Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Nawaz Amin
  4. Allama Iqbal Aur Dil Afroz Waqiat

Allama Iqbal Aur Dil Afroz Waqiat

علامہ اقبال اور دل اَفروز واقعات

عشق کی وادی بڑی دور دراز ہوتی ہے لیکن کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ سو سال کا راستہ ایک ہی آہ میں طے ہو جاتا ہے، بطور علامہ اقبال دنیا عشق کی دولت سے قائم ہے اور اس کی دولت آپ ﷺ کہ سینہ مبارک سے حاصل ہوتی ہے علامہ اقبال کو بھی یہ دولت حضور ﷺ سے عشق کی بدولت ہی قدرت نے عطا فرمائی۔

ایک مرتبہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید ملک علامہ اقبال کے پاس تشریف لائے اور دوران گفتگو دریافت کیا کہ آپ حکیم الامت کیسے بنے؟ علامہ نے فرمایا کہ میں نے ایک کروڑ مرتبہ درود شریف پڑھا ہے آپ بھی اس نسخہ پر عمل کرکے حکیم الامت بن سکتے ہیں، اس کے متعلق مزید مولانا محمد سعید احمد مجددی نے لاہور کے مشہور امراض قلب کے ڈاکٹر روف یوسف کے حوالے سے لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے انہیں بھی بتایا کہ ضلع سیالکوٹ کے خواجہ سعید محمد امین شاہ صاحب نے انہیں روزانہ کثرت سے یہ درود "صلی اللہ علی حبیب محمد والہ وسلم۔۔ " پڑھنے کو کہا تھا اور وہ اسے روزانہ دس ہزار مرتبہ پڑھتے تھے۔

عشق و محبت کے کئی دل افروز واقعات علامہ اقبال کی زندگی میں بھی جلوہ افروز ہوئے بلکہ چند ایک تو ان کی وفات کے بعد بھی دیکھنے میں آئے، ان میں سے ایک واقعہ محمد رمضان عطائی کے متعلق ہے جو ایک صدی قبل ڈیرہ غازی خان کے گورنمنٹ اسکول میں تعینات تھے۔ فقیرانہ طبیعت کے مالک تھے، فارسی و اردو کے شعر کہتے تھے اور علامہ اقبال سے خوب دلی لگاؤ رکھتے تھے انہی دنوں ان کے قریبی دوست مولانا محمد ابراہیم ناگی بھی ڈیرہ غازی خان کے سب جج تھے اور انہیں علامہ اقبال سے ملاقاتوں کا اعزاز بھی حاصل تھا۔

ایک دن مولانا ابراہیم لاہور گئے علامہ سے ملاقات ہوئی۔ واپس ڈیرہ غازی خان آئے تو سر شام معمول کی محفل میں علامہ سے ملاقات کا ذکر ہوا تو مولانا نے جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکال کر عطائی کو دکھایا، یہ علامہ کی اپنی تحریر تھی۔ مولانا نے علامہ صاحب کی تازہ رباعی پڑھ کر سنائی

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر

روز محشر عذر ہائے من پذیر

ور حسابم را تو بینی ناگزیر

از نگاہ مصطفےٰ پنہاں بگیر

اے اللہ! تو دو جہانوں کو عطا کرنے والا ہے جبکہ میں تیرا فقیر ہوں، روزِ محشر میری معذرت کو پذیرائی بخش کر قبول فرمانا (اور مجھے بخش دینا) اگر (پھر بھی) میرے نامہ اعمال کا حساب نا گزیر ہو تو پھر اسے میرے آقا محمد مصطفیٰ ﷺ کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔

رباعی رمضان عطائی کے دل پر نقش ہو کے رہ گئی۔ اٹھتے بیٹھتے گنگناتے رہتے انہی دنوں حج پر گئے اور وہاں بھی علامہ کی رباعی پڑھتے رہتے۔

حج سے واپسی پر دل میں ایک عجب آرزو پیدا ہوئی۔ "کاش یہ رباعی میری ہوتی یا مجھے مل جاتی" یہ خیال آتے ہی علامہ اقبال کے نام ایک خط لکھا۔ "فقیر کی تمنا ہے کہ فقیر کا تمام دیوان لے لیں اور یہ رباعی مجھے عطا فرما دیں"۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ انہیں علامہ کی طرف سے 19 فروری 1937 کو لکھا ہوا مختصر سا خط موصول ہوا جس میں علامہ اقبال نے کہا کہ "شعر کسی کی ملکیت نہیں آپ بلا تکلف وہ رباعی، جو آپ کو پسند آ گئی ہے اپنے نام سے مشہور کر دیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے"۔

علامہ نے یہ رباعی اپنی نئی کتاب "ارمغان حجاز" کے لیے منتخب کر رکھی تھی۔ عطائی کی نذر کر دینے کے بعد انہوں نے اسے کتاب سے خارج کرکے، تقریباً اسی مفہوم کی حامل ایک نئی رباعی کہی جو ارمغان حجاز میں شامل ہے۔ 1968 میں محمد رمضان عطائی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے تو ان کی اپنی وصیت کے مطابق یہ رباعی آج بھی ڈیرہ غازی خان کے قبرستان میں ان کی قبر کے کتبہ پر کندہ ہے۔

اسی طرح کا ایک نہایت دل افروز واقعہ علامہ اقبال کی وفات کے بعد دسمبر 1944 میں پیش آیا جو کہ سید جمال الدین افغانی کے متعلق تھا۔ سید جمال الدین افغانی کے متعلق علامہ اقبال اپریل 1932 کو چوہدری محمد احسن کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں"زمانہ حال میں میرے نزدیک اگر کوئی شخص مجدد کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف جمال الدین افغانی ہے۔ مصر و ایران و ترکی و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اسے سب سے پہلے وہاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہوگا"۔

جمال الدین افغانی کی وفات 1897 کو استنبول میں ہوئی تھی اور انہیں وہیں نشان تاش کے قبرستان میں دفن کیا گیا تھا لیکن جمال الدین افغانی کی وفات کے تقریبا 48 سال بعد ترکی اور افغانستان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت ان کا جسد خاکی استنبول سے کابل لا کر دفن کرنے کا فیصلہ کیا اسی اثنا میں ان کا تابوت براستہ دلی لاہور اور پشاور کے راستے کابل پہنچا اور اسی دوران سید افغانی کا تابوت یک شب و روز لاہور میں بھی رہا۔

پنجاب کے مختلف شہروں سے ہزاروں مسلمان زیارت کے لیے لاہور آئے۔ لاکھوں انسانوں کے جلوس کے ساتھ ان کا تابوت شہر سے گزر کر شاہی مسجد میں لے جایا گیا اور وہاں دعائے مغفرت پڑھی گئی اس کے بعد اسے مسجد سے باہر لا کر اقبال کے قبر کے پہلو بہ پہلو رکھ دیا گیا یہ ناقابل فراموش منظر جس میں دو جلیل القدر ہستیوں کی موت کے بعد ملاقات ہوئی، ہزاروں عاشقان لوگوں نے دیکھا۔

21 اپریل 1938 کو علامہ اقبالؒ کی وفات کے بعد قدرت نے علامہ کی مولانا جلال الدین رومی سے محبت کو اسی طرح کے ایک روح پرور واقعہ سے جلا بخشی۔ جب علامہ کے جسد خاکی کی تدفین بادشاہی مسجد کے عقب میں ہوئی تو مولانا روم سے والہانہ عشق کے پیش نظر، ترک وفد نے انکی قبر میں مولانا جلال الدین رومی کی قبر سے مٹی کو لا کر شامل کیا اور علامہ کو مولانا روم سے محبت کی بدولت پذیرائی بخشی۔

مزید یہ کہ 1965ء میں ترک حکومت نے علامہ اقبال کی قبر انور سے مٹی لے جا کر کونیا میں مزارِ مولانا جلال الدین رومیؒ کے احاطے میں دفن کی اور علامہ اقبالؒ کی ایک علامتی قبر بنائی جو آج بھی موجود ہے۔ یوں علامہ اقبال کی حقیقی قبر مبارک لاہور اور علامتی قبر مبارک ان کے محبوب مولانا جلال الدین رومیؒ کے مزار کے احاطے میں موجود ہے۔ اخلاص و محبت کی ایسی داستانیں علامہ کو اسی عشق کی بدولت نصیب ہوئیں جو قدرت نے حضور ﷺ کے سینہ مبارک سے آپ کو عطا فرمایا تھا۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari