Milne Ke Nahi, Nayab Hain Hum
ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم
یہ جولائیء1900 کا واقعہ ہے، جب لیو پولڈ ویز، پولینڈ کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا۔ اسکا بچپن شہر لوو میں گزرا جو اس وقت آسٹریا کے قبضے میں تھا۔ اسکا والد پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھا۔ اور دادا رِبی (یہودی مذہبی عالم) تھا۔ اس کا والد اسے ریاضی اور طبیعیات پڑھا کر سائنس دان بنانا چاہتا تھا۔ مگر وہ ان کی توقعات پر پورا نہ اترا۔ کیونکہ اسے سائنسی مضامین کے بجائے عمرانیات سے دلچسپی تھی۔
خاندانی روایات کے مطابق اس نے بچپن میں عبرانی اور آرامی زبانیں سیکھیں اور مذہبی کتابوں کی تعلیم حاصل کی۔ 1914ء میں پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی تو جعلی نام سے فوج میں بھرتی ہوگیا، مگر اسکے والد کی شکایت پر کم عمری کی وجہ سے اسے واپس بھیج دیا گیا۔
یہ سنہ 1932 کا ایک اور واقعہ ہے جب علامہ محمد اسد تحریک پاکستان میں بطور کارکن خدمت کر رہا تھا۔ وہ علامہ اقبال کا قریبی دوست بھی تھا۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلا شہری اور پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرنے کا اعزاز بھی اسے حاصل ہوا۔ اس نئی ریاست کے محکمہ اسلامی تعمیر نو کا ڈایکٹر اور وزارت خارجہ میں اعلیٰ عہدے پر بھی فائز رہا۔ 1952ء تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ اس کا پرانا نام لیو پولڈ ویز تھا، یہ وہی یہودی تھا جس نے اپنا بچپن پولینڈ میں گزارا تھا اور 1926 میں اسلام قبول کر چکا تھا۔
قبول اسلام کے بعد انہوں نے 6 سال مکہ و مدینہ میں گزارے تھے جہاں شاہ فیصل سے ملاقات کی جو اس وقت ولی عہد تھے اور بعد ازاں سعودی مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود سے ملاقات کی پاکستان میں سعودی عرب کا سفارت خانہ بھی انہی کی کاوش کا نتیجہ تھا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ ہسپانیہ چلے گئے تھے جہاں 20 فروری 1992ء کو انہوں نے زندگی کی آخر ی سانس لی۔ تدفین کے لیے محمد اسد کو فلسطین لایا گیا۔ اب وہ غزہ کے مسلم قبرستان میں آرام فرما ہیں۔
علامہ محمد اسد ایک جگہ لکھتے ہیں، اگر پاکستان کو جدید دنیائے اسلام کا ثقافتی مرکز بننا ہے، جیسا کہ اپنے زبردست وسائل اور سیاسی حیثیت کے اعتبار سے اس کا حق ہے، تو ہمیں اس ملک میں ایک مرکزی دارالعلوم قائم کرنا پڑے گا۔ جہاں ہماری علمی ضروریات کے لیے بڑے بڑے مقتدر علما پیدا ہوں۔ اس ادارے کو مصر کی مشہور و معروف درس گاہ جامعہ الازہر کے نقش قدم ہی پر نہیں چلایا جائے گا بلکہ ممکن ہوا تو اس کے نصابات میں عہد جدید کے وہ عناصر تعلیم بھی داخل کردیے جائیں گے، جو اس زمانہ کے مقتضیات کو پورا کرسکیں۔ لہٰذا، اس دارالعلوم کے طلبہ کو قرآن، حدیث، فقہ اور علوم متعلقہ، جس میں قدیم و جدید عربی کا مطالعہ بھی شامل ہے، کے علاوہ موجودہ زمانے کے معاشی اور اجتماعی علوم میں ہونے والی پیش رفت سے بھی اس حد تک باخبر رکھا جائے گا کہ وہ علمائے متقدمین کی طرح ملت کے حقیقی معنوں میں رہنما و پیشوا بن سکیں۔
علامہ محمد اسد کا کوئی وطن نہ تھا اور سارا عالم اسلام ان کا وطن تھا، لیکن پاکستان سے انہیں خصوصی محبت تھی اور ایک قلبی تعلق تھا۔ ان کی بیوی پولا حمید اسد کے الفاظ ہیں کہ "انہیں پاکستان دل و جان سے عزیز تھا۔ وہ تصور پاکستان سے محبت کرتے تھے حالانکہ اس ملک نے انکے ساتھ معاندانہ رویہ اپنایا لیکن وہ کبھی اس طرز سلوک کے شاکی نہ رہے۔ وہ پاکستان کے پہلے شہری تھے اور آخری عمر تک انہوں نے پاکستان کے ساتھ اس گہرے تعلق کو قائم و دائم رکھا"۔
20 فروری علامہ محمد اسد کا یوم وفات ہے۔ یہ تحریر اسی کے پیشِ نظر پاکستان اور عالم اسلام کے لیے انکی خدمات کے اعتراف میں لکھی گی۔