Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Jan Hai To Jahan Hai

Jan Hai To Jahan Hai

جان ہے تو جہان ہے

ہم سب کا واسطہ روز کسی چھابڑی والے سے ناشتہ بیچنے والے، پھل فروش سے، گنڈیریاں بیچنے والے سے، دودھ دہی کی دکان سے پڑتا رہتا ہے۔ نناوے فیصد آپ کو غیر صحت مند ماحول ملے گا۔ آپکو اکثر ایسے مشہور کھانے پینے والے مقامات گندے نالے کے اوپر یا قرب و جوار میں ملیں گے جن کا ذائقہ مشہور ہوگا اور گاہک بھی بے حساب لیکن ہم کبھی ان باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے کہ وہاں صفائی ستھرائی کا کیا معیار ہے۔

بیرے کے کندھے پر ایک میلا کچیلا رومال ہوگا جس سے وہ ٹیبل کی صفائی کرے گا پھر سے اسے اپنے کندھوں پر سجا لے گا۔ انہی گندے ہاتھوں سے وہ کھانا بھی دے جائے گا اور ہم مزے سے کھا لیں گے۔ دودھ دہی والا انہی ہاتھوں سے گندے پیسے گن کر دراز میں ڈالے گا۔ پیسے گنتے وقت اگر مشکل پیش آئے تو لعاب دہن سے کام چلائے گا۔ مزید برآں جس پلاسٹک کے تھیلی میں دودھ یا دہی دینا ہو اس تھیلی کا منہ کھولنا ہو تو پھونک مارے گا نہ کام بنے تو وہی لعاب دہن ایک بار پھر مشکل آسان کرنے کے لئے حاضر۔

ایک جگہ تو خود مشاہدہ کیا کہ فرش پر گرے ہوئے پانی سے انگلی کو گیلا کرکے پلاسٹک کی تھیلی کا منہ کھولا جا رہا اور پھر اسی انگلی سے اس تھیلی کو ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ کر اس کو گہرا بنانے کے لئے اندر تک ٹھونگیں مار رہا تھا۔ جب اس کی اس غیر معیاری حرکت کی نشان دہی کی گئی تو مجھے خود کو شرمندگی محسوس ہوئی کہ میں نے غلط بندے کو غلط جگہ پر نشان دہی کرکے غلطی کا ارتکاب کیا کیونکہ موصوف یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ فرش کا پانی گندہ ہو سکتا ہے۔

بظاہر تو یہ ایک چھوٹی سی غیر معمولی حرکت ہے لیکن دکھ اس بات کا کہ ہمیں ابھی تک حفظان صحت کے حوالے سے مکمل آگہی موجود نہیں ہے۔ ہم کٹے ہوئے پھل ریڑھی سے لیکر کھاتے ہیں لیکن اس پر سارا دن ٹریفک کا دھواں مکھیاں اپنا کام دیکھا چکی ہوتی ہیں۔ گنڈیریاں ہم بڑے شوق سے کھاتے ہیں پہلے گنڈیریاں موقع پر تیار کی جاتی تھی اب بھی کہیں کہیں ایسی مل جاتی ہیں۔ لیکن اس کاروبار کی وسعت پذیری کو دیکھتے ہوئے یار لوگوں نے کسی ایک مقام پر بڑی مشینری کی مدد سے ایک ہی بار گنڈیری کاٹ کے رکھ لیتے ہیں ادھر سے ریڑھی والے بوریوں میں بھر کر اپنے مطلوبہ مقام پر لے جا کر بیچ دیتے۔

اس دوران گنڈیریوں پر کیا بیتتی ہے کبھی گنڈیری کو اس سلائیڈ پر رکھ کر دیکھا جائے جس سے لیب میں کام لیا جاتا ہے۔ گنڈیری کو جگائے رکھنے کے لئے اور وزن بڑھانے کے لئے وقفے وقفے سے پانی کا چھڑکاؤ بھی کیا جاتا۔ یہ عظیم کام بھی انہی ہاتھوں سے کیا جاتا جس سے ریڑھی کو دھکیلا جاتا جس سے سگریٹ، پان، بیڑی، گٹکا، سپاری یا نسوار منہ میں رکھی جاتی ہے بالائے ستم یہ کہ پانی جب وافر گنڈیریوں سے نکل کر ریڑھی کے ایک کنارے پر جمع ہو جاتا تو اسی پانی کو قابل استعمال بنانے کے لئے دوبارہ سےگنڈیریوں کے اوپر چھڑکا جاتا ہے۔ ایسا کرکے وہ بندہ بہت نیکی کما رہا ہوتا ہے کیونکہ اس سے جگر کے ڈاکٹر کی روزی روٹی کا سبب بنتا۔

