Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Munafqat

Munafqat

منافقت

ویلنٹائن ڈے پوری دنیا میں چودہ فروری کو منایا جاتا ہے نہ صرف مغرب والے اس دن کو محبت کرنے والوں کا دن مانتے ہیں بلکہ آج کے وقت میں یہ دن دنیا کے ہر ملک میں محبت کے اظہار کے طور پہ مقبول ہے اس دن کی تاریخ عیسائیت مذہب سے جا ملتی ہیں اس کی حقیقت اب سب پہ آشکار ہو چکی ہے۔ دو لوگ جو ایک دوسرے سے محبت کے تعلق میں بندھے ہوں وہ اس دن کو بھرپور طریقے سے منانے کی خواہش کرتے ہیں۔

پاکستان چونکہ ایک اسلامی ملک ہے اسلیے یہاں شادی سے پہلے کی گئی محبت گناہ سمجھی جاتی ہے نامحرم سے ملاقات یا محبت کا اظہار ہم پسند نہیں کرتے۔ مرد و عورت اگر کسی تعلق کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہو سکتے ہیں تو وہ صرف "نکاح" ہے ہاں نکاح میں مرد و عورت کی پسند کا شامل ہونا ضروری ہے۔

مگر مغرب والے بھی عجیب فطرت کے لوگ ہیں کہیں نہ کہیں کوئی ایسا نکتہ نکال ہی لیتے ہیں جس پہ آدھی دنیا تو اتفاق کرتی ہو اور آدھا زمانہ ان کے مخالف کھڑا ہو جائے، مگر انھیں اس کی پرواہ نہیں۔ ان کا کام ہے کہیں نہ کہیں سے اپنے لیے خوش ہونے کا سامان پیدا کرنا۔ اور پھر پوری دنیا لکیر کے فقیر کی طرح ان کے پیچھے چل نکلتی ہے۔

اب سے پندرہ سال پیچھے چلے جائیں بہت کم لوگ اس دن سے واقف تھے بیس پچیس سال تک تو ہمارے ملک میں اس دن کا نام لینے والے بھی چند ہی گنتی کے لوگ تھے پھر جیسے جیسے ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا ترقی کرتا گیا ویلنٹائن ڈے سے بھی واقفیت ہوتی گئی۔ گزرتے وقت میں جب بھی فیس بک، انسٹاگرام کھولو، ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے دن میں دس بارہ پوسٹس ضرور نظر سے گزر جاتی ہیں اور جیسے جیسے یہ دن قریب آ رہا ہے اب تو واٹس ایپ کے اسٹیٹس بھی اسی سے متعلق پڑھنے کو مل رہے ہیں۔

مقصد تحریر یہ ہے کہ اگر ہم مغرب کی کسی مخصوص روایت کو اپنی نو نسل کے لیے غلط گردانتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو اس سے دور رکھیں تو پھر اس دن کو کیوں اتنی اہمیت دی جاتی ہے؟ کیوں اس دن کی مخالفت اور حمایت میں مباحثے زور و شور سے جاری ہیں؟ کوئی اس کے خلاف لکھ رہا ہے تو کوئی اس دن کو منانے کی تیاریوں میں مگن ہے اور مضحکہ خیز نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے نجی کاروباری ادارے اس دن اپنی پراڈکٹ کی سیل بڑھانے اور اپنے کسٹمرز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسے اشتہارات کی تشہیر کرتے ہیں جس میں محبت کا سرخ رنگ واضح ہوتا ہے یا پھر ویلنٹائن ڈے گفٹ اپنے ادارے کے نام سے پروموٹ کرتے ہیں کاروبار کی بہتری شاید نسلوں کی اخلاقی تباہی سے زیادہ اہم ہیں؟

دو روز قبل مجھے بازار جانے کا اتفاق ہوا، بھانجے کی سالگرہ تھی اور اس کے لیے کھلونا خریدنا تھا گفٹس شاپس لال رنگ کے تحائف سے بھری پڑی تھی اور ایسے مہنگے تحائف کہ میں نے تو کانوں کو ہاتھ لگائے کہ آخر محبت کے اظہار کے لیے اس فضول خرچی کی ضرورت کیا ہے؟ پاکستان جس معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے وہاں اس طرح پیسے کا ضیاع کیا ہماری پہنچ میں ہے؟

مگر اس کے باوجود تحائف خریدنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جس تہوار کو مغرب پرستی اور نوجوان نسلوں کی اخلاقی پستی ہم سمجھتے ہیں اسی کی تشہیر کیسے جوش سے کی جاتی ہے اور پھر ہم خود ہی شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے بچے بگڑ گئے ہیں ہماری بچیاں حیا کے پردے کو چاک کر چکی ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ جو تہوار ہماری نسلوں کی اخلاقی اور معاشرتی راہروی کا باعث بنے اس کا تذکرہ ہی ہم اپنی گفتگو سے نکال باہر پھینکیں مگر ہم منافق لوگ تو خود اس کی تشہیر کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھتے۔

Check Also

Kya Sinfi Tanaza Rafa Hoga?

By Mojahid Mirza