Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ayub Nadeem
  4. Aik Ghareeb Fankar Ke Naam

Aik Ghareeb Fankar Ke Naam

ایک غریب فنکار کے نام

نذیر انجم مر گیا۔ ایک غریب فن کار رخصت ہوگیا۔ ایک اور مفلس غربت، ناداری اور کسمپرسی کے عالم میں دم توڑ گیا تو کیا ہوا، نہ حکومت کو کوئی فرق پڑا، نہ کسی ادارے کو۔ اگر دکھ ہوا تو صرف اُس کے گھر والوں کو اور وہ بھی کتنے دنوں تک:

بڑے بڑے دن ہو جاتے ہیں ماہ و سال میں گم

نذیر انجم سے میری پہلی ملاقات 1990ء کی دہائی میں پی ٹی وی لاہور سنٹر میں ہوئی تھی۔ گندمی رنگ کا یہ نوجوان دیکھنے ہی میں مفلس لگتا تھا، مگر اس پر ایک خبط، ایک جنون سوار تھا۔ ٹی وی آرٹسٹ بننے کا جنون، مشہور ہونے کا خبط۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ پہچانا جائے لیکن اُس کے پاس وسائل نہیں تھے۔ بہت منت سماجت کرکے وہ کسی پروڈیوسر کی گیٹ لسٹ میں اپنا نام لکھواتا، تاکہ اگلے روز ٹی وی سنٹر میں داخل ہوسکے۔

سنٹر میں داخل ہوتا تو کبھی کسی پروڈیوسر کا پانی بھرتا۔ کبھی کسی کے لیے چائے لاتا اور کبھی کسی کی گاڑی صاف کرتا۔ وہ یہ سب اس لیے کرتا کہ کوئی پروڈیوسر اُسے اپنے ڈرامے میں کاسٹ کرے۔ بعض پروڈیوسر اُس کی دل جوئی کے لیے کبھی کبھی اُسے کسی چھوٹے موٹے رول میں کاسٹ بھی کر لیتے۔ اُسے عموماً کسی غریب یا غنڈے کا کردار ملتا۔ غربت تو اس کے چہرے سے ٹپکتی تھی اور پھر وقت کی گرد نے اُس کے چہرے پر جو ڈنٹ اور داغ لگا دیے تھے، اسے غنڈہ ظاہر کرنے کے لیے کافی تھے۔

حقیقت میں وہ غریب ضرور تھا لیکن غنڈہ یا بدمعاش ہر گز نہیں۔ وہ بہت عاجز انسان تھا۔ ہر ایک کی عزت کرنے والا، ہر ایک کے سامنے خاک ہونے والا۔ کسی بڑائی کا دعوی، نہ کوئی پھڑ۔ مجھے جب بھی ملتا میرے گھٹنوں کو چھوتا۔ وہ اور بھی کئی لوگوں کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتا تھا مگر میرے گھٹنے چھونے کا سبب تھا کہ میں اپنے لکھے ہوئے ڈرامے میں اُسے کوئی نہ کوئی رول ضرور دلوا دیتا تاکہ اُس کے ایکٹر بننے کی خواہش بھی پوری ہو جائے اور اسے چیک بھی مل جائے۔ اُسے عموماََ سپورٹنگ ایکٹر کا چیک ملتا یا مائنز کا، جس کی رقم بہت کم ہوتی تھی۔

مجھے ایک روز یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ ایک پروڈیوسر کا اسٹنٹ یا شاید "تانگہ" اس سے راز داری کے ساتھ کچھ رقم وصول کر رہا تھا۔ بعدازاں میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ چیک کی آدھی رقم واپس کرنا پڑتی ہے، اگر نہ دیں تو آئندہ رول نہیں ملتا۔ پی ٹی وی میں یہ ستم صرف نذیر انجم پر روا نہیں تھا، ہر غیر معروف فن کار اس ستم کا شکار تھا، مگر ستم شعار سبھی نہیں، چند پروڈیوسر یا ان کے اسسٹنٹ تھے جنھوں نے اپنی تنخواہ کے ساتھ اس "کک بیک" کو بھی اپنی آمدنی کا ذریعہ بنا لیا تھا۔

نذیر انجم جیسے اور بھی بہت سے فن کار تھے، جن کی عمریں شہرت کی أرزو میں صرف ہوگئیں، مگر انھیں نام نہ مل سکا۔ ایسے اداکار چھوٹے چھوٹے کرداروں کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور انہی میں مر جاتے ہیں۔ پی ٹی وی کے اندر بعض شوقیہ فن کاروں کو "تانگہ" بھی بننا پڑتا تھا یعنی کچھ لانے اور لے جانے والے خدمت گزار۔ اب اس "کچھ" سے کیا مراد ہے؟ یہ وہی جانتے ہیں جو پی ٹی وی کے اندرونی کلچر سے واقف ہیں۔

نذیر انجم ایک عرصہ علیل رہا، ہسپتال میں داخل بھی رہا، اس نے اپیلیں بھی کیں مگر اُس کی مالی امداد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ پی ٹی وی جس پر اس نے اپنی پوری زندگی نثار کر دی تھی بدستور بےحس رہا۔ وزارت اطلاعات و نشریات سمیت بڑے بڑے دعوے کرنے والے کسی بھی ادارے نے اُس کی مدد نہ کی، وہ ایڑیاں رگڑتے رگڑتے مر گیا اور اُسے اس کے آبائی شہر شیخوپورہ میں سپردخاک کر دیا گیا۔ حکومت نے بھی سکھ کا سانس لیا کہ اُس کی موت سے غربت ایک درجہ کم ہوگئی!

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz