Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Aik Darakht Ka Sawal Hai Baba

Aik Darakht Ka Sawal Hai Baba

ایک درخت کا سوال ہے بابا

موسم بہار شروع ہو چکا ہے۔ محکمہ جنگلات انگڑائی لے کے جاگ چکا ہے۔ اس کا ثبوت اخبارات میں درخت لگانے کے اشتہارات ہیں۔ لاکھوں کروڑوں روپے ان اشتہارات پر لگانے سے کہیں بہتر ہے کہ عملی طور پر شجر کاری مہم کو اپنایا جائے۔ اس میں محکمہ جنگلات کو تن، من، دھن سے ملک کو ایک گرین ملک بنانے کے لئے اقدامات لینے ہوں گے۔ ابھی تک سوائے پچھلی حکومت کے جس نے موسمی تبدیلی کا ادراک کرتے ہوئے سونامی ملین ٹری لانچ کیا اور کافی حد تک لوگوں میں شعور بیدار بھی کیا۔

اور کچھ سوشل میڈیا پر ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے کہ جدھر ابھی درخت لگائے ہی گئے تھےکہ سیاسی رقابت حسد اور جلن میں مبتلا نفسیاتی کرداروں نے وہ پورے جوش اور جذبے سے اکھاڑ پھینکے اور فتح کے شادیانے بجا رہے تھے۔ جسے دیکھ کر دل خوں کے آنسو رویا کہ ہم لوگ خود ہی اپنے دشمن ہیں۔ ہمیں باہر سے کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ عدم اعتماد کے بعد جو لوگ حکومت میں آئے اور جنہوں نے بجائے اس اچھے کام کو جاری رکھنے کے اپنا اندر کا ظرف ظاہر کیا اور سونامی ملین ٹری پر انکوائری بٹھا دی ایسے لوگ بدقسمتی سے ہمارے لیڈر ہیں جو صرف اور صرف بغض عمران میں ملکی مفاد کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔

ٹمبر اور قبضہ مافیا نے جس طرح درختوں کا قتل عام کیا اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملے گی۔ اگر ماضی کے ریکارڈ کو جانچا جائے تو اس حساب سے ہمارے ملک کے چپے چپے پر درخت موجود ہونا چاہئے تھا۔ پر یہ زمینی حقائق اس کی نفی کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں شیشم، دیسی کیکر عام تھے جن کا فرنیچر بہت مضبوط اور اعلیٰ کوالٹی کا بنتا تھا، ناپید ہو چکے ہیں۔ ہمارے محکمہ جنگلات کی پھرتیاں بغیر ہوم ورک کئے پتہ نہیں کیسے سفیدے کے درخت اگانے لگانے کی ترغیب دی گئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے سڑکوں کے کنارے ان درختوں کی بھرمار کر دی گئی۔

اب ہوش آ رہا کہ جی غلطی ہوگئی یہ درخت ہماری زمین سے مطابقت نہیں رکھتا اس کو صرف کلراٹھی علاقوں میں ہی لگانا چاہئے۔ پانی کی کمی کے مسائل پھن پھیلائے کھڑے ہیں ایسے میں یہ پودا جو بہت زیادہ پانی کا رسیا ہے۔ اس کے پتے زمین میں کھاد کا کام بھی نہیں دے سکتے تو کیوں ہم خود کو خود فریبی میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ایسے درخت کی طرف جانا چاہئے جو ماحول دوست ہو، آکسیجن زیادہ مہیا کرتا ہو، ہماری زمین سے مطابقت رکھتا ہو، بڑھوتری جلدی ہوتی ہو۔

ہمیں اپنی شجر کاری مہم کی پالیسی پر ازسر نو غور کرنا ہوگا۔ درخت کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا سمجھانا ہوگا۔ قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ جب تک ہم اپنے بچوں کے دماغ میں یہ بات راسخ نہیں کر دیتے کہ درخت انسانی زندگی کے لئے کتنی اہمیت کے حامل ہیں چین سے نہیں بیٹھنا چاہئے۔ میری نظر میں شجر کاری کی کامیابی کی کلید تعلیمی اداروں میں موجود طلبہ کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔ ایسی پالیسی مرتب کی جائے کہ جو بچہ چھٹی کلاس میں آئے اسے ایک کوڈ نمبر الاٹ کیا جائے وہ کوڈ نمبر ہی اس کا اسکول اور امتحانی رول نمبر شمار کیا جائے۔

ایک درخت اس سے لگوایا جائے چاہے وہ پھل دار ہو یا سایہ دار ہو۔ میٹرک تک وہ اس کی ہر طرح سے دیکھ بھال کرے میٹرک کے رزلٹ میں اس کو درخت اگانے، درخت کی دیکھ بھال کرنے کے سو نمبر دئیے جائیں۔ جو کوڈ نمبر دیا گیا ہو وہ اس درخت پر کنندہ ہو اور وہ ایک سسٹم میں موجود ہو جیو فینسنگ سے اس کو مانیٹر کیا جا سکے۔ درخت کی دیکھ بھال سے اس بچے کے اندر ایک شفقت، رحم دلی، ذمہ داری عود کر آئے گی جو یقینََا آنے والے وقتوں میں ایک مفید شہری ثابت ہوگا اور معاشرے میں بہتری کا سبب بھی بنے گا۔

اگر ہم اس پالیسی کو دس سال کے لئے مستقل بنیادوں پر چلا لیں تو ہمارا ملک سرسبز و شاداب ہو جائے گا۔

عموماََ دیکھا یہی گیا ہے کہ ہر سال میڈیا پر شجرکاری شجرکاری کھیلی جاتی زمین پر اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور جو شجرکاری کی جاتی ہے بعد میں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے پودا اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ شروع میں پودے کا خیال ایک نوزائیدہ بچے کی طرح کرنا ہوتا ہے۔ تب جا کر وہ ایک تناور درخت بنتا ہے۔ ہمارا نہری نظام اتنا وسیع ہے اگر اس کی نہروں کے دونوں اطراف پھل دار پودے زمین کی صلاحیت کے مطابق لگا دیں تو غریب عوام کو پھل مفت کھانے کو مل جائیں گے اور بیماریوں کے خلاف بھی قوت مدافعت بڑھے گی ہسپتالوں میں رش کم ہوگا۔

ملکی درجہ حرارت میں کمی واقع ہوگی۔ سیلاب کی روک تھام میں مدد ملے گی۔ آلودگی میں کمی آئے گی۔ بارشوں کا سسٹم وجود میں آ جائے گا۔ فصلیں اچھی ہوں گی۔ کسانوں کو باغبانی کی اہمیت سے روشناس کروایا جائے روائتی زراعت سے جان چھڑائی جائے۔ ہمارا ملک پھلوں میں خودکفیل ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو برآمد بھی کر سکتا ہے۔ جس سے کثیر زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔

لیکن جو اوپر پالیسی میکر سیاسی جگادر بیٹھے ہیں۔ ان کی ترجیحات میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اسلئے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

میں تو اپنے ہر پاکستانی سے ایک بھیک مانگ رہا ہوں کہ خدارا ایک درخت لگائیں - یہ ایک صدقہ جاریہ ہے۔

"ایک درخت کا سوال ہے بابا"۔

Check Also

State Of The Art Studio

By Syed Mehdi Bukhari