جو بندہ یرقان یا جگر کی گرمی (حکماء کی زبان میں) مبتلاء ہوتا اس کو گنے کا رس تجویز کیا جاتا ہے۔ پر ادھر جو حالات اس سے آپ سب بخوبی آگاہ ہیں۔ پانی کی بالٹی ایک طرف لٹکی ہوتی اسی میں سے گلاس کو بار بار غوطہ دے کر نکال لیا جاتا ہے۔ شاید ادھر یہ سوچ لیا جاتا ہے کہ گنگا جمنا میں غوطہ لگانے سے گناہ دھل جاتے ہیں تو ایک بالٹی میں گلاس کو غوطہ دینے سے گلاس کیونکر نہیں دھلتے ہوں گے۔ ایسا ہی آپ کو چائے کے ڈھابے پر دیکھنے کو ملے گا۔

آجکل سلاد کی ریڑھیاں جا بہ جا نظر آتی ہیں۔ کم پیسے لگا کر اچھا پیسہ کمایا جا رہا لیکن حفظان صحت سے کوئی سروکار نہیں۔ ایک دل عزیز فنکار تھے انہوں نے ایک بار نانبائی کی عکاسی بہت اچھے سے کی تھی وہ مشاہدہ آپ کبھی بھی کسی بھی تندور پر نشر مکرر کے طور پر فری دیکھ سکتے ہیں کہ روٹی کا پیڑے سے لیکر تندور تک کا سفر کن جاں گسل مراحل سے گزر کر ہمارے نوالے کی زینت بنتا ہے۔

بیکریوں کے اندر کے معاملات خاص کر پاپے جو ہم بڑے شوق سے کھاتے ہیں بڑوں سے سنا ہے کہ بیٹے اگر آپ کبھی پاپے بنتے دیکھو تو کبھی نہ کھاؤ۔ شکر ہے میں نے ابھی تک بنتے نہیں دیکھے اس لئے شوق سے کھا لیتا ہوں۔ اس طرح کے مشاہدات تو بہت ہیں لیکن ابھی انہی پر اکتفا کروں گا۔ اصل سوال یہ کہ ہم میں یہ شعور کب اجاگر ہوگا کہ ہمیں اپنی صحت عزیز ہے۔ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی صحت کا سودا سر بازار عام کرتے ہیں۔

جو لوگ یہ سب غیر معیاری اور حفظان صحت کے اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے ان کو یہ احساس کون دلائے گا؟ ان کو حفظان صحت کی اہمیت کی تعلیم دینا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ انجانے میں یہ سب کرتے ہیں۔ اگر ان کو باور کروایا جائے کہ ہسپتال میں جو رش دیکھنےکو ملتا اس میں سب سے زیادہ کردار آپ کا ہے تو شاید کچھ بہتری دیکھنے کو ملے۔ محکمہ فوڈ اتھارٹی کا چالان کرنا کافی نہیں۔ نہ ہی یہ مسئلے کا حل ہے۔

ہر کھانے پینے کا کاروبار کرنے والے کے لئے ایک ایس او پی بنایا جائے ان لوگوں کو ایک ڈاکومینٹری فلم کے ذریعے وہ سب سمجھایا جائے تب ان کے اندر احساس ندامت، اور ضمیر کو جگایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں خود کو بھی چاہئے کہ جب بھی کوئی ایسا عمل دیکھیں جس سے زندگی کو براہ راست کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اس بندے کو اس کی غلطی کی نشان دہی ضرور کریں۔ ایسی جگہوں سے کھانے پینے سے احتراز کریں جہاں سے کوئی نالہ وغیرہ گزرتا ہو یا ہسپتال وغیرہ کے ان جگہ سے جہاں پر حفظان صحت کے اصولوں سے روگردانی کی جا رہی ہو۔

بہت ضروری کہ کاغذ کے بنے ہوئے برتن جو ایک بار ہی استعمال ہوتے ان کو ترجیح دی جائے۔ پلاسٹک کے پائپ کا استعمال ترک کیا جائے سنا ہے کہ وہ سرنجز کی ویسٹ سے تیار کئے جاتے ہیں۔ اس بندے سے خرید کریں جو ہاتھوں پر پلاسٹک کے دستانے استعمال کرتا ہو، سر ڈھانپا ہو، ایپرن صاف ستھرا ہو، مکھیوں اور فضائی آلودگی سے بچاؤ کا سامان کئے ہوئے ہو۔

بیماریاں انسان کا گناہ مٹانے کے لئے آتی ہیں لیکن خود سے بیماریوں کو دعوت دینا شاید یہ مناسب طرز عمل نہ ہو کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔

Check Also

Qissa e Pareena

By Dr. Ijaz Ahmad