Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Iqra

Iqra

اقراء

چوبیس جنوری اقوام متحدہ کے کلینڈر چارٹر کے مطابق تعلیم کا عالمی دن مقرر کیا گیا ہے۔ تمام اقوام میں تعلیم کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ کوئی بھی ذی شعور انسان تعلیم کی اہمیت، افادیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ اگر ہم اپنے مذہب اسلام کے حوالے سے بھی دیکھے تو وحی کا آغاز اقراء سے کیا گیا۔ جو تعلیم کی اہمیت پر مہر ثبت کرتی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے تعلیم میں بھی تخصیص کر لی۔ دینوی اور دنیاوی تعلیم کو الگ الگ پلڑوں میں ڈال دیا۔ جس سے معاشرے میں بھی تفریق نمایاں ہوئی۔ تعلیم کا بنیادی مقصد شعور کو بیدار کرنا، دلیل سے بات کرنا اور انسان کو مہذب بنانے میں مدد کرتی ہے۔

موجودہ دور میں اگر تعلیم کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دور حاضر میں ہم جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ موجودہ عالمی رحجانات سے مطابقت کم کم رکھتی ہے۔ ہم ابھی تک غلامی کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس دور میں جو سلیبس خاص کر ہمارے خطے کے لوگوں کے لئے ترتیب دیا گیا تھا۔ اس کے پیچھے ان کا ایک خاص نقطہ نظر تحقیق شامل تھی۔ وہ تعلیم صرف کلرک بننے کی حد تک تھی۔ فی زمانہ ہمارے بچوں میں یہ بات راسخ کی جا چکی ہے کہ میرٹ بننا چاہئے تاکہ اچھی نوکری مل سکے۔ اس سوچ نے تمام اخلاقیات کو گروی رکھ دیا ہے۔ جو کہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک تصویر کافی وائرل رہی جو پولیس کانسٹیبل بھرتی کے لئے کسی سٹیڈیم میں پیپر دیتے نوجوانوں کی تھی۔ ہم نے تعلیم کو بس نوکری حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اوپر سے ہمارا تعلیمی ڈھانچہ الا ماشاللہ۔ ہم فوج ظفر موج تیار کئے جا رہے بغیر کسی سوچ بچار کے ہمارے بچے رٹو توتے (طوطے) بنائے جا رہے ہیں۔ اس میں زیادہ قصور وار محلوں میں کھمبیوں کی طرح اگے ہوئے تین تین مرلے پر مشتمل اسکولز ہیں۔ ستم ظریفی اب کالجز بھی ایسی ہی عمارتوں میں قائم کئے جا رہے ہیں۔

ہمارے سی، ایس، ایس آفیسر جو ملک کی کریم ہوتے ان کے پیپرز میں جوابات مزاح کا ایک خزانہ لئے ہوتے ہیں۔ دل سے غالب کا یہ مصرع زبان پر آتا ہے "حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں" کے مصداق حالت ہو جاتی ہے۔ یہ ہمارے ہاں ہی ممکن ہے اور اسی سے ہماری سنجیدگی کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے ہاں وزیر تعلیم ان پڑھ بھی تعینات کیا جا سکتا ہے۔ اگر ملک کی پستی کی تشخیص کرنی ہو تو نظام تعلیم کی خامی ام الامراض ثابت ہو۔

اگر ہمارے بڑے آج سر جوڑ کے بیٹھیں ایک مربوط نصاب جو موجودہ حالات سے ہم آہنگ ہو پچاس سال کی تعلیمی پالیسی تشکیل دیں۔ تعلیم کو تختہ مشق نہ بنائیں چند بیوروکریٹ کے حوالے نہ کریں۔ پوری دنیا میں یہ مسلمہ حقیقت کہ مادری زبان میں تعلیم زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ تعلیم وہ ہونی چاہئے جو کوئی ہنر سکھائے، ہنر مند بنائے نہ کہ کلرک بنائے۔ چند دہائیوں سے ہم اچھے استاد قابل اساتذہ کی کمی دیکھ رہے ہیں۔ اچھے اساتذہ تیار کئے جائیں ایک چھلنی سے گزرنے کے بعد ہی بچوں کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دینا چاہئے۔

ایسے ادارے جہاں کوایجوکیشن کی تعلیم دی جاتی ہے جس میں میڈیکل ہائیر ایجوکیشن کے ادارے بھی شامل ہیں۔ اساتذہ کے غیر اخلاقی واقعات تواتر سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ جو کہ ہم سب کے لئے باعث شرم ہے۔ تعلیم کا نظام وفاق کے پاس ہونا چاہئے تاکہ تعلیمی نصاب ایک جیسا ایک جیسی پالیسی کے تحت چلایا جا سکے۔ نہیں تو ہم آدھا تیتر آدھا بٹیر بناتے رہیں گے۔ اور دوسری اقوام سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔

ہمیں ایسی تعلیم کی ضرورت جو ہمیں عمل کی طرف لے کر جائے مقصد ڈگری کا حصول ہرگز نہیں ہونا چاہئے ہمارا یہ مقصد نہیں ہونا چاہئے کہ ڈگری ڈگری ہوتی اصلی ہو یا جعلی۔ تعلیم کے حصول کے لئے یہ فرمان پیش نظر رہنا چاہئے کہ "تعلیم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے"۔ تعلیم کی تقسیم سے گریز کرنا چاہئے۔ علم کوئی بھی ہو کہیں سے بھی ملے سمیٹ لینا چاہئے۔ انسان ساری زندگی طالب علم ہی رہتا ہے۔ باقی رہے نام اللہ کا۔

Check Also

Khud Ko Khud Promotion Dein

By Azhar Hussain Bhatti