Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (8)
جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (8)
چارہ گری کا کریز (Craze)
استاد یوسفی اپنی آخری کتاب آب گم میں جو 1990 میں شائع ہوئی، میں لکھتے ہیں کہ" ڈکٹیٹر سے زیادہ مخلص اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس معنی میں کہ وہ خلوص دل سے یہ سمجھتا ہے کہ ملک و ملت سے جس طرح وہ ٹوٹ کر محبت، کرتا ہے اور جیسی اور جتنی خدمت وہ تن تنہا کر سکتا ہے، وہ پوری قوم کے بوتے کا کام نہیں۔ وہ سچ مچ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے جگر میں سارے جہاں کا درد ہی نہیں، درماں بھی ہے۔
نیز اسی کی ذات واحد خلاصہء کائنات اور بلا شرکت غیرے سرچشمہء ہدایت ہے۔ لہٰذا اس کا ہر، فرمان بمنزلہ صحیفہء سماوی ہے۔ رائے کی قطعیت اور، اقتدار کی مطلقیت کا لازمی شاخسانہ ہے کہ وہ بندگان خدا سے اس طرح خطاب کرتا ہے جیسے وہ پتھر کے عہد کے وحشی ہوں، اور وہ انہیں ظلمت سے نکال کر اپنے دور ناخدائی میں لانے اور بن مانس سے انسان بنانے پر مامور من اللہ ہے۔
پھر جیسے جیسے وفور تمکنت اور ہوس حکمرانی غالب آتی ہے، آمر اپنے ذاتی مخالفین کو خدا کا منکر اور اپنے چاکر ٹولے کے نکتہ چینوں کو وطن کا غدار اور دین سے منحرف قرار دیتا ہے۔ ارجنٹائن ہو یا الجزائر، ترکی ہو یا بنگلہ دیش یا عراق و مصر و شام، اس دور میں تیسری دنیا کے تقریبا" ہر ملک میں یہی ڈراما کھیلا جا رہا ہے۔ سیٹ، مکالمے اور ماسک کی وقتی اور مقامی تبدیلیوں کے ساتھ۔
یوسفی صاحب کی اس تحریر کا آج کی بات سے صرف اتنا تعلق ہے کہ ہمارا شخصی نظام حکومت، دنیا میں قائم دیگر اچھی جمہوریتوں کے برعکس ہمارے رہنماوں کے وعدوں اور کچھ کر جانے کی تمنا پر مبنی ہے۔ جو بغیر بہت غوروخوض سے کئے فیصلوں کی نسبت زیادہ تر ایسے مقبول یا knee jerk فیصلوں کی طرف لے جاتا ہے۔ جو ملک کے لئے اکثر و بیشتر نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ یادش بخیر ہمارے میو ہسپتال میں دل وارڈ کے انچارج پروفیسر زبیر ہوا کرتے تھے۔
امراض، قلب پر آخری اتھارٹی جانے جاتے تھے۔ ایک دن راونڈ کے بعد ہم جیسے نو آموزوں کو فرمائے لگے کہ ڈاکٹر وہ نہیں ہوتا جو مریض دیکھ کر دوا لکھ دے۔ دوائی تو کمپاؤنڈر بھی دے دیتا ہے۔ ڈاکٹر وہ ہے، جو یہ بتا سکے کہ کب کوئی بیماری نہیں ہے۔ ان کے لفظوں میں A doctor is the one who knows when not to treat اس سے زیادہ دانشمندانہ اور خوبصورت بات شاید ہی کوئی ہو سکے۔
غور سے دیکھیں تو ہمارے بہت سے قومی مسائل اس over- treatment کا نتیجہ ہیں۔ جو کسی اچھے معالج کا کام نہیں۔ حکومت کا زیادہ تر وقت بیماری کی علامات ختم کرنے اور آگ بجھانے میں صرف ہوتا ہے۔ جس سے اکثر، دوا کا زہریلا پن بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان حکومتی اقدامات کی ضرورت تھی بھی یا نہیں۔ ہماری یہ trigger happiness ہم سے زیادہ تر نقصان دہ اقدامات کرواتی ہے۔
کسی وفاقی سیکرٹری کے بارے میں سب سے برے کمنٹ اور تہمت procrastination کی ہوتی ہے۔ کہ سوچتا بہت ہے اور فیصلہ نہیں کر پاتا۔ اس طعنے سے غبی اور نالائق افسران تو متاثر ہوتے ہی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ طعنہ دور رس نظریں رکھنے والوں کو بھی فیصلہ سازی سے پرے رکھتا ہے۔ بی بی سی کی yes minister اور پھر Yes Prime Minister میں سر ہم فرے کا اور نوکر شاہی کا مذاق تو بہت اڑایا گیا کہ یہ سب لوگ کام نہ کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔
مگر اگر غور سے دیکھیں تو قومی معاملات میں یہ kneejerk رد عوامل بہت سمجھداری کی بات نہیں۔ حکومت کے اغراض و مقاصد کے لٹریچر میں اب بہت سے لوگ اس بات کے حامی ہیں کہ حکومتوں کا کم سے کم کردار ملکوں کی ترقی اور خوشحالی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس لبرل نظریے کے تحت حکومت کا دائرہ کار صرف وہاں ہونا چاہئیے۔ جہاں مارکیٹ کا نظام لوگوں کو اشیا اور خدمات دینے سے قاصر ہو۔
مارکیٹ کی اس ناکامی میں اجتماعی نظم کو برقرار رکھنا (دفاع، قانون کی عملداری، نزاع میں فیصلہ)، پبلک اشیا (سڑکوں، اداروں ) کی فراہمی، ایکسٹرنیلٹی کا علاج (صاف فضا، بنیادی صحت، مڈل تک تعلیم)، مناپلی کا سد باب، انتہائی غربت کا خاتمہ، ٹیکسوں کی وصولی، کرنسی کی فراہمی (اور ان کی کمی بیشی سے بے ہنگم نمو یا بے جواز کساد بازاری کو قابو میں رکھنا)، آبادی، افراط زر اور ایکسچینج ریٹ میں بے تحاشا اتار چڑھاو کو قابو رکھنے کی کوشش کرنا شامل ہیں۔
حکومتوں کو ان باتوں کے علاوہ کام کرنے سے اجتناب برتنا چاہئیے ورنہ جتنے حکومت کے کام، اتنا ہی حکومت کا حجم اور اس کے لئے اتنے ہی درکار وسائل اور نتیجتا" اتنے ہی زیادہ ٹیکس، کسی زمانے میں حکومت گھی بھی خود امپورٹ کرکے اور بنا کر بیچتی تھی اور آج ہزار کے قریب بزنس اپنے طور لوگوں کی اس ضرورت کو، برازیل اور ملائشیا سے منگوا کر پورا کر رہے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ کیا گوالے کو صوبائی محکمہ خوراک یہ حکم دیتا ہے کہ صبح سویرے آپ کے ہاں دودھ دے کر جائے۔
چند مواقع کے علاوہ دنیا جہان سے ہر طرح کی دوا اور طبی آلات پاکستان میں ہمہ وقت مہیا ہوتے ہیں۔ یقین کیجئیے کہ دوا کی یا کسی اور شے کی ترسیل میں کوئی گڑبڑ ہو تو اس کے پیچھے ضرور حکومت یا اس کے کارندوں کا کوئی عمل ہوتا ہے۔ اشیا یا خدمات کی قیمت کا اتار چڑھاو زیادہ تر سپلائی اور ڈیمانڈ سے ہوتا ہے اور بسا اوقات قیمتوں کا یہ رحجان ملک کے شہریوں کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے۔
اس صورت میں حکومت کا کام ڈنڈا لے کر اس قیمت کو کنٹرول کرنا نہیں ہوتا۔ اگر حکومت چاہے تو اس سپلائی میں لگائی گئی کسی قدغن کو دور کر سکتی ہے یا اگر حکومت سمجھے کہ یہ اضافہ عارضی ہے تو ایسی صورت میں غریب ترین طبقے کو یہ چیز مہنگی خرید کر سستے میں دے سکتی ہے۔ مگر حکومت کا یہ کام ہر گز نہیں کہ بزور طاقت ان قیمتوں کو خود متعین کرنے کی کوشش کرے۔
