Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Nawaz Amin
  4. Kulli Ya Juzvi Tajzia

Kulli Ya Juzvi Tajzia

کلی یا جزوی تجزیہ

تاریخ کے بہت سے دانشور ایسے ہیں، جنہیں دنیا عظمتِ خیال تصور کرتی ہے لیکن ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں بلند خیال کے زمرے میں شامل نہیں ہوتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ایسے تمام دانشور غیرمسلم تھے۔ لہذا ان کی فکری بالیدگی کو ہماری اجتمائی فکرتعظیم نہیں بخشتی۔ جن میں قابل ذکر نام کارل مارکس، نطشے اور برگساں، کانٹ وغیرہ کے ہیں۔ لیکن حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جب ہم علامہ اقبال کے کلام کو پڑھتے ہیں تو انہوں نے ایک پوری نظم کارل مارکس کی تعریف میں کہی اور اسے عزت بخشی۔

اسی طرح نطشے جو کہ جرمن فلسفی تھا، اسے بھی علامہ اقبال نے خراج تحسین پیش کیا۔ غرض، مسولینی، نیپولین، گرو نانک تمام غیر مسلم تھے مگر علامہ اقبال کے کلام میں بے انتہا خراج تحسین سمیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ علامہ اقبال نے کیوں انہیں نگاہِ رفعت اور اپنی فکرِ نفیس میں شامل کیا ہے؟ کیا علامہ اقبال نے اپنے کلام میں ہمیں یہ سکھانے کی کوشش کی کہ جب بھی کسی شخصیت کا تجزیہ کیا جاے تو وہ تجزیہ "جزوی" ہونا چاہیے۔ یعنی آپ اسکی شخصیت کے متعدد شعوری اجزا کو الگ الگ کر دیں۔ کیونکہ خدا ہر انسان کو ایک خاص مقصد یا تخلیقی شعور دے کر پیدا کرتا ہے۔

جو انسان خدا کے اس مثبت تخلیقی شعور کی حفاظت و نشونما کرتے ہیں اور پرسوز جاں سے انسانوں کے لیے بہتر سامان پیدا کرنے کی سعی کرتے ہیں، خراج تحسین کے مستحق ہوتے ہیں۔ کارل مارکس نے سرمایہ درانہ نظام کا گلہ چاک کیا۔ اسکی کتاب داس کیپیٹل مزدور کی آہ وزاری کی ہی داستان ہے۔ یعنی سرمایہ دار مزدور سے روٹی بھی چھین کر کھا جاتا ہے اور اُس کی بیٹی کی آبرُو بھی لے لیتا ہے۔

نطشے کا سوپر مین بھی خودشناسی کے سفر کے بعد انفرادیت کی معراج پر کھڑا نظر آتا ہے۔ وہ اپنے فلسفے سے انسان میں خداداد صلاحیتیں اجاگر کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہم کسی بھی شخصیت کا "کلی جائزہ" لے کر اس میں موجود اس جزوی قابلیت و تخلیقی شعور کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں، جو اس کی وجہ تخلیق ہوتا ہے۔ جس کی بدولت شخصیت کا تخلیقی حسن معدوم ہو کے رہ جاتا ہے۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari