Sarmaya Darana Nizam Aur Takhleeqi Shaoor Ka Istehsal
سرمایہ دارانہ نظام اور تخلیقی شعور کا استحصال
دنیا میں متعدد معاشی نظام رائج رہے ہیں۔ جن میں سے چند ایک ایسے بھی ہیں جوکہ آج ناپید ہو چکے ہیں۔ انسان کے تخلیقی شعور کو استحکام حاصل کرنے کے لیے ایسے نظام کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ نشونما پا سکے۔
کائنات کا ہر زرہ اپنی تخلیقی قوت کی بدولت ہی مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اسی روح سے انسان کا حسن اور حقیقی قوت اس کے تخلیقی شعور میں پوشیدہ ہے۔ انسان کے اس شعور کا اظہار کائنات کی تزئین کے لیے لازمی جز ہے۔
ہر چیز ہے محو خودنمائی
ہر ذرہ شہید کبریائی
سرمایہ دارانہ نظام انسان کی تخلیقی قوت کا استحصال کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام دارصل جاگیردارنہ نظام کی ہی ترقی یافتہ شکل ہے۔ جس میں سرمایہ دوسرے کے جذبات اور احساسات کا استحصال کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس سے غربت کی خلیج مزید واضح ہوتی چلی جاتی ہے۔ معاشرے میں نا صرف معاشی استحصال پیدا ہوتا ہے، بلکہ سب سے اہم یہ کہ جذباتی استحصال بھی جنم لیتا ہے جو غرباء کے ہاں امرا کے خلاف شدید جذبات کو جنم دیتا ہے۔ ذرائع پیداوار کو کنٹرول کرنے والی فکر معاشرے کی فکر کو کنٹرول کرنے کا سبب بنتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ایسی اخلاقیات کو ترتیب دیتا ہے جس میں صرف سرمایہ دار کے مال کا حسن جمیل لگنے لگتا ہے۔ اخلاقی اقدار کا آئین سرمایہ دار طے کرتا ہے۔
جدلیات یعنی دو مختلف نقطہ نظر کے مابین تضاد، فکر کی حرکت کا سبب ہوتا ہے۔ ہیگل نے اسے واضح طور پر نظریاتی جدلیات کے طور پر پیش کیا جبکہ کارل مارکس نے اسے مادی جدلیات کی صورت میں واضح کیا کہ مادہ یا خارجی دنیا درحقیقت انسان کے تصورات کو بدلنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس سے یہ مراد ہے کہ حالات سے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ حالات حقیقی ہوتے ہیں اور خیالات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے ہی انسان کے حالات بدلیں گے انسان کے خیالات میں بھی بدلاؤ آ جائے گا۔ یعنی کہ نیکی، بدی، عدل، مساوات، اور دیگر اسی طرز کے تصورات تبدیل ہوتے رہیں گے۔
اخلاقیات کے تصورات بھی حالات یا زمانہ کے بدلنے سے تبدیل ہو جائیں گے۔ ہو سکتا ہے جسے آج ہم اخلاقی تصور کر رہے ہیں صدیوں بعد غیر اخلاقی تصور کیا جائے۔ یعنی کہ زمان یا حالات کے تغعیر کے ساتھ اخلاقی قدر میں بھی تغعیر ہو جاتا ہے۔ غرض کوئی بھی تصور حقیقی یا ابدی نہیں ہوسکتا۔ اس طرح سے مادہ یا حالات انسان کے خیالات کو کنٹرول کریں گے اور ایک ایسا معاشرہ وجود پزیر ہوگا، جہاں انسان کی قدر اس کے مادی وسائل سے ہی پیدا ہو گئ۔ اس طرح کے معاشرے میں اجتمائی فکر مادیت کے گرد گردش کرتی ہے۔
مادیت، اجتماعی فکر کو کنٹرول کرنے کا سبب بنتی ہے اور اس طرح سے وہ اپنے تصورات کو برتر بنا کر پیش کرتا ہے۔ انسان جو کہ درحقیقت تخلیقی شعور ہے، اس تخلیقی شعور کا استحصال کیا جاتا ہے اور معاشرہ استحصال کا سبب بنتا ہے۔ انسانی قوت تخلیق کی قدر کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ مادیت ہمارے انداز فکر پر اثرانداز ہو کر اسے اپنے مطابق ترتیب دیتا ہے۔ ہم آج جن قدروں کو درست سمجھ رہے ہیں، کیا یہ واقعی حقیقی سطح پر درست ہیں؟ اس کا ادراک کرنا انتہائی اہم ہے۔
انسانی ذہن کی ساخت کو اس طرح سے ترتیب دے دیا جاتا ہے کہ اس میں بننے والی فکر صرف اس چیز کو صحیح یا حقیقی تصور کرے جو مادیت کے قریب تر ہو۔ اور اس طرح سے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسانی انتخاب ختم ہو جاتا ہے اور مادیت کے زیر اثر فیصلہ سازی ہونے لگتی ہے۔ مادی اخلاقیات دراصل مذہبی اخلاقیات سے مختلف ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسطرح کے معاشرے میں حصول علم درحقیقت حصول مادیت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ علم اپنی سمت اور ماہیت کھو دیتا ہے۔