Sarkari Adabi Idare Aur Merit?
سرکاری ادبی ادارے اور میرٹ؟

ایسے بگڑے ہوئے نظام پر تین حرف بھیجنے کو جی چاہتا ہے، جس میں میرٹ نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی ہو۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ رشوت اور سفارش نے پورے ڈھانچے کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ یہاں قوانین وہ بناتے ہیں جو اپنی مرضی سے بول نہیں سکتے۔ فیصلے وہ لکھتے ہیں جن کے ہاتھ آزاد نہیں۔ قانوں وہ نافذ کرتے ہیں جو قانون کا ذرا احترام نہیں کرتے اور سرکاری ایوارڈز وہ بانٹتے ہیں جو مطالعے کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔
ستم تو یہ ہے کہ سفارش کا دیمک حمد، سیرت پاکﷺ اور نعتیہ شاعری کی کتابوں پر ملنے والے ایوارڈز تک بھی پہنچ گیا ہے۔ مدحت کے نام پر سرکاری محفلیں سجائی جاتی ہیں تو وہاں بھی رضائے رسولﷺ کی بجائے مفادات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، فون آتے ہیں، پرچیاں چلتی ہیں اور کمال مہربانی سے دو چار شاعر ایسے بھی مدعو کر لیے جاتے ہیں، جن سے سرکاری اخراجات کا جواز پیدا ہو سکے۔ اقبال نے سچ ہی کہا تھا:
ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو، یہ انداز مسلمانی ہے
کبھی کبھی خیال آتا ہے اس رونے دھونے کا فائدہ؟ جس ملک میں اوپر سے نیچے تک بڑی بڑی کرسیوں پر چھوٹے چھوٹے افراد برسوں سے بٹھائے جا رہے ہوں وہاں ہماری صدا، صدا بصحرا سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے؟ اگر یہاں سفارش کی حکمرانی نہ ہوتی تو کیا قومی ایوارڈز اس طرح تقسیم ہوتے جیسے اس بار ہوئے ہیں۔ اس فراخ دلی سے تو شاید کوئی ریوڑیاں بھی نہیں بانٹتا۔ غالب نے کہا تھا:
ع۔ دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
حضرت غالب شکر کریں کہ ان کے سامنے تماشا نہ ہوا ورنہ آج تو ہمارے ارد گرد، ڈنکے کی چوٹ پر ہر روز تماشا ہوتا ہے، کبھی مشکل حالات کے نام پر، کبھی ملک بچانے کے نام پر، کبھی معیشت کی بحالی کے نام پر، کبھی غربت مٹانے کے نام پر اور کبھی پاکستانی زبانوں کے ادب کے نام پر، جن مسندوں پر مولوی عبد الحق، حمید احمد خاں، امتیاز علی تاج، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، اشفاق احمد، شہرت بخاری، وحید قریشی، شہزاد احمد اور افتخار عارف جیسے زعما بیٹھتے تھے، آج دیکھیں ان مسندوں پر کون بیٹھے ہیں؟ نہ تحقیق و تنقید سے کوئی واسطہ، نہ قومی زبان سے کوئی جان پہچان، نہ فروغ ادب کی جستجو، ہاں ایک آرزو ضرور ہے اور وہ یہ کہ جتنے مفادات سمیٹ سکتے ہو، سمیٹ لو، آج موقع ہے پھر نہ جانے کبھی آئے نہ آئے۔ لوٹ مار کا یہ بازار کوئی دو چار برس میں گرم نہیں ہوا، اس کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے۔ محکمہ بحالیات سے لے کر قبضہ مافیا تک کی تاریخ۔
سرکاری ادبی اداروں میں نشریاتی ادارے بھی ہیں جیسے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان۔ یہ ادارے کسی زمانے میں اپنے قدموں پر کھڑے تھے، آج جی حضوری میں لیٹے ہوئے ہیں۔ کم از کم پی ٹی وی یعنی پاکستان ٹیلی ویژن سے تو ادب کب کا رخصت ہو چکا ہے۔ چھے ماہ یا سال بعد اگر کوئی مشاعرہ یا ادبی پروگرام ریکارڈ کیا بھی جاتا ہے تو ادیبوں یا شاعروں کی فہرست بناتے ہوئے اس بات کا پوری طرح خیال رکھا جاتا ہے کہ فائدہ کس سے ہو سکتا ہے اور نقصان کس سے؟ حکم نامہ کس کے لیے ہے اور پرچی کس کے پاس ہے؟ کیا قومی ادبی اداروں سے لے کر پلاک تک، لاکھوں کروڑوں کے بجٹ پر چلنے والے یہ سفید ہاتھی احتساب سے مستثنئی ہیں، اگر نہیں تو پھر ان کا احتساب کب ہوگا؟ کاش ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ یہ جان سکیں کہ اداروں کو جتھوں کی نہیں، ماہرین کی ضرورت ہے، براہ کرم اپنے چمچوں اور کڑچھوں کو نوازنے کی بجائے حق داروں کو ان کا حق دیجیے پھر دیکھیے ذرے آفتاب کیسے بنتے ہیں۔
معاف کیجیے ہم جذبات کے بہاؤ میں نہ جانے کیا کیا کہ گئے! ہم نے ان لوگوں سے بھی توقعات وابستہ کر لیں جو نہیں جانتے وفا کیا ہے؟ اکثر سرکاری ادبی اداروں پر ریٹائرڈ لوگ مسلط ہیں اور اپنی زندگی کی اخری اننگز کھیل رہے ہیں مگر مجال ہے مفادات اٹھانے اور میرٹ کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کمی أئی ہو۔ ان کی مستقل مزاجی کو داد دینی چاہیے۔ ورنہ اگر انھیں اپنی عمر کا ذرا بھی خیال ہوتا تو نہ ریوڑیوں کی طرح قومی اعزازات بٹتے اور نہ ہی سرکار دو عالمﷺ کے نام پر سجائی جانے والی محفلوں اور مشاعروں میں میرٹ کا اس طرح استحصال کیا جاتا۔ جو کل تھے وہ أج نہیں ہیں اور جو آج ہیں وہ کل نہیں ہوں گے۔ بس رہے نام اللہ کا۔

