Ghairat Ke Naam Par Qatal, Aik Muasharti Almiya
غیرت کے نام پر قتل، ایک معاشرتی المیہ
اس مبارک مہینے میں گزشتہ چند روز سے ایک اندو ہناک واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا کے جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ہے۔ درد، اذیت اور بے حسی کی انتہا ہے۔ اس قدر تکلیف ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی صاحبہ نے اس دکھ کا خاکہ اتارنے کی دلیرانہ کوشش کی۔ انہوں نے معاشرے کی اس سفاکشی کی بھرپور مزاحمت کرتے ہوئے اپنے قارئین کے زخموں کی رفو گری بہت عمدہ الفاظ سے کی۔
جب کبھی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو کلیجہ پھٹ سا جاتا ہے، گھٹن سی پیدا ہوتی ہے۔ جیسے کوئی آپ کا گلا دبا رہا ہو، موت آپ کے سر پر منڈ لا رہی ہو، سر درد سے پھٹنے لگتا ہے۔ چونکہ یہ واقعہ میرے نواحی علاقے کے پڑوس میں رونما ہوا اس لیے میں نے اپنا فرض عین سمجھا کہ اس پر تھوڑا دماغ خرچ کروں اور ایسے ناپاک جرائم کے اسباب اور سدباب تلاش کرنے کی سعی کروں۔
اِس ماہِ مبارک میں ایک نہیں بلکہ دو دو قتل ہوئے۔ ایک دریا چناب کے مشرق میں تو دوسرا مغرب میں۔ مشرقی واقعہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک نواحی علاقے میں جبکہ دوسرا دریا کے مغربی کنارے ہیٹھاڑ کے علاقے میں رونما ہوا۔ ہیٹھار کا قتل زیادہ شہرت نہ پاسکا۔ وہ بجائے خبروں کی سرخی بننے کے تھانوں کی فائیل میں داخل ہوا۔ نوجوان جب محبت کے بہکاوے میں بہک کر اپنے ساجن سے ملاقات کی غرض سے جاتا ہے تو اس کے بھائیوں کے ہاتھوں کی گرفت میں آ کر جان کی بازی ہار دیتا ہے۔ اس کا گلا دبا کر غیرت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ لاش ملنے پر قاتلوں کو گرفتار تو کر لیا گیا اور مقدمہ بھی درج کیا گیا لیکن اس کے باوجود مقتول کے لواحقین بدلے کی آگ سینے میں جلائے بیٹھے ہیں۔ چہ مگوئیاں ماری جا رہی ہیں کہ موصوف نے ملاقات کے لیے کوئی ایسی دوا استعمال کی جس کے اثر کی وجہ سے موت ہوئی۔ اب حقیقت کیا ہے واللّه علم۔ فرانزک رپورٹ کے بعد ہی کچھ حتمی طور کہا جا سکتا ہے۔
جبکہ دوسرا واقعہ پہلے واقعہ سے کہیں زیادہ اندوہناک اور دل دہلا دینے والا ہے۔ کیونکہ اس میں قاتل، ساتھ پیدا ہونے والا، بھائی اور موت کا فیصلہ سنانے والا، پیدا کرنے والا، باپ ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی تحریر "حوصلہ رکھ حوصلہ" سے اس منظر کا دلیرانہ خاکہ اتارا، ان کی تحریر اور الفاظ قاری کو رلا دیتے ہیں، جسم کا رواں رواں لرز جاتا ہے۔ اس تحریر کا عنوان میرا سینا چیر دیتا ہے۔ بیٹی کی موت لکھنے والا باپ کیسے یہ الفاظ ادا کرسکتا ہے؟
یہ الفاظ میرے لیے لکھنا، قاری کے لیے پڑھنا، سننے والے کے لیے سننا تو سہل ہو سکتے ہیں لیکن ایک باپ خواہ کتنا ہی درندہ صفت کیوں نہ ہو! کیوں کر ممکن ہے کہ وہ خود سے جننے والی بیٹی کا قتل لکھ کر، اس پر عمل درآمد کراتے ہوئے، دوسروں کو حوصلہ دیتے ہوئے یہ الفاظ ادا کرے "حوصلہ رکھ حوصلہ میری وی تے دھی ہے"۔ اس کا من بھی بوجھ سے خالی تو ہرگز نہ ہوگا۔ شاید اس پر بھی من و من بوجھ ہو۔ خواہ غیرت کے نام پر، معاشرتی دباؤ کی بنا پر یا تعلیم کے فقدان کی وجہ سے۔ کوئی باپ اتنا سنگ دل کیسے ہو سکتا ہے کہ بیس سال پال پوس کر اسے جوان کرے اور اچانک اس کی موت کا فیصلہ کر دے۔
ایسے فیصلے عموماً دو دھاری تلوار کی مانند ہوتے ہیں۔ اگر فیصلہ کر دیا تو موت اور اگر نہ کیا تب بھی موت۔ آگے کنواں پیچھے کھائی۔ اول اگر قتل کا فیصلہ کیا تو موت کی سزا موت ہی ہے۔ اور مان لیجیے کہ اگر وہ اس سزا سے بچ بھی گیا۔ اس صورت میں وہ اپنے اندر ہی کڑہتا رہے گا۔ ایک صحابی نے اپنی بیٹی کو زمانہ جاہلیت میں زندہ درگود کر دیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمان ہو کر بھی وہ اس اذیت میں اس قدر مبتلا رہے کہ وہ جب بھی سوتے، ننی سی جان خواب میں آ کر ان کا گریباں پکڑ کر بار بار سوال کرتی، مجھے کیوں درگود کیا؟ میں نے آ پ کا کیا بگاڑا تھا؟ مزید براں یہ بھی حقیقت ہے قتل کبھی چھپا نہیں۔ قاتل کو دنیا اور آخرت دونوں میں سزا ملتی ہے۔ فرمان الہی ہے "جس نے ایک بے گناہ کا قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا"۔
بصورت دیگر اگر خاموشی اختیار کی، تو کوئی اسے سکھی نہیں رہنے دے گا۔ معاشرے کے طعنے تشنے اور بے عزتی سے تنگ آ کر وہ عموماً موت کو ہی گلے لگا بیٹھتا ہے۔ مجھے یاد ہے چاچا اللہ بخش (ایک فرضی نام) جس نے اپنی محنت و مزدوری سے ہمیشہ رزق حلال کمایا۔ وہ ایک دہائی تک ایک فیکٹری میں کام کرتا رہا۔ دن رات ایک کرکے اور اپنے خون پسینے کی کمائی سے اس نے اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ وہ ایک تندرست و توانا دیہاتی آدمی تھا۔ اپنی زندگی میں اور بچوں کی دیکھ بھال میں خوش۔ جب اس کی بیٹی جوان ہوئی تو وہ بیچاری کسی اجنبی کو اپنا دل دے بیٹھی۔
اس ظالم جادوگر نے نہ جانے کوئی ایسا جادوی منتر پڑھایا کہ اپنے باپ کی پری باپ کو چھوڑ کر اس کے ساتھ چل دی اور ایک بار بھی مڑ کر نہ دیکھا۔ اللہ بخش کے لئے یہ صدمہ بہت گہرا تھا۔ وہ بہت سادہ آدمی تھا اور معاشرے کی بے رحمی کو سہ نہ سکا۔ اس نے اپنی دکان پر بیٹھنا ہی چھوڑ دیا۔ اس عمل سے اس کا کاروبار ٹھپ ہوگیا۔ کوئی خوشی ہو غمی ہو اللہ بخش نہیں جا پاتے تھے۔ لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لیے گھر کے ہی ایک کونے کا انتخاب کیا۔ یہاں تک کہ معاشرے کی سفاکشی کو تاب نہ لاتے ہوئے ان کا جسم پگھلتی برف کی مانند کمزور پڑ گیا اور وہ خالق حقیقی سے جاملے۔
میری اب تک کی زندگی میں، اپنے اردگرد میں نے متعدد ایسے واقعات دیکھے ہیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور قتل کی ریت انسانی تاریخ کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کا قتل کرکے اس ریت کی داغ ڈال دی۔ ہر دور میں قتل کی وبا عام رہی ہے۔ کبھی بیٹا باپ کا قاتل تو کبھی باپ بیٹے کا، کبھی بھائی بھائی کا قاتل تو کبھی بہن اور ماں کا، کبھی بہن بھائی کی قاتل تو کبھی ماں بیٹی کی، کبھی بیٹی ماں کی قاتل، کبھی بادشاہ رعایا کا قاتل تو کبھی رعایا بادشاہ کی قاتل، کبھی ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کا قاتل لیکن فی الحال غیرت کے نام پر قتل کو بیان کرنا مقصود ہے۔ متعدد واقعات ہیں لیکن یہاں پر سب کو بیان کرنا مناسب نہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
میں میاں اسلم کو کیسے بھول سکتا ہوں! جو ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے کے اس قدر گرویدہ تھے کہ کہیں بھی ڈھول کی محفل ہوتی وہ بن بلائے مہمان کی طرح پہنچ جاتے۔ کہتے ہیں شوق کا کوئی مول نہیں۔ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ شاید یہ ضرب المثل ان کے مزاج کو نمائیاں کرتی تھی۔ موصوف اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے بھانجے سے کروانا چاہتے تھے۔ جبکہ وہ دوشیزہ تو آتش عشق میں کود چکی تھی اور میاں اسلم صاحب بضد تھے کہ ان کی بہن کا لڑکا ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔ جب معاملات شدت اختیار کر گئے تو اس دوشیزہ نے اپنے ساجن کے ساتھ بھاگ کر زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ بیٹی کی اس طرح سے جدائی میاں صاحب کے لئے اس قدر شرمندگی کا باعث بنی کہ وہ اپنا منہ چھپائے پھرنے لگے۔ ڈھول تو دور کی بات وہ کسی کے جنازے میں بھی شرکت نہ کرتے۔
خالہ زاد بہن سے پیار کرنے والا خالہ زاد بھائی جب خالہ زاد بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہوا تو اس علاقے میں ایک طوفان بلا برپا ہوگیا۔ مقتول کے لواحقین کا بس یہی مطالبہ تھا کہ اگر عشق ایک جرم ہے اور لڑکی لڑکے کا اس طرح ناجائز تعلق رکھنا کفر ہے تو اس کفر کی سزا صرف لڑکے کو ہی کیوں؟ جبکہ آگ تو دونوں طرف برابر کی تھی۔ اپنے اس مطالبے کی بنیاد پر اور قانون کو خاطر نہ لاتے ہوئے۔ مقتول کے بھائی نے خالہ زاد بھائی کو ہی قتل کر دیا اور اپنے بھائی کا بدلہ لیا۔ اس طرح ایک جنگ شروع ہوگئی۔ عموماً جب اس طرح کی جنگ شروع ہوتی ہے تو معاشرتی جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ دونوں فریقین اپنے کاروبار اور نوکریوں سے جاتے رہے۔ چوری، ڈکیٹی اور راہ زنی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ نتیجتا اس خاندان کا کوئی مرد آج زندہ نہیں۔
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ دو میں ہے۔ ایسے قتل کی عام وجہ غیرت ہی ہوتی ہے اور غیرت کی بنیاد محض معاشرتی اقدار ہیں۔ جب ایک گروہ انسان ایک جگہ اکٹھا ہو کر رہتا ہے تو ان کے اچھائی اور برائی کے خیالات یکساں ہوتے ہیں۔ ان میں خوشی کی باتیں اور نفرت کی چیزیں ایک سی ہوتی ہیں۔ ظہور اسلام سے قبل جب عرب میں بیٹیوں کو زندہ درگود کیا جاتا تھا تو اس کی وجہ بھی معاشرتی اقدار تھے۔ اہل عرب داماد اور بہنوی جیسے الفاظ کو ہی توہین امیز سمجھتے تھے۔ کسی کی غیرت گوارا نہ کرتی کہ وہ اس منحوس گالی کو سنیں۔ اس لئے بیٹی کے پیدا ہوتے ہی اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جاتا۔ اسے زندہ درگود کر دیتے۔ اسلام نے ظہور پاتے ہی اس عمل کو جاہلیت قرار دیا۔ معاشرے میں غیرت کے اس معیار کو ہی یکسر بدل دیا۔ بیٹی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ جس کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہوئیں، اس نے ان کی اچھی طرح پروش کی یہاں تک کہ ان کو نکاح کے ساتھ رخصت کیا وہ جنت کا حق دار ٹھہرا۔
آج ہمارے معاشرے کو اصلاح کی اشد ضرورت ہے، ایسے عمل ہوتے ہی کیوں ہیں؟ یہ محض تعلیم کا فقدان ہے اور اسلام سے دوری ہے۔ ہمیں اسلام کو سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک مکمل دین ہے۔ جو زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔ اگر ہم اسلام کے بتائے ہوئے حقوق و فرائض کو صحیح طرح سر انجام دیں تو ایسی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ذرا مشکل نہیں۔ والدین کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی صحیح پروش و تربیت کریں اور ان کا نکاح کریں۔ ناجائز تعلقات ہی ذلت کا باعث بنتے ہیں۔ اسلام نے اس کے مد مقابل نکاح کو متعارف کرایا جو حلال اور پاکیزہ عمل ہے۔ اگر باپ اور بیٹی دونوں تعلیم یافتہ ہوں تو شاید ایسے مواقع پیدا ہی نہ ہوں۔ دو واقعات ایسے ہیں جو تعلیم کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل حویلی بہادرشاہ کے علاقے میں ایک ایسا واقعہ وقوع پذیر ہوا جس کو دیکھ کر جسم کا رواں رواں کانپ جاتا ہے۔ ایک سنگ دل باپ نے اپنی بیٹی کا اور اس کی ماں کا گلا کاٹ کر خود زہر پی لی۔
اس طرح اس ظالم نے اپنے چھوٹے سے گلشن کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکا۔ وجہ کچھ نہیں تھی۔ بس تعلیم کا فقدان تھا۔ جاہل باپ کو کچھ معلوم نہ تھا کہ بیٹی اور بیوی کے حقوق کیا ہوتے ہیں یا اس کے فرائض کیا ہیں۔ صرف اس بات پر کہ اس کا رشتہ میں اپنی مرضی سے کروں گا اس ننھی سی جان کو، حافظِ قرآن کو خون کی ندی میں دھکیل دیا۔ ایک چھوٹی سی بات پر اس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا کہ اپنے ہی گھر کو جلا کے راکھ کر دیا۔ جبکہ دوسری جانب آپ نے ایک مشہور زمانہ دعا زہرا کا کراچی سے بھاگ کر لاہوری لڑکے ضمیر کے ساتھ شادی رچانا تو ضرور سنا ہوگا۔ جس میں ایک پڑھا لکھا اور سمجھدار باپ بیٹی کے اس عمل کو ایک نہ سمجھی مان کر معاف کردیتا ہے۔ عدالت سے رجوع کرکے، قانون کے مطابق اپنی بیٹی کو لاہور سے واپس کراچی بلاتا ہے اور بجائے اس کے قتل کا فیصلہ سنانے کے وہ اس کی مزید پرورش کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے۔ سلام ہے ایسے باپ کو!
ہر مسلمان پر خواہ وہ مرد ہو یا عورت تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے۔ تعلیم اور شعور سے ہی مہذب معاشرے وجود میں آتے ہیں۔ تعلیم ہر کسی پر اس کے حقوق و فرائض کو واضح کرتی ہے۔ شعور کئی معاشرتی بیماریوں کا قلع قمع کرتا ہے۔ اگر میاں اسلم کو شعور ہوتا کہ بیٹی کے فیصلے کی بھی اہمیت ہوتی ہے تو آج شاید اس کا شوق زندہ ہوتا۔ اگر ہیٹھاڑ کے نوجوان کو معلوم ہوتا کہ یوں ساجن سے ملنا حرام ہے تو شاید وہ اپنی جوانی کا شباب ضرور دیکھتا اور اگر خالہ زاد بھائی اس حرام عمل سے باز رہتے تو آج یقیناً اس خاندان کے چراغ روشن ہوتے۔