Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Qaumi Nisab e Taleem, Chand Tajaweez

Qaumi Nisab e Taleem, Chand Tajaweez

قومی نصاب تعلیم، چند تجاویز

وفاقی وزارت تعلیم کی طرف سے شائع شدہ ایک اشتہار نظروں سے گزرا جس میں رائے مانگی گئی ہے کہ نصاب میں کیونکر تبدیلی ضروری ہے۔ یا نصاب میں کیا ایسا تبدیل کیا جائے، یا نصاب میں بہتری کے لئے اپنی تجاویز ارسال کریں۔ ایک گورنمنٹ کی ویب سائیٹ کا ایڈریس بھی دیا گیا تھا۔ جو تاحال ورکنگ میں نہیں یا پہلے ہی اس کو ہیک کر لیا گیا ہے۔ بندہ نے دو مختلف نیٹ ایکسپلورر سے کھولنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ سوچا اپنے تئیں اس تحریر کے ذریعے ارباب اختیار تک رسائی حاصل کی جائے اور جو چند خیالی پلاؤ ہیں ان کو تحریری شکل میں ڈھال لیا جائے۔

سب سے پہلے ہمیں اپنے ملک میں دستیاب شعبوں کی ایک لسٹ تیار کی جائے۔ اس میں افرادی قوت کی تعداد کا تعین کیا جائے۔ کس شعبے میں ہمیں زیادہ افرادی قوت درکار ہے۔ مجموعی طور پر ہمارا تعلیمی نظام موجودہ معاشرے کی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ہمیں مدرسے اور اسکول کی تعلیم میں موجود فرق کو ختم کرنا چاہئے۔ دسویں کے بعد ہم طالب علموں کو مضامین منتخب کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ ہمیں اس سہولت کو نویں جماعت میں ہی لاگو کرنا چاہئے۔

ہمیں آٹھویں جماعت تک کوئی ایسا طریقہ کار وضح کرنا چاہئے جس سے بچے کی نفسیات، اس کا کس شعبے کی طرف رحجان، یا دلچسپی ہے ایک جدید سائنٹیفک ایپ کے ذریعے ڈیٹا لیا جائے۔ نویں میں اس کو اس کے سابقہ ریکارڈ کے مطابق مضمون رکھنے کی اجازت دی جائے۔ اس سے ہم بہترین رزلٹ لے سکتے ہیں۔

عموماََ ہمارے ہاں بچے دسویں کے بعد معاشی مجبوری (زیادہ تر کیسز) میں تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ ہمیں ان بچوں کو معاشرے کا ایک اہم رکن بنانا ہوگا۔ کوئی ایسا پروگرام رکھا جائے کہ نویں اور دسویں کے بعد وہ بچہ معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے ایک ہنرمند قابل ورکر بننے۔ ہمیں ایسے شعبوں کی نشان دہی کرنی چاہئیے۔ جن کو ہنرمند افرادی قوت مہیا کی جا سکے۔ بیرون ملک بھی ہم صرف انہی لوگوں کو بھیجیں جن کو گورنمنٹ نے تعلیم دی ہو۔

چھوٹے شعبے جیسے الیکٹریشن، پلمبرنگ، پینٹ، ہارڈ ووڈ ورکس وغیرہ۔ صحت کے شعبے فارمیسی، لیبارٹری اسسٹنٹ، دوسرے طبی آلات کی جانچ پڑتال وغیرہ۔ زراعت ہمارا بہت وسیع مضمون اور آئے روز ان میں جدید ریسرچز، ہائبرڈ بیجیز، جدید آب پاشی نظام، باغبانی، وغیرہ ہم اپنی نسل کی توانائیاں صرف ایک اس زراعت کے شعبے پر لگا دیں تو دس سال کے اندر اندر ہم معاشی میدان میں بہت آگے نکل جائیں گے۔ ہمیں ڈیری ڈویلپمنٹ، گوشت کی پیداوار، مرغبانی، فارمز کے حوالے سے اپنے بچوں کو پورا ایک نظام عملی طور پر سکھایا جائے۔

ہمیں سب مضامین کو اختیاری کا درجہ نویں جماعت سے ہی دے دینا چاہئیے۔ مطالعہ پاکستان وغیرہ صرف آٹھویں جماعت تک محدود کر دیا جائے۔ اس کے بعد اگر طالب علم ایسے کسی بھی مضمون کو پڑھنا چاہتا تو وہ اس کی صوابدید پر ہو نہ کہ سب پر مسلط کیا جائے۔ ریاضی کے مضمون کو تین الگ الگ فارمیٹ میں کر دیا جائے، ریاضی میں جو سیٹ یا اعشاری نظام کے باب ہیں ان کو الگ کیا جائے الجبراء اس کو الگ کٹیگری دی جائے۔ جیومیٹریکل کو الگ مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔

عموماََ اساتذہ ریاضی کے شروع اور آخر کے مضامین میں عبور نہیں رکھتے وہ ان کو اہمیت بھی نہیں دیتے بچوں کو صحیح سے یہ سب نہیں پڑھایا جاتا۔ صرف پاس کیسے ہونا وہ طریقہ ہی بتایا جاتا عملی زندگی میں ہر کسی کو یہ ریاضی کی تعلیم کوئی کماحقہ فائدہ نہیں پہنچاتی اس پر بھی غور کرنا چاہئے۔ اسی طرح دینی تعلیم اسکولز میں بھی دینی چاہئے اور اس کا اختیار بھی طالب علم کے پاس ہو نہ کہ کسی بیرون ایجنڈے کے تحت یا کسی مخصوص مقصد کے تحت بچوں کی برین واشنگ کی جائے جس کا تجربہ افغان جنگ میں کیا گیا اور ہم ابھی تک اس شاک سے نہیں نکل پائے۔

اسی طرح دینی مدارس میں بھی دوسرے سب مضامین بلا تفریق پڑھائے جائیں۔ رٹہ سسٹم، نمبروں کی دوڑ، نے ہمارے تعلیمی نظام کے بخئیے ادھیڑ دئیے ہیں۔ ہمیں تخلیقی رحجان کی طرف جانا ہوگا۔ گائیڈوں، خلاصوں، یا نیٹ سے چند سوال یاد کر کے نمبر حاصل کرنے کی کوششوں کی روک تھام کرنا ہوگی۔ امتحانات پیپر لیس کر دئیے جائیں۔ فوری رزلٹ آن لائن کر دیا جائے۔ بورڈز میں موجود امتحانی مافیا سے نجات اسی سے ممکن ہے۔

ہمارا معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہے۔ ہمیں بچوں کی تربیت صرف امتحان میں نمبر کیسے لینے کی بجائے ایسا کامل انسان بنانے پر ہونی چاہئے کہ جب وہ فارغ التحصیل ہو تو ڈگری محض کاغذ کا ٹکڑا بن کر نہ رہ جائے بلکہ ایک معاشرے کا مفید شہری بنے ملک کی خدمت کا جذبہ ہو۔ یہ سب سے بنیادی اور ضروری بات ہے۔ ہمیں اپنے اساتذہ کا ایک نئے سرے سے تجزیہ کرنا ہوگا۔ ایک ایسی چھلنی سے گزرنے کے بعد ہی بچوں کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دینے کے بعد ہی ہم بہتر نتائج حاصل کر پائیں گے۔ صرف ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کی سوچ ختم کرنا ہوگی دوسرے شعبوں کو بھی وہی عزت اور تکریم دی جائے تاکہ یہ جو معاشرے میں تفریق پیدا ہو چکی اس کو ختم کیا جا سکے۔

ایسا کوئی بھی تعلیمی مواد جس سے فرقہ واریت، صوبائیت، لسانیت کو بڑھاوا ملتا ہو اس کو ختم کرنا چاہئے۔ تعلیم کا مقصد ہی انسان کے اندر شعور بیدار کرنا ہوتا ہے۔ نہ کہ نفرتیں، قدورتیں، یا دشمنیاں پالی جائیں۔ موجودہ دور میں قومی ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ ہمیں ایک قوم بننا ہے۔ ملک کا سوچنا ہے۔ ملک کی بہتری ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئیے۔ ہمارا مطمع نظر ہمیشہ پہلے ہمارا ملک ہونا چاہئے، ذاتی مفاد کے لئے پورے ملک کو داؤ پر لگانا کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔

تعلیمی نصاب ایک جیسا ہو۔ کوشش کرنی چاہئے کہ یہ ہماری قومی زبان میں ہو۔

دوسری زبانوں کی تعلیم بھی دینی چاہئے پر صرف انہی لوگوں کو جو خود سے اس زبان کو سیکھنا چاہیں۔

ہمارے ملک کی ابتری میں اہم رول ٹریفک قوانین سے ناواقفیت ہے۔ ہمیں نویں دسویں جماعت میں ٹریفک قوانین، ٹریفک کے اشاروں، سڑک اور فٹ پاتھ کا استعمال اس کی عملی تربیت دی جائے امتحان لیا جائے اور ٹریفک کے ادارے سے معاہدہ کر کے بچوں کو دسویں کے بعد موٹر سائیکل کا لائسینس جاری کیا جائے۔ اور اس سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے بارویں جماعت میں ایل، ایچ وی اور گریجوایشن کے بعد ہیوی ڈیوٹی وہیکل کا لائسنیس ایشو کیا جائے اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل لائسینس کے حصول کو بھی تعلیمی نظام کے ساتھ منسلک کیا جائے تا کہ جو لوگ بیرون ملک ڈرائیور کی نوکری کے لئے جانا چاہتے وہ باآسانی جا کر اپنا باعزت روزگار کما سکیں۔

ضروری نوٹ۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن ادارے کھول دینا کافی نہیں اس کے اندر وہ سب سہولتیں، تجربہ کار اساتذہ کی موجودگی جدید لیب اور عملی تربیت ہر حال میں دینا بہت ضروری۔ عموماََ دیکھا گیا کہ ادارہ موجود لیکن ناکافی اسٹاف اور ناتجربہ کار سفارشی ٹولہ براجمان ہو جاتا ہے اور بے کار ظفر موج بنانے کا سبب بنتا رہتا ہے۔

Check Also

Aap Ki Wazir e Aala Aur Digital Propaganda War

By Syed Badar Saeed