نوٹ کو ہی چوم چاٹ کرلیجائے گا۔
میرے ساتھ پانچ منٹ میں پیش آئے یہ دو واقعات محض اتفاق نہیں، ہمارے دکانداروں کے مینوفیکچرر حضرات کے متعلق عمومی رویے اور سوچ کا بالکل درست عکس ہیں۔ لاہور کی ساری بڑی مارکیٹوں میں بشمول، برانڈرتھ روڈ، ہال روڈ، میکلورڈ روڈ، شاہ عالمی، رنگ محل اور بادامی باغ وغیرہ میں یوں تو ہزاروں اقسام کی متنوع مصنوعات فروخت کیلیے لائی جاتی ہیں مگر بلاتخصیص مارکیٹ اور مصنوعہ ان دکانداروں کو رویہ بنانے والوں کے ساتھ بالکل ایک سا ہی ہے۔
یہی تاجران جو اشیاء پاکستان میں نہیں بنتی ان کیلئے کم از تیس فیصد رقم ایڈوانس دیتے ہیں، پھر جب مال ابھی گودی پر ہوتا ساری رقم ادا کردی جاتی ہے۔ بسا اوقات جو مال خراب نکلتا ہے اس کا بھی کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ پھر مال کی سپلائی چین پورا رکھنے کے لئے تین ماہ کی منصوبہ بندی اور سب کا ایڈوانس جمع کرواتے ہیں۔ دوسری طرف جب مقامی کارخانہ داروں سے مال لیتے ہیں تو مال خریدتے وقت بالکل ایسے ظاہر کرتے ہیں، جیسے ان کو بالکل ضرورت نہیں وہ محض احسان کررہے ہیں، مصنوعہ کی قیمت طے کرتے وقت بہت ہی شرمندہ کرنے والا رویہ۔ پھر مال کی لینے کے بعد کوئی ضمانت نہیں کہ کب رقم دی جائے گی۔
کارخانہ دار چونکہ کاریگروں کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے اسے ہر صورت پیداوار کرنا ہے، بجلی کے بل۔ اور دیگر اخراجات کرنا ہوتے ہیں لہذا اسے ہر صورت خام مال کیلیے رقم چاہیے اس صورتحال کو دکاندار مکمل کیش کرواتے ہیں۔ ہر طرح سے بلیک میل کرتے ہیں۔ اس صورت حال اور ان رویوں سے دلبر داشتہ کئی کارخانہ دار مینوفیکچرنگ سے ہی توبہ کرلیتے ہیں۔
لیکن یہ صورت حال زیادہ تر ان کارخانہ داروں کے ساتھ ہوتی ہے جن کو معیاری مصنوعات بنانے کی استعداد کم ہے، کم پڑھے لکھے ہیں اور ہنرمندی میں بھی کم ہیں۔ جو لو کچھ پڑھے لکھے ہیں، یا ذرا بہتر معیار کی مصنوعات بناسکتے ان کو نسبتاً بہتر ردعمل ملتا ہے۔ اور جو اور بھی اچھے معیار کی اشیاء بناتے ہیں ان کو بڑی فیکٹریوں سے آرڈر مل جاتے ہیں، لیکن پھر بھی مینوفیکچررز کی بڑی اکثریت کو ان رویوں کا سامنا ہے۔
دکانداروں کو انفرادی طور پر تو ان رویوں کے سبب کچھ وقتی فوائد ہوتے ہیں مگر بحیثیت مجموعی ملکی معیشت کے لیے یہ بہت منفی بات ہے۔ بطور خاص چھوٹی صنعت کے پنپنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ دیکھیں کپڑوں کے سب بڑے برانڈز نے دکانداروں کے انہیں رویوں سے تنگ آکر اپنے آؤٹ لٹس بنالیے۔ لیکن جو چھوٹے صنعت کار اس قابل نہیں کہ اپنے آؤٹ لٹس بنا سکیں وہ اب بھی انہیں کے رحم وکرم پر ہیں۔ بالکل یہی حال ہر شعبہ کا ہے
میرے خیال میں مختلف شہروں کے چیمبرز آو کامرسز تاجروں اور صنعتکاروں کی تنظیموں اور عوامی نمائندوں کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ اس کیساتھ وزارت صنعت کو ٹریڈ کارپوریشن کی طرز پر چھوٹی صنعتوں کیلئے ارلی پیمنٹ کا کوئی طریقہ کار وضع کرنا چاہیے جس کے تحت تاجران سے مال کی بدلے ملنے والے وعدہ کی پرچی یا چیک کے بدلے ان صنعتکاروں کو فوری ادائیگی کی جاسکے۔
اگر ہمیں معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے تو چھوٹی صنعت کو مضبوط کیے بغیر کوئی چارہ نظر نہیں آتا اور چھوٹی صنعت کوسب سے بڑا خطرہ تاجروں کے بے مہر رویوں سے ہے۔