Razi Nama Ya Zabardasti Nama
راضی نامہ یا زبردستی نامہ

چند دن قبل سلمان فاروقی نامی بااثر شخص نے ایک شہری پر بہیمانہ تشدد کیا۔ اُس مظلوم کی بہن کی لرزتے ہاتھوں اور آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو شاید زمین نے تو جذب کرلیے مگر "فرعون وقت" کا دل نہ پگھلا۔ یہ وہی سسکیاں تھی جو ہمارے عدالتی نظام کے درو دیوار سے ٹکراکر لوٹ آئیں مگر نظامِ انصاف بدستور گہری نیند میں محو ہے۔
سلمان فاروقی جیسے لوگ محض انسان نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کے اندر چھپے ہوئے "تعفن" کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ وہ فرعون ہیں جن کی فرعونیت اپنی انتہاء کو چھُوچکی ہے۔
اِن کے زہر آلود رویے ہمارے نظامِ انصاف کے ہر گوشے میں سرایت کر چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آج بھی کتنے ایسے فرعون بے خوف و خطر دندناتے پھر رہے ہیں؟ جنہوں نے انصاف کی کانپتی ہوئی آواز کو ہمیشہ کے لیے دبانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
یہ محض ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ اس پورے نظام پر لکھا جانے والا نوحہ ہے جہاں وقت کے فرعون ہمیشہ جیت جاتے ہیں اور مظلوم کی فریاد، ہواؤں میں تحلیل ہو کر رہ جاتی ہے۔
کبھی مجید جیسے لوگ دن دہاڑے اہلکار کو روند دیتے ہیں تو کبھی نتاشہ جیسے چہرے، سفاکی سے معصوم جانیں کچل کر نکل جاتے ہیں اور پھر- وہی پرانی رسم، ایک نیا "راضی نامہ"۔۔
یہ محض ایک فرد کی لڑائی نہیں، یہ ہر اُس انسان کی جنگ ہے جو انصاف کا متلاشی ہے اور ہر اُس بااثر کردار کے خلاف ہے جو "معاشرتی فرعون" بن کر قانون کو اپنے جوتے تلے روند دیتا ہے۔
کیسا افسوسناک المیہ ہے کہ یہاں بااثر ہونا گویا قانون سے بالاتر ہونے کا پروانہ بن چکا ہے۔
وہ بہن جس نے انصاف کی بھیک مانگی، جس کے آنسو زمین نے پی لیے مگر وہی نظام، رعونت کے سامنے جھک گیا اور پھر۔۔ ایک اور کاغذ سامنے آیا۔
جسے ہم راضی نامہ کہتے ہیں، مگر اصل میں وہ "زبردستی نامہ" تھا۔
یقین نہیں آتا، ہمارے ہاں ہمیشہ غریب ہی کیوں سب سے زیادہ سخی نکلتا ہے؟
وہی زخم کھاتا ہے، وہی سب سے پہلے معاف کرنے کو بھی تیار ہو جاتا ہے اور یوں، تمام اذیتیں، صرف ایک کاغذ میں سمو دیے جاتے ہیں۔ جسے ہم راضی نامہ کہتے ہیں اور سچ پوچھیں تو، زبردستی نامہ۔
عدالتیں سب جانتی ہیں، سب دیکھتی ہیں، پھر بھی فیصلے وہی لکھے جاتے ہیں، جو "طاقت کی سیاہی" سے لکھوائے جاتے ہیں، یہ نظام تب بدلے گا جب عدل، طاقتور کی دہلیز پر بھی یکساں زور سے دستک دے گا۔
انصاف اب صرف فائلوں میں قید ہے۔
قلم کی جنبش پر معافیاں بانٹی جاتی ہیں اور طاقت کے بل پر قانون کا منہ چِڑایا جاتا ہے۔
یہ معاشرہ تب بدلے گا جب عدل صرف کمزوروں کے لیے تازیانہ نہ رہے بلکہ طاقتور بھی قانون کے تابع ہو۔ ورنہ عدالتیں کاغذ رہ جائیں گی اور ہم سب؟ صرف بے حس تماشائی۔
یہ محض ایک واقعہ نہیں، ہمارے سماج کا وہ آئینہ ہے جس میں ہر بار ایک نیا سلمان فاروقی، ایک نیا مجید اور ایک نئی نتاشہ ابھرتی ہے اور ہر بار ایک نئی بہن، نئے آنسو اور ایک نیا "زبردستی نامہ" منظر عام پر آتا ہے۔
متاثرہ شخص کی بہن کے آنسو اور لرزتے ہاتھ دیکھ کر یوں محسوس ہوا جیسے وہ میری اپنی بہن ہو اور تشدد کا شکار میں خُود۔
شاید ہماری اجتماعی بے حسی ہی اِس انجام کی سزاوار ہے، کہ سلمان فاروقی جیسے چہروں والے فرعون آئیں، ہمیں روندیں اور ہم سر جُھکا کر ایک اور راضی نامہ، تھما دیں۔
میں ہر اُس مظلوم سے شرمندہ ہوں، جسے ہم نے تماشائی بن کر اکیلا چھوڑ دیا۔
یہ آنکھوں سے بہتے آنسو، یہ کانپتے ہاتھ، یہ سسکیوں میں دبی چیخیں۔
ہم سب کے ضمیر پر وہ سوال ہیں جن سے اب آنکھ چُرانا ممکن نہیں رہا۔۔