Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hania Irmiya/
  4. Ustad

Ustad

استاد

ایک وقت تھا جب استاد کا درجہ والدین سے بھی بلند تھا استاد کی جوتیاں اٹھانا شاگرد اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں استاد کی شان اور عظمت کے ایسے ایسے قصے رقم ہیں کہ استاد کی شخصیت پہ رشک آتا تھا کہ کاش ہم بھی اس عہدے پہ فائز ہوتے۔ شاگرد کو استاد اپنے تخم سے پیدا نہیں کرتا مگر اس کی ذات کی تکمیل میں صرف استاد کی محنت کارفرما تھی۔ استاد کی ڈانٹ، مار شاگرد اپنے لیے باعثِ امتیاز سمجھتے تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ استاد جس سے محبت کرتا ہے اسے ڈانٹتا، مارتا ہے تاکہ وہ کمال کو پہنچے۔ سونا آگ میں تپ کر کندن بنتا ہے۔

مگر جب میں آج کے دور کے کاروبار پہ نظر کرتی ہوں جسے ہم تعلیم کا نام دیتے ہیں تو اس کاروباری تعلیم پہ ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اس نظام میں استاد کی حیثیت ایک روبوٹ کی طرح کی ہے جسے اس نظام کی انتظامی ٹیم جس طرح سے اور جیسے چاہے، حرکت دیتی ہے۔ استاد کو سکول، کالج میں تعیناتی کے وقت سمجھایا جاتا ہے کہ بچے پہ سختی نہیں کرنی، بچے کے ساتھ تعاون کی ہر صورت کوشش کرنی ہے۔

تعیناتی کے وقت دوران انٹرویو استاد سے یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ "اگر بچہ کسی طور آپ کے کنٹرول میں نہ ہو، شرارتی ہو، بدتمیز ہو، آپ کا کہا نہ مانے، تو اس بچے کو سدھارنے کے لیے آپ کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے؟" اس سوال کو پوچھنے کا مقصد استاد کی فطرت کا پتہ لگانا ہوتا ہے کہ کیا آیا استاد سخت رویہ اختیار کرے گا یا بچے کی ہر غلط بات کو نظر انداز کر کے خاموش ہو جائے گا؟

اگر استاد جواب دیتے ہوئے ہچکچائے یا ذرا سا بھی سختی سے جواب دے تو اسے یا تو تعیناتی کے وقت سمجھا دیا جاتا ہے کہ اگر یہاں ملازمت کرنی ہے تو اس رویے کو تبدیل کرنا ہوگا یا پھر اسے وعلیکم السلام کہہ کر باہر کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔ اگر والدین یا بچے کی طرف سے استاد کے سخت رویے کی شکایت دو سے تین مرتبہ اسکول انتظامیہ تک پہنچے تو اس استاد کی وضاحت سنے بنا ہی اسے ملازمت سے معطل کر دیا جاتا ہے۔

ملک کے بڑے شہروں کی گلی گلی میں پرائیویٹ سکولز کی بھرمار دیکھنے کو ملتی ہیں مگر ان اسکولز میں اساتذہ کی تنخواہوں کا ذکر کرتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے کہ وہ مرد یا عورت جو بچے کی ذہنی اور اخلاقی نشوونما کے ذمے دار ہیں ان کے کام کا معاوضہ اس قدر گرا ہوا ہے۔ بی اے، بی کام، آنرز مرد و خواتین کی تنخواہ چودہ سے بیس ہزار کے درمیان ہے اور ایسے اداروں میں انٹرویو لینے والوں کے کبھی سوالات سن لیے جائیں تو حیرت ہوتی ہے۔

میں سکول ملازمت کے اشتہارات کے ایک گروپ میں کچھ بےروزگاروں کے کمنٹس پڑھ رہی تھی اس میں ایک ایسے سکول کا ذکر تھا جس کی بہت سی برانچز پورے پاکستان میں موجود ہیں۔ وہ تمام لوگ اس اسکول کی اوسط تنخواہ کے متعلق بات کر رہے تھے کہ "اس سکول میں اساتذہ کو انٹرویو سے پہلے سو نمبروں کا تحریری امتحان پاس کرنا ہوتا ہے، اس کے بعد انٹرویو، پھر تنخواہ۔ پرنسپل صاحب انتہائی تحمل سے اٹھارہ ہزار بتا دیتے ہیں۔

"اس بات پہ مجھے پہلے تو ہنسی آئی کچھ دیر بعد سوچنے پہ احساس ہوا کہ جس بےروزگار کے ساتھ ایسا رویہ برتا گیا اس کا تو دل چاہے گا اپنی بھڑاس جی بھر کے نکالے اور غضب خدا کا، چھوٹے بڑے تمام تعلیمی اداروں میں ملازمت کے حصول کے پیشہ وارانہ قابلیت کو پس پشت ڈال کر ٹوٹی پھوٹی سہی مگر مکمل اعتماد کے ساتھ انگریزی بولنے والوں کو فوقیت دی جاتی ہے اور جو اس فرنگی زبان بولنے کی جسارت نہ کر سکے یا جسے اس زبان پہ مہارت نہ ہو وہ ان چھوٹے بڑے تمام نام نہاد انگلش میڈیم سکول و کالجز کے اعلیٰ معیار سے گر کر باہر جانے والے گیٹ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔

مجھے اس سلسلے میں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے صدر جنرل ایوب کے دور حکومت میں بیرون ملک کے ایک وزیر نے لاہور شہر کے ایک مشہور اسکول کا دورہ کیا، گراؤنڈ میں مصافحے کے دوران غیر ملکی وزیر نے بچوں سے کچھ سوال کیے جن میں ایک عام سوال یہ تھا کہ "آپ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا بننا پسند کریں گے؟" سب نے ہی ڈاکٹر، انجنئیر، پائلٹ، فوجی، سرکاری افسر، جیسے شعبوں کو چنا۔

بچوں سے ملاقات کے بعد غیر ملکی وزیر نے اسکول کی سینئر قیادت سے ملتے ہوئے افسوس کا اظہار یوں کیا کہ، "آپ کے ملک میں بچوں کی ذہنی آبیاری میں کمی برتی جا رہی ہے۔ حیرت کا مقام ہے اسکول کے کسی بچے سے جواب نہیں ملا کہ میں تکمیلِ تعلیم کے بعد استاد بنوں گا جو کہ ایک مقدس اور انتہائی بلند پیشہ ہے۔

مجھے بھی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ "یہ ہے ہمارے ملک میں استاد کا مقام اور ہماری نسلوں کی بدحالی کی اصل وجہ"۔

Check Also

Aik Parhaku Larke Ki Kahani

By Arif Anis Malik