ایسے ہی اقدامات کے نتائج آپ وفاقی حکومت میں بجلی اور گیس، اور صوبائی حکومتوں میں اجناس کے گردشی قرضے کی صورت دیکھ سکتے ہیں۔ یہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور ان کی مارا ماری بھی اسی سوچ کا شاخسانہ ہے۔ اسی طرح حکومت اپنا دائرہ کار بڑھاتے بڑھاتے اس نہج کو پہنچ گئی ہے کہ تنخواہ اور جاری اخراجات کی مد میں خرچوں کی مقدار دس کھرب روپے کو پہنچ رہی ہے اور ہمارے رہنما ابھی مزید چاند تارے لا کر دینے کا وعدہ کر رہے ہیں۔
مجھ سے پوچھیں تو نصف سے زائد وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہماری بنیادی ضرورت سے زائد ہیں۔ اور ہمارے زیادہ تر حکومتی اقدامات اسی trigger happiness کی ذیل میں آتے ہیں۔ جس میں دشمن کے ساتھ دوستوں کے مرنے کا شدید احتمال ہوتا ہے۔ اس ضمن میں کتنے ہی اقدامات گنائے جا سکتے ہیں۔ مارکیٹ میں پیناڈول کی کمی شاید اس وجہ سے ہو کہ دوا کی قیمت بڑھانے سے پہلے قانون کے مطابق اور سپریم کورٹ کی تشریح کے مطابق وفاقی کابینہ کی منظوری درکار ہے۔
جو وہ کام کی زیادتی یا سیاسی ردعمل کے خطرے سے نہیں دے سکتی اور کاروبار کرنے والے لاگت سے کم پر بیچنے کو تیار نہیں۔ اچھے اکانومسٹ کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ حکومت کو میٹرک کے بعد کی تعلیم میں خرچ نہیں کرنا چاہیئے، سیکنڈری صحت کے بعد کا کام انشورنس پر چھوڑ دینا چاہئیے(انتہائی نادار لوگوں کے علاوہ)۔ چینی اور آٹے کی قیمت اور امدادی قیمت سے خود کو نکال لینا چاہئے۔
ہر ہفتے تین وزرا کو بیٹھ کر کاشتکار، آڑھتی اور دکاندار میں منافع کی تقسیم کے فیصلے نہیں کرنا چاہئیں۔ ان روزمرہ مثالوں کے علاوہ بہت سے غلط فیصلوں کی مثال دینا ممکن ہے۔ مگر اس سیاسی کشمکش کے دور اپنے اپنے گہرے عقائد، رکھنے والے طبقات میں یہ بات کج بحثی کی طرف نکل جانے کا احتمال ہے۔ یقین کریں کہ حکومت زیادہ تر کچھ نہ کرکے معیشت اور معاشرے کا زیادہ بھلا کر سکتی ہے۔
کیونکہ کچھ نہ کرنے کا سوچا سمجھا فیصلہ کچھ کرنے کی تمام آپشنز کو exhaust کرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ مگر اب کیا کریں کہ یہ ارادے، قوم سے وعدے اور لوگوں کو دکھائے گئے، خواب اور ہماری تاریخ کا عہد نوشہرواں اور عدل جہانگیری ہمیں اس ایکشن کی دنیا سے نکلنے نہیں دیتے۔ اور اس بے جواز " کچھ کرتے نظر، آنے کی خواہش " سے بسا اوقات ایسا ایسا نقصان ہوتا ہے، جس کا قرض ہم اگلے سو سال تک اتارتے رہیں گے۔
یہ نہیں کہ فیصلے کرنے نہیں چاہئیں، مگر بہت سوچ سمجھ کر اور سنبھال کر، خوش امیدی پر نہیں بلکہ کڑے رسک انیلےسز کے بعد سو ڈاکٹر زبیر کے بقول لیڈر اور رہنما وہ ہے۔ جسے بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ کس وقت intervene نہیں کرنا ورنہ ہر بات پر ایکشن لینے والے عطائی تو ہو سکتے ہیں معالج نہیں۔
آخر میں فیض صاحب کا شعر کچھ تحریف کے ساتھ کہ
ہر چارہ گر کو چارہ گری کا "کریز " تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے