Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Nawaz Amin
  4. Markaziat Se La Markaziat Tak

Markaziat Se La Markaziat Tak

مرکزیت سے لا مرکزیت تک

پانچ ہزار سالہ تاریخ میں انسانی فکر کی مختلف جہتیں سامنے آئیں۔ ازمنہ قدیم سے قرون وسطی تک یورپ میں اعتقاد و مذہبیت انسانی فکر کا محور رہا۔ بعدازاں قرون جدید میں تشکیک و عقلیت پسندی نے انسانی فکر کو تشکیل دیا۔ لیکن 20صدی کے وسط میں بعداز جنگ عظیم انسانی فکرنے ماضی کی تمام مذہبی، سماجی واخلاقی تعبیرات کو رد کرتے ہوئے خود کو مرکز بنایا ہے۔ وجودیت کی اس تحریک میں انسانی فکرنے لا مرکزیت کو مرکز کی حیثیت سے قبول کیا۔ اسی تحریک کے حامی ژاں پال سارتر کے نزدیک انسان اپنے افعال اور اقدام کا خود ذمہ دار ہے۔

کسی کو اس کے کردار، اس کی منزل یا اس کی زندگی کی سمت متعین کرنے کا حق حاصل نہیں۔ زندگی کا مقصد کامل آزادی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کرب سے آزادی حاصل کرے اور اس بات سے چھٹکارا حاصل کرے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔ 21 ویں صدی میں یہ فکر یورپ کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے مشرق کے تہذیبی ڈھانچے میں اس طرح سے شامل ہوئی کہ گویا کوئی عالمگیر تحریک ہو، اسی لیے اس صدی کو لا مرکزیت کی صدی کہا جا سکتا ہے۔ مابعدجدیدیت اور لامرکزیت کی اس تحریک نے انسان کو "ہم " سے "میں " کے زندان میں مقیدکرکے رکھ دیا ہے۔

انسان پرستی کی اس تعبیر نے کائناتی تعبیروں کو بھی از سر نو تشکیل دیا جس میں انسان کو اپنی بقا کائنات کی مادی تعبیر میں معلوم ہوئی ہے۔ جس کی بدولت انسان نے اخلاقی، سماجی و ثقافتی ڈھانچے کو اس طرح سے ترتیب دینے میں اپنی مدد کی ہے جو اسے مادیت کے حصول میں آسانی مہیا کر سکے۔ یووال نوح ہراری اسی مادیت و انسانی مستقبل کے بارے اپنی کتاب سیپینز میں اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے، جس طرح موجودہ انسان نے کراہ ارض پر ہوموسیپینز کی جگہ لے لی تھی، اسی طرح ممکن ہے کہ مستقبل میں کوئی نئی نسل کا انسان، آج کے انسان کی مکمل طور پر جگہ لینے میں کامیاب ہو جائے۔

اسکے نظریہ ڈیٹاازم کے مطابق ممکن ہے کہ انسان کی ہیت ایک ڈیٹا کی حد تک سمٹ جائے اور انسان کا داخلی یا جوہری پہلو مکمل طور پر معدوم ہو کر رہ جائے۔ انسان کی قدیم تا حال فکری جدوجہد سے معلوم ہوتا ہے کہ تہذیب عالم کا پینڈلم جو اپنے نقطہ آغاز، انتہائی مرکزیت یا اعتقاد پسندی سے آزاد ہو کر اب دوسری جانب لامرکزیت یا آزاد پسندی کی طرف گامزن ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اس لامرکزیت کو حتمی تسلیم کرتے ہوئے اس کو اپنی زندگیوں میں داخل کرتے جا رہے ہیں اور یہی عدم مرکزیت اُفتاد ذدہ فکر انسانی کو زمانہ پرستی کی صورت میں تشکیل دینے کا سبب بن رہی ہے۔

وجودیت کی یہ تحریک شرقی ثقافتی ڈھانچے کو بے ترتیب کرنے کے بعد ہمارے سماجی ڈھانچے کو اس طرح سے ترتیب کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے کہ اس کے تمام اجزا ہمیں اپنی ہی تہذیب کے ترکیبی اجزا معلوم ہوتے نظر آرہے ہیں۔

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra