Brown Sahib, Fan Aur Fikri Baseerat Ki Kahani
براؤن صاحب، فن اور فکری بصیرت کی کہانی

شعیب محمود زمانۂ حاضر کے ایک نمایاں مصور، محقق اور استاد ہیں جو جامعہ پنجاب لاہور سے وابستہ ہیں۔ ان کی حالیہ نمائش "Brown Sahib" فنی اور فکری بصیرت کی کہانی ہے، جس میں انہوں نے انگریز دور کی سوچ، زبان اور مقامی لوگوں کے ساتھ رویے کو مصوری کی زبان میں بیان کیا ہے۔ شعیب نے اس نمائش میں منی ایچر تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے نوآبادیاتی دور کے اثرات کو اجاگر کیا ہے۔ ان کی تصویریں جمالیات کے ساتھ ہمارے ماضی اور موجودہ شناخت سے جُڑی ہوئی ہیں۔
برصغیر کی تہذیبی، فنی، سماجی اور سیاسی تاریخ نہایت قدیم اور شاندار ہے، جس کا تعلق قبل از تاریخ ادوار سے جڑا ہوا ہے۔ برصغیر ہمیشہ سے حملہ آوروں کے لیے کشش کا مرکز رہا ہے۔ اس خطے کی زرخیزی، وسائل اور جغرافیائی اہمیت نے مختلف ادوار میں کئی اقوام کو یہاں کی طرف راغب کیا۔ آریہ، یونانی، سیتھین، کشان، ہن، عرب، ترک، افغان اور مغل یہاں آئے اور انہوں نے برصغیر کی ثقافت، سیاست، معیشت اور مذہب پر گہرے اثرات ڈالے۔ ان حملہ آوروں نے یہاں رہائش اختیار کی، مقامی تہذیب کو اپنایا اور اپنے اثرات ضرور چھوڑے، لیکن انہوں نے کبھی مقامی زبان، مذہب یا ثقافت کو ختم کرنے کی شعوری کوشش نہیں کی۔ ان کی موجودگی نے ایک مشترکہ تہذیب کو جنم دیا جس میں مقامی اور غیرملکی عناصر نے مل کر ایک ہم آہنگ تمدن کو تخلیق کیا۔
تاہم، برطانوی راج ان تمام حملہ آوروں سے مختلف تھا۔ انگریزوں نے جہاں مقامی نظامِ حکومت کو بدلا، وہیں مقامی زبان، مذہب اور ثقافت کو کمتر سمجھتے ہوئے اپنی زبان اور تہذیب کو اعلیٰ قرار دیا۔ انگریزی کو دانشوری، اقتدار اور ترقی کی علامت بنا کر پیش کیا گیا، جب کہ اردو، فارسی اور مقامی زبانوں کو کم علمی اور پسماندگی سے جوڑ دیا گیا۔ انگریزوں کا مقصد صرف حکمرانی نہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی مقامی عوام کو محکوم بنانا تھا، تاکہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو کمتر اور انگریز کو برتر سمجھیں۔ اس عمل سے ایک ایسی ذہنی غلامی پیدا ہوئی جو آج بھی ہمارے رویوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
شعیب نے اپنے فن کے ذریعے برطانوی راج کی ذہنیت اور رویوں کی عکاسی کےلیے ایسے الفاظ کو چُنا جو انگریز دور میں مقامی لوگوں کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال ہوتے رهے جیسے "جمعدار"، "بابو"، "وائٹ مغل" اور دیگر۔ ان الفاظ کو انہوں نے مشہور اردو لغت "فرہنگِ آصفیہ"سے لیا، جو 19ویں صدی میں سید احمد دہلوی نے تیار کی۔ یہ لغت صرف الفاظ کی وضاحت نہیں کرتی بلکہ اس وقت کے سماجی رویے اور سوچ کو بھی دکھاتی ہے۔ انگریز ماہرِ زبان جان گلکرسٹ نے اردو کے لیے پہلی انگریزی لغت تیار کی۔ اس کا مقصد انتظامی معاملات کو چلانا تھا، لیکن ان لغات کے ذریعے زبان کو کنٹرول کیا گیا -
اصطلاح "Brown Sahib" نوآبادیاتی ہندوستان میں سامنے آئی۔ برطانوی حکمرانوں نے تعلیمی پالیسی کے ذریعہ ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جسے، نسل و رنگ سے ہندوستانی، مگر ذوق و خیال، تہذیب میں انگریز ہونا چاہیے تھا۔ یہی نظریہ تھا جسےلارڈ تھامس میکالے نے 1835ء میں پیش کیا۔ اس نظام تعليم کا مقصد دانشور افراد پیدا کرنا نہیں تھا، بلکہ کلرک اور "بنگالی بابو" قسم کی نقال اور اطاعت گزار افرادی قوت تیار کرنا تھا، جو صرف حکم کی تعمیل کرے اور آزاد یا تنقیدی سوچ نہ رکھے۔ اس پس منظر میں، براؤن صاحب سے مراد وہ مقامی اشرافیہ تھی جو انگریزی طرزِ لباس، زبان اور آداب اختیار کرکے مغربی سرکار کے بہت قریب ہوگئی۔ دیگر ہندوستانیوں نے ایسے حضرات کو طنزیہ انداز میں "brown sahibs" کہنا شروع کیا-
فرانز فینون کا کہنا تھا کہ جن ملکوں پر غیر ملکیوں نے حکومت کی (نوآبادیاتی نظام)، وہاں کے امیر یا اعلیٰ طبقے کے لوگ اکثر ان حکمرانوں کی نقل کرنے لگتے۔ فینون نے ایسے لوگوں کو (mimic man) کہا یعنی ایسا انسان جو دوسروں کی صرف نقالی کرتا ہے اور اپنی اصل پہچان بھول جاتا ہے۔
اردو اور انگریزی ادب میں بھی بعض جگہ اس تصور پر طنزیہ تنقید ملتی ہے۔ ادبی کالم و خاکوں میں "Brown Sahib" ایسے کردار کا نشان ہے جو مغربی لبادہ اوڑھے ہوئے اپنے ہم وطنوں سے قدرے منفرد نظر آ نے کی کو شش کرتے ہیں۔
شعیب نے "جمعدار" کے عنوان سے فن پارے تحلیق کیے، جمعدار جو مغل دور میں عزت دار عہدہ تھا، لیکن انگریزوں نے اسے ایک چھوٹے ملازم کی علامت بنا دیا۔ "بابو" بھی تعلیم یافتہ طبقے کا نشان تھا، مگر بعد میں اسے کمزور اور چاپلوس کلرک کی پہچان بنا دیا گیا۔
نوآبادیاتی دور میں انگریزوں نے کچھ مخصوص الفاظ اور خطابات استعمال کیے۔ ان الفاظ کے ذریعے ایک ایسا نفسیاتی نظام بنایا گیا جس میں انگریز بر تر اور مقامی محکوم نظر آتے تھے۔ جمعدار نچلے درجے کا مقامی افسر یا نگران تھا جو صرف "اپنے لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے آلہ کے طور استعمال ہوتا تھا اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے۔ " کولی" مزدور جسمانی کام کرنے والے محنت کش مقامی افراد کے لیے یہ ا صطلا ح استعمال کی گئی۔ "کوکونٹ" اندر سے گورا یعنی مغربی یا انگریز، باہر سے کالا مقامی۔ "بابو" تعلیم یافتہ، کلرک یا نچلے درجے کا سرکاری ملازم جو اگرچہ پڑھا لکھا ہوتا تھا، انگریزوں نے اسے مذاق یا طنز کے طور پر استعمال کیا تاکہ وہ کبھی خود کو اصل فیصلہ ساز نہ سمجھیں کیو نکہ انگریز جانتے تھے کہ اصل غلامی جسمانی نہیں بلکہ ذہنی ہوتی ہے۔
شعیب محمود کے کام کا تجزیہ کیا جائے تو فنکار نے اپنے فن پاروں میں سیاہ رنگ کا پس منظر استعمال کیا ہے، جس پر مغلیہ بادشاہوں یا اس طرز کے کرداروں کو دکھایا گیا ہے۔ ان کرداروں کو زیورات، تلواروں اور نفیس نقش و نگار سے مزین کیا گیا ہے، جو اس خطے کی شاندار ثقافت اور فنونِ لطیفہ سے گہرے تعلق کو جاذبِ نظر انداز میں ظاہر کرتے ہیں۔ رنگوں کے تضاد اور خوبصورت ڈیزائن اس خطے کی تہذیبی رنگا رنگی کو نمایاں کرتے ہیں۔ تاہم، ان کرداروں کے چہروں کو غائب رکھا گیا ہے، جو نوآبادیاتی دور کی سو چ کو اجاگر کرتا ہے کہ مقا می لوگوں کی شناخت کو مسخ کیا گیا اور محتلف القاب سے ان کردار کو منسوب کیا گیا ۔
شعیب محمود اپنے کام کے با ر ے میں کہتے ھیں کہ میں نے اپنے فن پاروں میں طنزیہ انداز میں مغلیہ شخصیات کو جو نوآبادیاتی نظام سے پہلے خودمختاری اور نفاست کی علامت سمجهیں جا تیں تھیں کو ان نوآبادیاتی خطابات کے ساتھ جوڑا ہے۔ یہ شعوری تضاد تاریخی عظمت اور نوآبادیاتی القابات کے مسخرہ پن کو ایک ساتھ پیش کرتا ہے اور ثقافتی شناخت و وراثت کی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ میری یہ فنکارانہ جستجو ناظرین کو دعوت دیتی ہے کہ وہ سوچیں کہ کس طرح زبان آج بھی ہمیں اپنی پہچان اور دنیا میں اپنی جگہ کے بارے میں سوچنے پر اثر انداز ہوتی ہے۔
"Brown Sahib" صرف تصویری نمائش نہیں بلکہ ایک سوال ہے: کیا زبان، لباس اور رنگ کے ذریعے کسی قوم کو کمتر سمجھنا درست ہے؟ یہ نمائش ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ نوآبادیاتی دور نے ہماری ثقافت، زبان اور خودی کو کس طرح نقصان پہنچایا۔ شعیب محمود کا فن اس سوچ کی جا نب تو جہ دلاتا ہے کہ ہمیں اپنی زبان، شناخت اور ماضی کو سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم ذہنی غلامی سے آزاد ہو سکیں۔